Loading
شمال مشرقی ایران کے شہر زاہدان میں مسلح افراد کے عدالتی کمپاؤنڈ پر اچانک حملے میں 6 افراد جاں بحق جبکہ 22 زخمی ہوگئے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ حملہ ایک منظم کارروائی کے تحت کیا گیا جس میں مسلح افراد نے عدالت کی عمارت کو نشانہ بنایا۔ عرب میڈیا کے مطابق حملہ آور ججز کے کمروں میں گھس کر فائرنگ کرتے رہے۔ فورسز کی جوابی کارروائی میں 3 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ صوبے کے نائب کمانڈر برائے قانون نافذ کرنے والے ادارے علی رضا دلیری نے ایرانی میڈیا کو بتایا کہ دہشت گرد گروہ کے افراد ہفتے کی صبح زاہدان کی عدلیہ میں سائلین کا روپ دھار کر داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے، تاہم سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کردیا۔ دلیری کے مطابق دو حملہ آوروں کو عدالتی عمارت کے قریب ایک سڑک پر اس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ فرار کی کوشش کر رہے تھے، جبکہ تیسرا حملہ آور دستی بم پھاڑنے سے قبل ہی مارا گیا۔ تاہم اس دھماکے کے نتیجے میں چند عام شہری جاں بحق ہوگئے، جن میں ایک ماں اور ایک سال کا بچہ بھی شامل ہے۔ دلیری نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ زاہدان میں اسلامی انقلابی گارڈز کور (IRGC) نے بھی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے ہلاکتوں کی تعداد چھ بتائی ہے، جبکہ ایک علیحدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں 22 افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں۔ ایرانی عدلیہ نے بھی حملے اور بعد میں ہونے والی جھڑپوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ کئی افراد زخمی ہوئے، اور فوری طور پر امدادی ٹیموں کو جائے وقوعہ پر بھیج دیا گیا۔ عدالتی بیان کے مطابق زخمیوں کو عدالتی عمارت سے نکال کر طبی مراکز منتقل کیا گیا، جبکہ سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے عمارت میں موجود سائلین اور عملے کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ اس وقت عدالتی عمارت کے اردگرد سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ خبر رساں ایجنسی مہر نیوز کے مطابق جیش العدل نامی مسلح گروہ نے زاہدان میں عدالتی کمپاؤنڈ پر ہونے والے حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ ادھر ملک کے مغربی حصے میں بھی ایک اور پرتشدد واقعہ پیش آیا۔ صوبہ مغربی آذربائیجان کے شہر سردشت کے نواحی گاؤں اغلان میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ایک اڈے پر حملہ کیا گیا، جس میں ایک اہلکار شہید اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ ’مہر نیوز‘ کے مطابق یہ حملہ ایک دہشت گرد گروہ کی جانب سے کیا گیا، جو گاؤں میں قائم فوجی اڈے کو نشانہ بنا رہا تھا۔ پاسدارانِ انقلاب کے مغربی آذربائیجان شہدا بیس کے ترجمان کرنل شاکر نے بتایا کہ حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کی، تاہم حملے کی مکمل تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔ حکام نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ اس واقعے میں کرد علیحدگی پسند گروہ ملوث ہو سکتا ہے، جو ماضی میں بھی خطے میں ایسی کارروائیوں میں شامل رہا ہے۔ ان دونوں حملوں نے ایران میں سلامتی کی صورتحال پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ زاہدان اور سردشت میں ہونے والی ان پرتشدد کارروائیوں کی تحقیقات جاری ہیں اور مقامی حکام ابھی تک ان کے پیچھے کارفرما عناصر کی نشاندہی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ عوامی سطح پر بھی ان حملوں کے بعد تشویش اور بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے، جبکہ حکومت پر سیکیورٹی مزید سخت کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل