Loading
بنیادی مسئلہ حکومت،اسٹیبلیشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان بدترین بداعتمادی کا ہے ۔ اگر یہ سیاسی نوعیت کے اختلافات تک محدود ہوتا تو یقینی طور پرسیاسی لوگ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کوئی راستہ نکال لیتے ہیں۔ لیکن جب مسئلہ ہٹ دھرمی تک پہنچ جائے تو مفاہمت کے امکانات بہت محدود ہوجاتے ہیں ۔ ہمارا مسئلہ سیاسی مفاہمت نہیں بلکہ یہ ہے کہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات ہوگی ہے ۔ یعنی ہر فریق اپنی برتری پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیارنہیں ہے۔ بنیادی طور پر بداعتمادی کے ماحول میں اگر مفاہمت کو آگے بڑھانا ہے تو پہلا نقطہ سازگار حالات کو یقینی بنانا ہوتا ہے ۔ موقف میں لچک پیدا کرنا ہوتا ہے، اس کے لیے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے اور اشارے دیے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ پیدا کرتے ہیں یا ان کے پہلے سے موجود سخت گیر یا ڈیڈ لاک پر مبنی رویہ میں لچک دکھاتے ہیں۔مگر کسی جانب سے ماحول سازگار بنانے کے اشارے نہیں مل رہے ہیں۔ اب پی ٹی آئی نے مذاکرات کی بات کی ہے اور حکومت سے مذاکرات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی اور یہ پہلی بار ہوا کہ پی ٹی آئی نے براہ راست اپنے اس موقف سے ہٹ کر کمیٹی بنائی کہ ہم صرف اور صرف اسٹیبلیشمنٹ سے ہی بات چیت کریں گے ۔ پی ٹی آئی کا موقف یہ ہی رہا کہ حکومت سے بات چیت کرنا اس کی رٹ کو تسلیم کرنا ہے اور دوسری طرف ان کے بقول ہمارے بارے میں فیصلوں کا اختیار حکومت کے پاس نہیں بلکہ طاقت ور طبقہ کے پاس ہے تو بات چیت بھی ان ہی سے ہوگی ۔لیکن پی ٹی آئی میں موجود مفاہمت کے حامی افراد نے بانی پی ٹی آئی کو راضی کیا ہمیںحکومتی پلیٹ فارم بھی استعمال کرنا ہوگا۔لیکن اب حکومتی سطح سے بعض وفاقی وزرا براہ راست پی ٹی آئی کا مذاق اڑا رہے ہیں اور ان کے بقول شکست خوردہ پی ٹی آئی حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے۔ دوسری جانب مذاکرات کے لیے حالات کو سازگار بنانے کے بجائے حکومت آج بھی مسلسل بانی پی ٹی آئی کے ایشو پر کوئی لچک کا تاثر نہیں دے رہی ہے۔ فیصل واڈا کے بقول بانی پی ٹی آئی کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا۔اہم بات یہ ہے کہ حکومت میں کچھ لوگ پی ٹی آئی سے مذاکرات کی حمایت اور کچھ مخالفت کررہے ہیں ۔مخالف طبقہ کی شرط ہے کہ جب تک کھل کر بانی پی ٹی آئی 9مئی کے واقعات پر پاکستان کے عوام سے براہ راست معافی نہیں مانگیں گے، بات چیت ممکن نہیں۔ اب نئی صورتحال میں حکومت پی ٹی آئی پر پولیس اور رینجرز کے قتل کے مقدمات درج کررہی ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں پر اپنے کارکنوں کے قتل کا مقدمہ بھی درج کرا رہی ہے۔ ایک طرف مذاکرات کی باتیں تو دوسری طرف ایک دوسرے پر مقدمے بازی، یوں تلخیوں میں اور زیادہ شدت پیدا ہو رہی ہے۔بعض اہل دانش یہ منطق دے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کیونکر تھک گئی ہے تو اس لیے اس کے پاس حکومت کے ساتھ مذاکرات کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ جب کہ بعض صحافی مسلسل یہ دہائی دے رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی نہ تو رہائی ہوگی اور نہ ہی ان کو ریلیف ملے گا اور ان کا کھیل ختم شد۔اب اندازہ لگائیں ایسے میں مذاکرات ایک ایک تماشے سے کم نہیں لگتا ۔ ویسے بھی حکومت ہو یا اسٹیبلیشمنٹ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی قسم کی ایسی مفاہمت کی حامی نہیں جس کا مقصد بانی پی ٹی آئی کو ریلیف دینا ہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں خود حکومت کے اپنے اندر بھی مذاکرات کے تناظر میں مختلف نوعیت کے تضادات نمایاں نظر آتے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ مذاکرات اور مفاہمت کی سیاست کا براہ راست تعلق ملک کی موجودہ صورتحال میں سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی سمیت گورننس کے استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں جس طرح سے ریاست اور حکومت کا نظام چل رہا ہے وہ بہتر نتائج دے سکے گا تو پہلے بھی غلطی پر تھے اور آج بھی غلطی پر ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں اطراف ایسے سخت گیر لوگ موجود ہیں جو مفاہمت کی سیاست کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی مفاہمت یا مذاکرات کی بات آگے بڑھتی ہے یااس پر بات چیت ہوتی ہے تو اس میں مختلف نوعیت کی عملی سطح کی رکاوٹیں یا بداعتمادی کا ماحول پیدا کردیا جاتا ہے ۔ عمومی طور پر مسئلہ اگر حکومت اور حزب اختلاف میں ڈیڈ لاک کا ہوتا تو ریاستی سطح پر اس ڈیڈ لاک کو توڑنے میں کردار ادا کیا جاتا۔لیکن یہاں مسئلہ حزب اختلاف کی سیاست سے حکومت کو ہی نہیں بلکہ خود اسٹیبلیشمنٹ کی سطح پر بھی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ڈیڈ لاک کی گہرائی زیادہ پیچیدہ ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اگر مذاکرات کی میزسجنی ہے تو یہ کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوگا۔اسی طرح سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اصل فیصلے بانی پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہی ہیں اور مذاکرات کا حتمی فیصلہ یا مذاکرات کے نتیجے میں جو کچھ بھی طے ہونا ہے وہ انھوں نے ہی طے کرنا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو مائنس کرکے مذاکراتی کمیٹی کی مدد سے آگے بڑھا جاسکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے ۔ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے اور حقیقی قیادت کو تسلیم کرکے ہی ان کی سیاسی حیثیت کو مان کر سیاسی راستہ یا سیاسی مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کی جانب سے مذاکرات کی بات کو اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور اگر یہ نہیں ہے تو پھر ان مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ۔ مذاکرات اور مفاہمت کی کامیابی کی کنجی درمیانی راستہ اور ایک دوسرے کے سیاسی موقف میں لچک پیدا کرنے سے جڑا ہوتا ہے ۔اس وقت سب ہی فریق سخت موقف اور لچک پیدا کیے بغیر اپنے اپنے مفادات کو بنیاد بناکر کھڑے ہیں ۔ایسے میں کوئی کسی کے لیے راستہ نکالنے یا خود سے درمیانی راستہ نکالنے کے لیے تیار نہیں ۔اس مفاہمت اور مذاکرات سے انکاری یا اس میں تاخیری حربے کی ایک بھاری قیمت مجموعی طور پر پورے ریاستی نظام کو منفی انداز میں ادا کرنا پڑرہی ہے ۔ اس منفی سیاست نے ہمیںداخلی، علاقائی اور خارجی سیاست میں تنہا بھی کیا ہے اور ہماری مشکلات میں اضافہ بھی کردیا ہے ۔مگر ہم ہیں کہ کچھ بھی اپنی اصلاح کے لیے تیار نہیں ۔ایک مسئلہ 9مئی کے واقعات پر معافی مانگنے یا اس پر عدالتی کمیشن بنانے کا ہے اور اس پر حکومت اور پی ٹی آئی میں ایک بڑا ڈیڈ لاک موجود ہے۔ اس مسئلہ پر سیاست زیادہ ہو رہی ہے اور مسلسل الزامات کی سیاست کا غلبہ ہے جس میں سیاست اور جمہوریت کا نظام کہیں پھنس کر رہ گیاہے ۔اس لیے حکومت ہو یا حزب اختلاف مسئلہ یہ نہیں کہ کون غلط اور کون درست بلکہ اصل مسئلہ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے بارے میں بھی اور ملک کے مسائل پر زیادہ سنجیدگی اور ذمے داری دکھانے کی ضرورت ہے ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل