Monday, March 10, 2025
 

پاکستان کرکٹ

 



عبدالحفیظ کاردار پاکستانی کرکٹ کے معمار تھے۔ انھوں نے اپنی اہلیت اور محنت سے پاکستانی کرکٹ کو دنیا میں متعارف کرایا۔ وہ بذاتِ خود بھی ایک عظیم آل راؤنڈر تھے۔ ان کی کپتانی میں پاکستانی کرکٹ نے بہت جلد اپنا مقام پیدا کیا۔ دیگر خوبیوں کے علاوہ وہ بہت بڑے منتظم بھی تھے۔ ان کا ایک رعب اور دبدبہ بھی تھا۔ کسی کھلاڑی کی مجال نہ تھی کہ وہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو منظم کرنے اور ٹیلنٹ کو تلاش کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ خان محمد، امتیاز احمد، حنیف محمد اور فضل محمود نامور کرکٹرز انھی کی کاوشوں کا ثمر تھے۔ ایم سی سی کے خلاف اپنی تاریخی پرفارمنس سے فضل محمود نے پاکستانی ٹیم کو دنیائے کرکٹ میں جو شہرت بخشی، اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی بے مثل باؤلنگ سے انھوں نے ایم سی سی کی ٹیم کو شکستِ فاش دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جب کوئی باؤلر کھلاڑیوں کو آؤٹ کردیتا تھا تو اسے باؤلڈ کہا جاتا تھا لیکن اگر کھلاڑی فضل محمود کے ہاتھوں آؤٹ ہوجاتا تھا تو اسے’’ فضلڈ‘‘کہا جاتا تھا۔ یہ اعزاز دنیا کے کسی بھی باؤلر کو حاصل نہیں ہوا۔ کاردار کی کپتانی میں پاکستانی کرکٹ نے بہت کم عرصہ میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ 1992 میں غیرمعمولی پرفارمنس کے نتیجے میں ٹیم کے کپتان کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اور بھی کپتان آئے جنھوں نے پاکستان کا نام روشن کیا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیائے کرکٹ میں جو مقام اس کپتان نے حاصل کیا اس نے انھیں وزیرِ اعظم کے منصب تک پہنچا دیا۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کا زوال مسلسل جاری ہے اور وہ اپنے نکتہ عروج سے گرکر دنیا کی کمزور ترین ٹیم ہوگئی ہے۔ یہ سانحہ ایک دکھ بھری طویل داستان ہے۔ پے در پے ہونے والی شکستوں نے ہماری ٹیم پیچھے رہ گئی ہے جس کے اسباب میں کھلاڑیوں کا میرٹ پر انتخاب نہ ہونا سرِفہرست ہے۔ سیاست جس نے وطنِ عزیز کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، پاکستانی کرکٹ کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ کرکٹ کے کھیل سے نابلد چیئرمینوں کا تقرر بھی پاکستان کرکٹ کے زوال کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہمیں اس وقت ایئر مارشل نور خان یاد آرہے ہیں جو بذاتِ خود کوئی کھلاڑی نہیں تھے لیکن ان کے سنہری دور میں مختلف کھیلوں بشمول کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں میں مثلاً ہاکی اور اسکواش میں پاکستان نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کھیلوں کے فروغ کے لیے سربراہ کا کھلاڑی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ لازمی بات یہ ہے کہ وہ شخص غیر معمولی انتظامی صلاحیت اور ذاتی پسند ناپسند کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کرنے کا حامل ہو۔ ایئر مارشل نور خان کا یہ کارنامہ ان کی شاندار کامیابی کا سبب تھا۔ اب آئیے پی سی بی کے ان چیئرمینوں کی طرف جن کا کرکٹ سے براہِ راست کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تھا۔ اس سلسلے میں نجم سیٹھی کا ذکر نہ کرنا سراسر زیادتی اور ناسپاسی ہوگی۔ موصوف نے جس وقت پی سی بی کی چیئرمین شپ سنبھالی تو اس وقت بھی کچھ ناقدوں کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کی کارکردگی کیا ہوگی لیکن جو کچھ ہوا وہ عیاں ہے۔ایئر مارشل نور خان کی طرح انھوں نے بھی یہ ثابت کردیا کہ ضروری نہیں کہ پی سی بی کا چیئرمین کوئی کرکٹر ہی ہو۔ نجم سیٹھی کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد تھا اور وہ پاکستان کرکٹ کے انتظامی امور میں کسی کو خاطر میں نہیں لائے اور اپنے فرائضِ منصبی کو بہ حسن و خوبی سرانجام دیا۔  بابر اعظم نے ٹیم میں شامل ہونے کے بعد بحیثیت اوپننگ بیٹر ٹیم کی تنِ مردہ میں روح پھونک دی اور کپتان کی حیثیت سے بہت کم وقت میں عالمگیر شہرت حاصل کر لی۔ بابر اعظم اور وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کی جوڑی نے اپنی غیر معمولی کامیابی سے اوپننگ بیٹروں کی کمی کا مسئلہ حل کردیا لیکن بابر اعظم کے آؤٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے یہ تسلسل ٹوٹ گیا۔ شائقینِ کرکٹ کو یہ تشویش لاحق ہے کہ پاکستان کرکٹ کی بحالی کس طرح کی جائے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل