Loading
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل کی تقریب میں پاکستان کی عدم شرکت کا یقیناً ذمے دار پی سی بی ہے، ہم آئی سی سی کو ذمے دار قرار نہیں دے سکتے وجہ یہ ہے کہ آخری میچ میں چیئرمین صاحب کہاں تھے؟. ایکسپریس نیوزکے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مجھے اس پورے ٹورنامنٹ کی سمجھ نہیں آئی کہ ہوا کیا پاکستان کے ساتھ، ٹیم کا جس دن اعلان ہوا تھا ہم اسی دن سمجھ گئے تھے کہ ہم ان سے کیا توقعات رکھ سکتے ہیں. تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ پی سی بی یا حکومت پاکستان کو کب معلوم ہوا کہ ان کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جب سوشل میڈیا پر شور مچا اس سے پہلے کیوں خاموش تھے؟یہ تو انھیں پہلے سے معلوم ہوگا کہ ہمیں نظر انداز کر دیا گیا ہے، اس کی اختتامی تقریب میں ہم موجود نہیں ہے، انھیں اس سے پہلے شور مچانا چاہیے تھا، اس سے پہلے عالمی میڈیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دینا چاہیے تھا، پی سی بی کہاں ہے؟ تجزیہ کار نوید حسین نے کہاکہ کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سب کے سامنے ہے یہاں بات ہو رہی ہے جو کچھ اتوار کی اختتامی تقریب میں ہوا، اوورآل دیکھا جائے تو پی سی بی نے انڈیا کے ساٹھ ڈیل کی، آئی سی سی کے لیول پرتو پی سی بی تعریف کا مستحق ہے کہ جیسے ہم نے پہلے بھی کہا کہ انڈیا نہیں آتا تھا اور ہم ٹورنامنٹ کھیلنے کیلیے اپنی ٹیم انڈیا بھیج دیتے تھے تو اس دفعہ کم ازکم یہ ہوا کہ پی سی بی نے صاف کہہ دیا کہ پاکستان بھی انڈیا میں نہیں کھیلے گا. تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ جب آوے کا آوا بگڑا ہو، ٹیم نے جس طرح میچ کھیلے اور پاکستانیوں کے جذبات کچلے، اس نے ہمیں یہ سب کچھ دکھایا کہ ہماری کوئی اوقات نہیں ہے،کرکٹ پر کافی عرصہ گفتگو نہیں ہونی چاہیے ان کو نظر انداز کریں، جو اصول بنتا ہے ان کی اوقات کیا ہے؟، انھوں نے ہمارے جذبات کے ساتھ کیا کیا ہے، فائنل میچ میں پاکستان کے چیئرمین کیوں نہیں تھے؟ محسن نقوی سامنے آئیں اور سارے سوالوں کے جواب دیں. تجزیہ کا محمد الیاس نے کہا کہ آئی سی سی کو چاہیے تھا کہ پی سی بی کے چیئرمین کو ساتھ اسٹیج پر لاتی، ہم میزبان تھے تو چاہیے تو یہ تھا کہ ہماری پارٹیسپیشن زیادہ ہوتی، پاکستان کو بالکل نظر انداز کیا گیا، یہ بہت سیریس ایشو ہے، اس کو ٹیک اپ کرنا چاہیے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو، آئی سی سی کے چیئرمین اگر انڈین ہیں تو ان کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ انڈیا کی طرف داری کریں اور دوسرے ممالک کے ساتھ زیادتی کریں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل