Tuesday, February 04, 2025
 

اقتصادی بحالی، معیشت کا استحکام

 



پاکستان اور سعودی ڈیولپمنٹ فنڈ کے درمیان 1.61 ارب ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط ہوگئے، وزارت خزانہ حکام کے مطابق مختلف شعبوں میں مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کیے، وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف ، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور سعودی سفیر موجود تھے۔ پاکستان کی معیشت دو سال بعد آخرکار مستحکم ہوگئی ہے۔ اعداد و شمار خود بولتے ہیں۔ پاکستان نے 15 برس میں چھ ماہ کا سب سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا ہے، جب کہ مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور ترسیلات زر کی مد میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے بحالی ہوئی ہے جو اب تقریباً 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان، ملکی معیشت کو رواں رکھنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز اور دوست ملکوں پر انحصار کرتا ہے۔ جن میں خصوصی طور پر چین اور سعودی عرب شامل ہیں جو تجارتی اور مالیاتی حوالے سے پاکستان کے مستقل شراکت دار ہیں۔ بلاشبہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) نے اہم خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے خصوصی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ برس سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کے 15 سے 16 اپریل کے درمیان، پاکستانی دورے سے گرمجوشی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اس دورے میںان کے ساتھ اعلیٰ ماہرین کا وفد شامل تھا، جس نے ان امور کا جائزہ لیا جس میں سعودی عرب، پاکستان میں ایک سے دو سال کے درمیان 2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، جسے اگلے پانچ سالوں میں 25 بلین ڈالر تک بڑھا دیا جائے گا۔  سعودی عرب میں سب سے زیادہ پاکستانی افرادی قوت، وہاں کے مختلف شعبوں میں اپنی قابل قدر خدمات فراہم کررہی ہے۔ جس میں کارپوریٹ ماہرین، جن کا تعلق چاہے انجینئرنگ، طبی، معاشی شعبوں سے ہو سبھی شامل ہیں۔ یعنی پاکستانی پیشہ ور افراد کے ہمراہ غیر ہنر مند افرادی قوت بھی سعودی ممالک کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر رہی ہے۔ اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے دو اہم رکن ہونے کے ناتے دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مسلم دنیا کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ماضی قریب میں دونوں ممالک کے درمیان ان تعلقات نے ایک نیا موڑ لیا ہے اور باہمی فائدے اور حمایت کی راہ پر گامزن ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا وژن 2030چند اہم عناصر کے گرد گھومتا ہے جن میں انتظامی نظام کی بحالی، سیاسی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانا اور ایک ایسا کلچر تیار کرنا شامل ہے، جہاں قانون کی پاسداری کو بنیادی ذمے داری سمجھا جاتا ہے۔ ان مقاصد میں تیل اور زیارات کے علاوہ دیگر ترجیحات کی تلاش کے ساتھ ساتھ آبادی کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے معاشی ذرایع بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ایک وجہ مشرقی وسطیٰ اور عرب دنیا میں تیزی سے بدلتی جیو پولیٹکل صورتِحال اور کشیدگی ہے۔ سعودی عرب کو پاکستان کی دفاعی مدد اور سفارتی حمایت کی ہر سطح پر ضرورت ہے۔ دوسری جانب جہاں صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی عالمی معیشت کے لیے بری خبر ہو گی، وہ خاص طور پر پاکستان کی برآمدات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ پاکستان کی برآمدات پر امریکی ٹیرف کرنٹ اکاؤنٹ کو منفی طور پر متاثر کریں گے اور یہ امریکی ڈالر کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ USD-PKR ایکسچینج ریٹ کو شدید دباؤ میں لے آئے گا۔ اس کے بعد ’سٹیگ فلیشن‘ (stagflation) کا ایک اور دور شروع ہو گا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو پالیسی ریٹ بڑھانے پر مجبور کرے گا، جس سے اقتصادی سرگرمیاں رکنے کا امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔  بلاشبہ سیاسی عدم استحکام اور سیکیورٹی کی چیلنجوں کے باوجود پاکستانی معیشت میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ ملک کی معاشی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے کہ روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں اور ماحول کو کاروبار دوست اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار بنایا جائے۔ اس وقت ملکی معیشت مجموعی طور پر ایک امید افزا صورتحال پیش کر رہی ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں فچ اور موڈیز کی جانب سے ملکِ عزیز کی ریٹنگ اَپ گریڈ کی گئی ہے جو مثبت معاشی اشاریوں کا ایک اعتراف ہے۔ پاکستانی پالیسی سازوں کو معاشی اصلاحات کو اس طریقے سے آگے بڑھانا چاہیے جس سے لاکھوں گھرانوں میں معاشی استحکام آئے۔ اس کے لیے پالیسی سازو ں کو اپنی توجہ اقتصادی ترقی کے سادہ تصورات سے ہٹا کر ملک میں مجموعی انسانی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ سخت پالیسیوں کی طرف موڑنا چاہیے۔ پبلک سیکٹر میں اس موقع کو حاصل کرنے کا شدید فقدان ہے۔ ریاست کے وسائل کو جمع کرنے اور خرچ کرنے کے طریقے میں پالیسی کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غربت کے خاتمے کے لیے قابل عمل منصوبے درکار ہیں۔ ایسی منصوبہ بندی حکومت میں بیٹھے ہمارے پالیسی ساز ہی کر سکتے ہیں۔ غیر مستحکم معاشی حالات میں جو سرکاری افسران یا حکومتی عہدیداران سبسڈی یا مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اُن کا خاتمہ اب وقت کی ضرورت ہے۔ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماحول کا بہتر، خوشگوار اور پُرامن ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ روپے کی شرح مبادلہ یا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کے حوالے سے گزشتہ سال حکومت اور اسٹیٹ بینک نے اقدامات کا آغاز کیا تھا اور دو طرفہ مشترکہ کاوشوں سے روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے۔ ایک ڈالر 300 روپے سے تجاوز کر گیا تھا اور مارکیٹ میں 350 تک قیمت جانے کی باتیں ہورہی تھیں۔ مارکیٹ میں ڈالر کے تین ریٹ چل رہے تھے، ایک سرکاری دوسرا اوپن مارکیٹ اور تیسرا ریٹ بلیک مارکیٹ کا تھا۔ ڈالر کی تیزی سے بیرون اسمگلنگ سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا ہوا تھا۔ اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، ایف آئی اے، پولیس، رینجرز اور مسلح افواج نے مل کر ڈالر کی اسمگلنگ اور سٹے بازی کے خلاف کارروائیاں شروع کیں اور اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ سال 2024کے آغاز پر روپے کی قدر میں استحکام دیکھا جانے لگا اور آئی ایم ایف سے قرض معاہدے کے بعد روپے کی قدر میں مزید بہتری آئی۔ انتظامی اور پالیسی سطح کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا ایک ڈالر جوکہ جنوری میں 280 روپے کا تھا، اب یہ 277 روپے کا ہوچکا ہے۔ اس عمل سے پاکستان میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے، لیکن کیا جس سطح پر اب ڈالر موجود ہے کیا یہ اس کی درست قیمت ہے اور کیا ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید بہتری نہیں آنی چاہیے؟ ملک میں معاشی استحکام دیکھا جارہا ہے اور مہنگائی میں بتدریج کمی دیکھی جانے لگی ہے۔ قیمتوں میں اضافے کا عمل رکا ہے ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں تسلسل کے ساتھ کمی کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنی جیسی معیشت کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اگر اصلاحات کا عمل جاری رہا تو آنے والے دنوں میں پاکستانی معیشت میں مزید استحکام آسکتا ہے۔  عالمی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، انھیں مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو پاکستان کی معیشت نے مشکل حالات میں یگر ترقی پذیر ممالک کی نسبت زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس وقت امریکا ، کینیڈا، یورپی یونین تک جیسے ترقی یافتہ ممالک معاشی مسائل کا شکار ہیں اور مختلف قسم کے اقدامات کررہے ہیں۔ چین اور انڈیا بھی معاشی حکمت عملیاں تبدیل کررہے ہیں اور انھیں بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،ایسے حالات میں پاکستان کی معیشت کا استحکام حاصل کرنا، خاصی حوصلہ افزاء بات ہے۔حالانکہ پاکستان کو علاقائی سطح پر کئی مسائل درپیش ہیں۔ افغانستان پاکستان کے لیے مسلسل درد سر ہے جب کہ داخلی طور پر دہشت گردی بھی ایک مسلہ ہے۔ پاکستان کے دو صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں معاشی سرگرمیاں بہت کم ہیں۔ان صوبوں کی سماجی حالت اور سوچ معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ قبائلی نظام معاشرت کے ساتھ ترقی کا عمل تیز نہیں ہوسکتا ، ترقی کے عمل کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے عناصر قبائلی سماج میں طاقتور ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان صوبوں میں جدید رجحانات پنپ پائیں۔ان رکاوٹوں کے باوجود پاکستان معاشی استحکام اور ترقی کے سفر پر گامزن ہے ، جس کے مستقبل میں اچھے نتائج نکلیں گے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل