Friday, July 04, 2025
 

روس افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا

 



روس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے افغانستان کے نئے سفیر کی اسناد قبول کرلی ہیں جس کے بعد روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ روسی خبر رساں ایجنسی RIA Novosti کے مطابق یہ اعلان روسی صدر کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے کیا۔ روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی امارت افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اقدام، دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعمیری دوطرفہ تعاون ک کو مزید تقویت دے گا۔ روسی وزارت خارجہ کے بیان میں اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی، انسداد دہشت گردی اور منشیات کے خلاف جنگ میں تعاون، مدد اور حمایت جاری رکھیں گے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور معیشت کے شعبوں سمیت خاص طور پر توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور انفراسٹرکچر میں بھی بڑے مواقع موجود ہیں۔ افغان وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ روسی سفیر دمتری ژیرنوف نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی اور انہیں اس فیصلے سے آگاہ کیا۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک بیان میں کہا کہ ہم روس کے اس جرات مندانہ اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان شاء اللہ یہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔ اس طرح روس دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ تاحال کوئی بھی ملک رسمی طور پر طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرتا تاہم چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان نے کابل میں اپنے سفیر تعینات کیے ہیں البتہ اب تک باضابطہ تسلیم نہیں کیا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان اس وقت شدید معاشی بحران سے دوچار ہے جبکہ امریکا نے تقریباً 7 ارب ڈالر کے افغان اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ ایسے میں روس کی حمایت اس کے لیے تقویت کا باعث ہوگی۔ طالبان اور روس کے درمیان تعلقات کی تاریخ  روس اور طالبان کے درمیان تعلقات بتدریج فروغ پا رہے ہیں۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ سال کہا تھا کہ طالبان اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں روس کے اتحادی ہیں۔ سنہ 2022 سے افغانستان نے گیس، تیل اور گندم کی درآمدات روس سے شروع کیں۔ اگرچہ 2003 میں روس نے طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا، لیکن رواں سال اپریل 2025 میں یہ پابندی ختم بھی کردی تھی۔ روس کے لیے افغانستان سے تعاون ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اسے افغانستان سے مشرق وسطیٰ تک پھیلے علیحدگی پسند عسکری گروہوں سے سنگین سیکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔ مارچ 2024 میں، ماسکو کے باہر ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 149 افراد مارے گئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ طالبان حکومت نے امریکا سے معاہدے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک پر حملے یا پناہ دینے کے لیے استعال نہیں ہونے دیں گے۔ یہی یقین دہانی طالبان حکومت نے روس کو بھی کرائی ہے اور کہا تھا کہ وہ افغانستان سے داعش کا خاتمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔   یہ بھی یاد رہے کہ روس کی افغانستان کے ساتھ ایک پیچیدہ اور خون آلود تاریخ ہے۔ دسمبر 1979 میں سوویت افواج نے ایک کمیونسٹ حکومت کی حمایت کے لیے افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔ تاہم امریکا کی افغانستان میں روسی فوج کے ساتھ لڑنے والوں کی حمایت سے طویل جنگ میں سویت یونین کو شکست ہوئی تھی۔ سابق سوویت رہنما میکائل گورباچوف نے بالآخر 1989 میں افواج کو واپس بلایا اس وقت تک تقریباً 15,000 سوویت فوجی ہلاک ہو چکے تھے۔ بعد میں 15 ریاستوں کے اتحاد ’’سویت یونین‘‘ کا بھی شیرازہ بکھر گیا تھا۔    

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل