Wednesday, February 05, 2025
 

پرنس کریم آغا خان کا انتقال

 



 ہز ہائینس پرنس کریم الحسینی،آغا خان چہارم اور اسماعیلی کمیونٹی کے 49 ویں موروثی امام، پرتگال میں انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 88 برس تھی۔ آغا خان کو ملکہ الزبتھ نے جولائی 1957 میں ہز ہائی نیس کا خطاب دیا تھا، اس کے دو ہفتے بعد ان کے دادا آغا خان سوم نے انھیں غیر متوقع طور پر 1,300 سالہ قدیم خاندان کا وارث بنایا۔پرنس کریم آغا خان نے اپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی، آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک جو ایک فلاحی تنظیم ہے ،کے ذریعے انھوں نے دنیا کے مختلف خطوں خصوصاً ایشیا اور افریقا میں فلاحی اقدامات کیے۔ یہ تنظیم 30 سے زائد ممالک میں کام کرتی ہے اور غیر منافع بخش ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے اس کا سالانہ بجٹ تقریباً ایک بلین ڈالر ہے، یہ تنظیم بنیادی طور پر صحت کی دیکھ بھال، رہائش، تعلیم اور دیہی اقتصادی ترقی کے مسائل پرکام کرتی ہے۔ پرنس کریم آغا خان کے نام کے اسپتالوں کا نیٹ ورک ان جگہوں پر بکھرا ہوا ہے جہاں غریب ترین لوگوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال کا فقدان تھا، جس میں بنگلہ دیش، تاجکستان اور افغانستان جیسے ممالک شامل ہیں، جہاں انھوں نے مقامی معیشتوں کی ترقی کے لیے دسیوں ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ پرنس کریم آغا خان نے پاکستان میں تعلیم و صحت کے شعبوں میں نمایاں کام کیا۔آپ سر سلطان محمد شاہ آغا خاں سوئم کے سب سے بڑے صاحبزادے پرنس علی خاں کے فرزند تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر مصطفی کامل سے حاصل کی، اس کے بعد سوئٹزر لینڈ کے لے روزا اسکول میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کچھ عرصہ انگلستان میں قیام کیا پھر 1954میں ہارورڈ یونیورسٹی (امریکا) میں داخلہ لے لیا۔ پرنس کریم آغا خان اپنے دادا آغا خان سوئم کی طرح اصلاحی کاموں میں بھرپور دلچسپی لیتے رہے، آغا خان فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے زیر نگرانی دنیا بھر میں مدارس، اسپتال اور تحقیقاتی ادارے وغیرہ قائم کیے گئے ہیں۔پرنس کریم آغا خان کو مختلف ممالک کی جانب سے مختلف خطابات اور اعزازات اور یونیورسٹیوں کی جانب سے اعلیٰ ترین اعزازات اور اعزازی ڈگریوں سے نوازا گیا تھا۔ وینٹی فئیر میگزین نے پرنس کریم آغا خان کو ون مین اسٹیٹ کا نام دیا جس میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ہزہائی نس کا خطاب اور حکومت پاکستان کی جانب سے نشان امتیاز کا اعزاز بھی شامل ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے۔ پرنس کریم آغا خان اعلیٰ ترین سطح پر سفارتکاری کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ انھوں نے صدر ریگن اور گورباچوف کی جینیوا میں سفارتی بات چیت ممکن بنائی۔ پرنس کریم آغا خان نے اپنی زندگی میں تعلیمی، ثقافتی اور معاشی ترقی کے مختلف منصوبوں کی سرپرستی کی، جنھوں نے لاکھوں افراد کی زندگیوں میں بہتری لانے کا کام کیا۔ ان کی رہنمائی اور فلاحی کاموں کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔وہ ایک عظیم مدبر اور انسانیت کے خدمت گار تھے،جنھوں نے دنیا بھر میں فلاح و بہبود کی بے شمار خدمات انجام دیں۔ پرنس کریم آغا خان کی سماجی خدمات، انسانیت سے محبت اور تعلیم و فلاح و بہبود کے لیے کی گئی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ پرنس کریم آغا خان کے انتقال سے دنیا انسانیت کی ہمدرد شخصیت سے محروم ہو گئی ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل