Friday, July 04, 2025
 

کسان کا بچہ کسان کیوں نہیں بننا چاہتا؟ ایک سماجی المیہ

 



’’پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘‘۔ ہم بچپن سے یہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد زراعت پر رکھی گئی ہے، اور ہمارا ملک قدرتی وسائل، زرخیز زمین، چار موسموں اور محنتی کسانوں سے مالا مال ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا کسان، جو اس ساری بنیاد کا ستون ہے، خود بدحالی، پسماندگی اور محرومیوں کی چکی میں پس رہا ہے۔ ایک قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر ہم واقعی پاکستان میں زرعی ترقی چاہتے ہیں تو صرف فصل کی پیداوار بڑھانے پر توجہ دینا کافی نہیں، بلکہ اس فرد  ’’کسان‘‘ کی سماجی و معاشی زندگی کو بہتر بنانا بھی ناگزیر ہے۔ کیونکہ خوشحال کسان ہی زرعی ترقی کی اصل ضمانت ہے۔   کسان کے بچے کا کسان نہ بننے کا المیہ ڈاکٹر اقرار احمد خان، موجودہ چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن، جو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر بھی رہے ہیں، ایک بار بڑی سچائی سے کہہ چکے ہیں۔ ’’ہمارے زرعی نظام کا بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں ڈاکٹر کا بچہ ڈاکٹر اور انجینئر کا بچہ انجینئر بننا چاہتا ہے، وہاں کسان کا بچہ ہرگز کسان نہیں بننا چاہتا۔‘‘ یہ صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک پورے معاشرتی بحران کی عکاسی ہے۔ کسان خود بھی اپنی زندگی سے اتنا غیر مطمئن اور مایوس ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا بچہ بھی اسی پیشے سے وابستہ ہو۔ یہ اس معاشرے کےلیے لمحۂ فکریہ ہے جو زراعت کو اپنی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہتا ہے۔   مسائل کی جڑ: کسان کی سماجی پسماندگی ہمارا کسان صرف فصل اگانے والا مزدور نہیں بلکہ وہ ایک باپ، ایک شہری، ایک پاکستانی ہے جس کی زندگی کا معیار بہتر ہونا چاہیے۔ مگر آج بھی وہ: غیر یقینی موسمی حالات کا شکار ہے؛ زرعی مداخل (بیج، کھاد، زرعی ادویات) کی قیمتوں کے بوجھ تلے دبا ہے؛ فصل کے بعد منڈی میں استحصال کا سامنا کرتا ہے۔ اور قرض کے جال میں پھنسا رہتا ہے۔ اس تمام صورتحال میں کسان کی زندگی ایک دائمی جدوجہد کا نام بن چکی ہے۔   حل: کسان کی زندگی میں وقار، سہولت اور تعلیم اگر ہم پاکستان میں زرعی انقلاب دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کسان کی زندگی کو معاشرتی عزت، مالی تحفظ اور تعلیمی ترقی دینا ہوگی۔ ذیل میں کچھ قابلِ عمل حل دیے جا رہے ہیں: دیہی تعلیم اور زرعی شعور ہمیں ہر گاؤں میں زرعی اسکول قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں جدید زرعی علوم کو مقامی زبان میں پڑھایا جائے۔ بچوں کو فصلوں کی سائنس، مٹی کی زرخیزی، موسمیاتی تبدیلی، پانی کے انتظام، اور مشینی کاشت جیسے موضوعات پر عملی تربیت دی جائے۔ مزید یہ کہ ہر ضلع میں فیلڈ ریسرچ سینٹر اور کسان یونیورسٹی کا قیام نہایت ضروری ہے۔ یہ مراکز تحقیق، ٹریننگ اور کسانوں کو جدید رجحانات سے جوڑنے کا کام کریں گے۔   معاشی استحکام اور آسان قرضہ جات بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ دیہی علاقوں میں کسانوں کو بلاسود یا کم شرح پر زرعی قرضے فراہم کریں۔ ساتھ ہی فصلوں کی قیمت کا بروقت اعلان اور ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تاکہ کسان کو مالی غیر یقینی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔   سستی زرعی مداخل اور ٹیکنالوجی کی ترسیل بیج، کھاد، زرعی ادویات اور مشینری سستی اور معیاری مہیا کی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک مضبوط سپلائی چین بنائے جو مڈل مین کلچر کو ختم کر کے کسان کو براہِ راست فائدہ دے۔ مزید برآں، زرعی موبائل ایپس، SMS سروسز اور کسان ہیلپ لائنز کے ذریعے بروقت معلومات فراہم کی جائیں تاکہ کسان جدید زرعی فیصلے خود لے سکے۔ سماجی وقار اور دیہی زندگی کی بہتری کسان کو عزت دینا صرف اس کے کام کی قدر کرنا نہیں، بلکہ اس کی سماجی زندگی میں بہتری لانا بھی ہے۔ دیہاتوں میں صحت، تعلیم، انفرااسٹرکچر اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ کسان کا بچہ بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس اپنے گاؤں آ کر وہیں کام کرنا فخر محسوس کرے۔ کسان کو نمائندگی دینا کیا آج ہمارے قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی یا مقامی حکومتوں میں کسان کی موثر نمائندگی موجود ہے؟ اگر نہیں، تو پھر ہم کیسے امید کریں کہ ان کی آواز ایوانوں میں سنی جائے گی؟ ایک مربوط کسان کونسل کا قیام، جس میں تمام صوبوں سے نمائندے شامل ہوں، نہایت ضروری ہے۔   کسان کا فخر بحال کریں ہمیں وہ وقت واپس لانا ہے جب کسان ہونا فخر کی علامت تھا۔ ہمیں زرعی شعبے کو صرف ایک اقتصادی ستون نہیں، بلکہ ایک سماجی و ثقافتی پہچان سمجھنا ہوگا۔ کسان صرف گندم، چاول یا کپاس نہیں اُگاتا، بلکہ وہ اس ملک کی خوراک، معیشت اور خودمختاری اگاتا ہے۔ اس لیے کسان کا بچہ اگر پھر سے کسان بننے پر فخر کرے، تو یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ زرعی ترقی تب ہی ممکن ہے جب کسان کی زندگی باعزت، خوشحال اور بااختیار ہوگی۔ اس کے بغیر نہ زرعی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے، نہ دیہی ترقی اور نہ ہی ملکی خودکفالت۔ یہ وقت صرف زرعی اصلاحات کا نہیں، کسان کی زندگی کی اصلاح کا بھی ہے۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل