Loading
رہنما تحریک انصاف عامر ڈوگر کوئی ایسی سیٹلمنٹ نہیں تھی کہ پارلیمنٹ میں شور شرابا نہیں ہوگا، اپوزیشن کا حق ہے احتجاج کرنا اور آج ہم نے بڑا پرزور احتجاج کیا۔ ہم نے اپنا وہی احتجاج جاری رکھا جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ آپ سب جانتے ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آج بھی ہمارے اراکین اسمبلی پر مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، ان کو گرفتار کیا جا رہا ہے، پارٹی کو مزید توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ رہنما پیپلزپارٹی شرمیلا فاروقی نے کہا کہ اپوزیشن نے یہ جو پی ٹی آئی ہے شور شرابہ ، ہنگامہ اور جارحانہ سیاست کے علاوہ کیا کیا ہے؟، ہم یہ نہیں کرتے تھے، ہم وقت اور موقع دیکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایشوز پر بات کرتے تھے، ہم عوامی مسائل پر بات کرتے تھے، ہم اگر دھرنے بھی دیتے تھے، احتجاج بھی کرتے تھے،پرامن ہوتے تھے اور ایشوز پرہوتے تھے، ان ایشوز پر جو عوام کو براہ راست متاثر کر رہے ہیں یہ تو ان کی ذاتی سیاست چل رہی ہے،ہم نے عوام کے مسائل اٹھائے تھے اور حکومت کی غلطیوںکو اجاگر کیا تھا۔ رہنما مسلم لیگ (ن)رانا احسان افضل نے کہا کہ اگر آپ 2008 سے 2018 تک کے سیشن نکال لیں تو اس کے اندر کافی حالات بہتر تھے۔ لوگ ایک دوسرے کی بات چیت سننے کا برداشت رکھتے تھے پھر 2013 میں جب پی ٹی آئی کی اینٹری ہوئی توکلچر خراب ہوا، اور2018 کے بعد تو بالکل ہی ایک پولرائزیشن کا اور ایک کہہ لیں کہ نفرت کی سیاست عروج پر پہنچ گئی۔ بہر حال دیکھیں اس سے یہی لگتا ہے کہ پاکستان کے اندر ابھی بھی ایک دوسرے کی بات سننے کا مادہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں مل کر ایک ٹیبل پر بھی بیٹھنے کی بھی ضرورت ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل