Loading
میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے اسٹاف کے ساتھ تشریف لائے‘ ہم نے لنچ اکٹھے کیا‘ میںازبکستان پہلی مرتبہ 2011میں گیا تھا اور فروری 2025میں 14ویں مرتبہ‘ ازبکستان نے دس برسوں میں اپنے آپ کو سیاحتی ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا‘ 2024 میں 82 لاکھ غیرملکی سیاحوں نے ازبکستان وزٹ کیا‘ آپ فرض کریں ایک سیاح نے صرف ہزار ڈالر وہاں خرچ کیے ہیں تو یہ رقم8.2بلین ڈالر بن جائے گی جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں ہر سال صرف تین لاکھ غیرملکی آتے ہیں اور ان میں بھی اکثریت سفارت کاروں اور سرکاری وزیٹرکی ہوتی ہے۔ آپ اس سے دونوں کے سیاحتی فرق کا اندازہ کر لیجیے لیکن اس کے باوجود ازبک سفیر تین گھنٹے میرے گھر بیٹھے رہے اور ان کی گفتگو کا محور صرف یہ نقطہ تھا کہ ہم ازبکستان میں سیاحت کو مزید کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا ’’آپ 119 ملک گھوم چکے ہیں‘ آپ نے یورپ‘ مشرق بعید اور اسلامی ملک دیکھے ہیں‘ آپ بے شمار مرتبہ ازبکستان بھی گئے ہیں لہٰذا آپ ہمیں مشورہ دے سکتے ہیں‘ ہم 82 لاکھ سیاحوں کو ڈیڑھ کروڑ تک کیسے لا سکتے ہیں؟‘‘میں نے ان سے عرض کیا‘ آپ کے پاس زیادہ تر ایسے سیاح ہیں جو مہنگائی کی وجہ سے مشرقی یورپ اور ترکی افورڈ نہیں کر پاتے لہٰذا جس دن آپ کے ریٹس ترکی کے برابر ہو گئے یا ترکی نے سیاحتی ٹیکس ختم کر دیے اس دن آپ کی ٹورازم انڈسٹری برباد ہو جائے گی چناں چہ آپ ہر قیمت پر اپنے ریٹس ترکی سے کم رکھیں‘ دوسرا تاجکستان سردیوں کی ٹورازم پر تیزی سے کام کر رہا ہے۔ آپ کی ونٹر اسپورٹس کی سائیڈ کم زور ہے چناں چہ آپ کو مستقبل میں تاجکستان سے ٹف ٹائم ملے گا‘آپ اگر تاجکستان کے ساتھ بزنس ڈیل کر لیں اور سیاحوں کو سردیوں میں ازبکستان اور تاجکستان دونوں کا مشترکہ پیکیج دے دیں تو اس سے آپ کی ٹورازم انڈسٹری کو دھچکا نہیں لگے گا ورنہ سردیوں میں آپ کے ہوٹل‘ ریستوران‘ ٹرینیں اور جہاز خالی ہو جائیں گے اور تیسراآپ باکو اور سمر قند کے درمیان ٹرین سروس یا ائیرسروس میں اضافہ کریں اور اس روٹ کو سستا بھی کر دیں‘ اس سے باکو کے سیاح بھی آپ کے پاس آ جائیں گے‘ سفیر کا اسٹاف اس دوران نوٹس لیتا رہا‘ اس کے بعد امیر تیمور پر گفتگو شروع ہو گئی‘ میں تیمور کا فین ہوں‘ مجھے اس کی زندگی کے زیادہ تر واقعات‘ مہمات اور جنگیں ازبر ہیں۔ ہم نے اس پر گفتگو شروع کر دی‘ یہ ڈیڑھ گھنٹہ چلتی رہی‘ اس گفتگو کے دوران میں نے سفیر کو مشورہ دیا آپ نقش بندی پیروں کے ٹورز بھی شروع کرائیں‘ سینٹرل ایشیا اور برصغیر میں نقش بندی سلسلے کے کروڑوں زائرین موجود ہیں‘ بخارہ میں حضرت بہاؤالدین نقش بندی کے علاوہ نقش بندی سلسلے کے سات پیروں کے مزارات ہیں‘ آپ آف سیزن میں ان کے سستے ٹورز لانچ کردیںیوں آپ کے ہوٹل‘ ریستوران‘ ائیرلائین اور ٹرین بھی چلتی رہے گی اور آپ کو آف سیزن سیاح بھی ملتے رہیں گے۔ ازبک سفیر نے میرا شکریہ ادا کیا‘ یہ میرے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہر دوسرے‘ تیسرے دن کوئی نہ کوئی نیا ٰآئیڈیا میرے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں‘ ہمارا ٹور 14فروری کو ازبکستان گیا تو حکومت نے فارن سروس کا ایک نوجوان افسر ہمارے ساتھ تعینات کر دیا‘ یہ پورے آٹھ دن ہمارے ساتھ رہا‘ اس کا مقصد پاکستانی سیاحوں کو سمجھنا تھا اور انھیں یہ پیش کش کرنا تھی کہ آپ لوگ بار بار ازبکستان آتے رہیں‘ یہ افسر آج بھی ہمارے گروپ کے لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ میں نے ازبک سفیر کے وزٹ کے بعد پاکستان کی ٹورازم اتھارٹی کے چیئرمین سے رابطہ کیا‘ میں پچھلے 30برسوں سے یہ سن رہا ہوں پاکستان سیاحتی انڈسٹری پر کام کر رہا ہے‘ آپ بھی برسوں سے اس قسم کے بیان سن رہے ہوں گے‘ حکومت نے گرین ٹورازم کے نام سے نئی اتھارٹی بھی بنا دی ہے‘ میں نے سنا یہ بہت کام کر رہی ہے چناں چہ میں نے ایک بااثر رابطے کے ذریعے ان سے رابطہ کیا‘ میرا مقصد تھا اگر ازبک گورنمنٹ یا سفارت خانہ پاکستان کے ایک درمیانے درجے کے صحافی یا سیاح سے ٹپس لے رہا ہے تو میری تگ ودو یا خواری سے اپنے ملک کو بھی فائدہ ہونا چاہیے۔ میرے بااثر رابطے نے چیئرمین صاحب سے رابطہ کیا اور دوسری طرف سے جواب آیا‘ جاوید صاحب سے کہہ دیں یہ اپنا سی وی اور ٹاکنگ پوائنٹس بھجوا دیں‘ ہم چیئرمین صاحب کے سامنے رکھیں گے اگر انھوں نے مناسب سمجھا تو ملاقات ہو جائے گی‘ میری ہنسی نکل گئی اور میں نے ان سے عرض کیا‘ سر پہلی بات یہ ہے میں نے آج تک اپنا سی وی نہیں بنایا‘ دوسری بات میں نوکری کے لیے اپلائی نہیں کر رہا اور تیسری بات میرا وقت چیئرمین صاحب سے زیادہ قیمتی ہے لہٰذا میری گستاخی پرمجھے معاف کر دیں اور یوں یہ معاملہ ختم ہو گیا لیکن پھر پانچ مارچ کو مری اور گلیات میں برف باری ہوئی اور میں نے ٹیلی ویژن چینلز پر ٹکرز دیکھے انتظامیہ نے مری اور گلیات میں سیاحوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ میں یہ دیکھ کر قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گیا‘ کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ سرکاری اہلکاروں کا کام کاروبار بند کرانا نہیں ہوتا اس میں اضافہ ہوتا ہے‘ ملک بھر کے سیاح سال بھر برف باری کا انتظار کرتے ہیں‘ لوکل بزنس مینوں نے بھی اسی دوران پیسے کمانا ہوتے ہیں لیکن جب برف باری ہوتی ہے تو انتظامیہ سڑکیں بند کر دیتی ہے اور جب برف کا سیزن ختم ہو جاتا ہے تو سڑکیں پھر کھول دی جاتی ہیں‘آپ ان سے پوچھیں برف باری کے بعد سڑکیں کھولنے کا کیا فائدہ؟ دوسرا گلیات اور مری میں ہزاروں سال سے برف پڑ رہی ہے اور ان علاقوں کا انتظام 76برسوں سے ہماری انتظامیہ کے پاس ہے لیکن یہ اپنی نالائقی سے آج تک سیاحوں کو تفریح کا محفوظ اور اچھا ذریعہ نہیں دے سکی جب کہ حکومت ان پر ہر سال اربوں روپے ضایع کرتی ہے‘ اس کے مقابلے میں پوری دنیا میں ونٹر ٹورازم ہوتی ہے اور جہاز کے جہاز بھر کر سیاح برفیلے علاقوں میں جاتے ہیں۔ مجھے سردیوں میں پولینڈ کے شہر زاکوپانا‘ فن لینڈ کے لیپ لینڈ اور سانتا کلازسٹی‘ ناروے کے شہر تھرموسو‘ آئس لینڈ کے ریکویاوک اور کوپاسکر‘ نیوزی لینڈ کے کوئینز ٹاؤن‘ آسٹریا کے سالس برگ اور ارجنٹائن کے شہر اشوایا جانے کا اتفاق ہوا‘ آپ یقین کریں ہوٹلوں اور ریستورانوں میں جگہ نہیں تھی‘ آئس لینڈ اور فن لینڈ میں سردیوں میں برف کے ہوٹل بن جاتے ہیں اور لوگ برف کی سلوں پر رات گزارنے کے لیے تین سو ڈالر ادا کرتے ہیں‘ برف میں شیشے کے کمرے (اوگلو) بھی بنائے جاتے ہیں اور ان کا کرایہ ہزار ڈالر تک ہوتا ہے اور اس دوران کوئی سڑک بند ہوتی ہے اور نہ ٹرین‘ بس اور فلائیٹ جب کہ ہم برف باری شروع ہوتے ہی تمام برفیلے علاقے بند کر دیتے ہیں‘ کیوں؟۔ میری درخواست ہے حکومت آنکھیں کھولے اور یہ آج فیصلہ کر لے اگلے سال مری اور گلیات برف باری میں بند نہیں ہو گی اور مقامی انتظامیہ ڈیڑھ لاکھ سیاحوں کو سامنے رکھ کر آج سے بندوبست کرے گی‘ دوسری بات گلیات اور مری میں ونٹر اسپورٹس کیوں نہیں ہوتیں؟ حکومت فوری طور پر اس کا بندوبست بھی کرے اور تیسری چیز حکومت پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے مری اور گلیات کے ہوٹلز‘ پے انگ ہومز اور ریستورانوں کا پورٹل بنوائے اور تمام سیاحوں کو پابند کیا جائے یہ صرف اس پورٹل کے ذریعے کمروں کی بکنگ کرائیں ‘ پورٹل کے علاوہ ہوٹل یا ریسٹ ہاؤس کھولنے پر پابندی ہو‘ اس سے رہائش‘ ٹرانسپورٹیشن اور ریستوران اسٹریم لائین ہو جائیں گے‘ ہم آج تک گاڑیوں کی پارکنگ کا مسئلہ بھی حل نہیں کر سکے‘ حکومت 2025میں اس مسئلے کا بھی فوری حل نکالے‘ اسلام آباد سے مری تک شٹل سروس شروع کی جا سکتی ہے۔ لوگ اسلام آباد میں گاڑیاں پارک کریں اور شٹل سروس سے مری چلے جائیں اور اگر کوئی سیاح گاڑی لے جانا چاہے تو اس سے دو ہزار روپے ٹول ٹیکس اور پارکنگ فیس چارج کی جائے‘ اس سے حکومت کو آمدنی بھی ہو گی اور یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا‘ حکومت پرائیویٹ پارکنگ کا پورٹل بنا کر بھی یہ معاملہ نبٹا سکتی ہے اور چوتھی تجویز سیاحتی ملکوں میں کوئی شخص یا ادارہ ٹورازم کمپنی کے بغیر سیاحتی کاروبار نہیں کر سکتا‘ حکومت فوری طور پر سیاحتی کمپنیوں کی رجسٹریشن شروع کرے‘ گائیڈز کی باقاعدہ ٹریننگ ہو اور یہ گروپس کے لیے ضروری ہوں‘ الحمراء میں ایک بار میرا دوست مجھے گائیڈ کر رہا تھا‘ میں خود دو سال قبل اپنے گروپ کو الحمراء کی تاریخ بتا رہا تھا‘ دونوں مرتبہ ٹورازم پولیس آئی اور اس نے ہمیں بولنے سے منع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا الحمراء کے بارے میں صرف رجسٹرڈ گائیڈ ہی سیاحوں کو گائیڈ کر سکتا ہے‘ ہم بھی یہ کر سکتے ہیں‘ پاکستان کے سیاحتی مقامات پر ہوٹلز‘ ریستوران اور واش رومز نہیں ہیں‘ حکومت انڈسٹریل اسٹیٹس کی طرح تفریحی اور سیاحتی مقامات پر زمین مختص کر کے یہ ٹورازم کمپنیوں کو الاٹ کر سکتی ہے۔ ان کمپنیوں پر لازم ہو یہ تین برسوں کے اندر یہاں فیسلٹیز بنائیں گی اور یہ زمین کسی دوسری کمپنی کو ٹرانسفر ہو گی اور نہ فروخت کی جا سکے گی ہاں البتہ یہ لوگ انڈسٹریل پلاٹ کی طرح بنا کر کسی دوسری کمپنی کو فروخت کر سکتے ہیں‘ اس سے بھی ٹورازم بڑھے گی اور یہ بھی یاد رکھیے دنیا کے تمام ملکوں میں بین الاقوامی ٹورازم لوکل ٹورازم کے بعد شروع ہوتی ہے‘ ہم نے جس دن اپنے خاندانوں کو باہر نکال لیا اور انھیں تمام سہولتیں دے دیں اس دن گورا بھی پاکستان آ جائے گا ورنہ دوسری صورت میں ہم برتن رکھ کربیٹھے رہیں گے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل