Wednesday, April 09, 2025
 

قرضوں سے نجات ؟

 



وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ قرضوں سے ترقی نہیں ہوتی، دعا ہے کہ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام آخری ہو اور مزید قرضہ نہ لینا پڑے۔ میں آخری حد تک قرضوں سے نجات دلاؤں گا۔ وزیر اعظم پہلے یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے قدموں میں جھک کر اور ان کی تمام شرائط ماننے کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے پر راضی ہوا تھا۔ حکومت چند روز قبل خوش تھی کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہو گیا ہے اور جلد 2.3 ارب ڈالر مل جائیں گے مگر معاہدے کے بعد بھی آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس تاخیر کا شکار ہے اور مئی جون تک قسط ملنے کی امید نہیں ہے جب کہ پاکستان نے چین کا ایک ارب ڈالر قرضہ واپس کر دیا ہے اور اپریل میں مزید 30 کروڑ ڈالر ادا کرنا باقی ہیں۔ جون تک چین کو 2.7 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی بھی کرنا باقی ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے ملک کی معیشت میں استحکام ضرور آتا ہے ہماری معیشت میں بھی اب استحکام آگیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے بعد سے شہباز شریف حکومت آئی ایم ایف سے قرضے اور چین، سعودی عرب، چین و دوست ممالک سے قرضوں اور امداد کے حصول کے لیے سرگرم رہی۔ بعض دوست ممالک کو یہ بیان ضرور دینا پڑا کہ اب پاکستان کو اپنے قدموں پر بھی کھڑا ہونا چاہیے اور اپنی پالیسی بھی تبدیل کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی حکومت کے بعد سے یہ ضرور ہوتا رہا کہ کسی ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسرے کو قرضہ ادا کرنا پڑا اور ہم قرضے واپس کرنے کے لیے مزید قرضے لیتے رہے مگر قرضوں کے حصول میں پاکستان کو شرمندگی اور بعض مشوروں کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر وزیر اعظم کے بقول ہم نے اپنی سیاست قربان کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا جو ہماری مجبوری تھی مگر اب معیشت میں استحکام آگیا ہے اور میری آخری حد تک کوشش ہوگی کہ مزید قرضے نہ لیں بلکہ ملک کو قرضوں سے نجات بھی دلاؤں۔  قرض لینے کو ذلت تصور کیا جاتا ہے کیوں قرضے دینے والے کے آگے جھکنا پڑتا ہے اور قرضوں کی واپسی کے لیے شرائط ماننا پڑتی ہیں۔ سود الگ دینا پڑتا ہے اور پاکستان میں یہ نوبت آ چکی ہے کہ ہمیں قرضے اور سود ادا کرنے کے لیے سود پر مزید قرضے لینے پڑے اور ہم سود سمیت بہت کم قرضے واپس کرنا پڑے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ (ن) لیگ کے وزیر اعظم نواز شریف کا دعویٰ تھا کہ ان کی حکومت نے قرضے لینا بند کر دیے تھے اور ہم نے پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا تھا مگر موجودہ (ن) لیگی وزیر اعظم نے یہ ریکارڈ ضرور بنایا ہے کہ جو ممالک پی ٹی آئی حکومت کو قرض نہیں دیتے تھے مگر میاں شہباز شریف نے اپنے تعلقات کی وجہ سے وہاں سے قرض ہی نہیں امداد بھی لی اور یہ الگ بات ہے کہ قوم قرضوں میں اس قدر جکڑی جا چکی ہے کہ ہم تو مقروض ہیں ہی بلکہ ہماری آنے والی نسل بھی مقروض پیدا ہو رہی ہے جب کہ یہ قرضے قوم نے نہیں حکومتوں نے لیے اور ادا ہم نے کرنے ہیں۔ (ن) لیگ کو قوم کو یہ بات بتانی چاہیے کہ اس کی حکومت میں اگر آئی ایم ایف سے قرضہ لینا بند ہو گیا تھا تو پی ٹی آئی حکومت کی وہ کون سی مجبوری تھی کہ وہ تاخیر سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تھا جب کہ اس کے دور اقتدار میں تو ملک کو کوئی بڑا منصوبہ بھی نہیں ملا تھا نہ ہی ملک میں ترقیاتی کام ہوئے تھے۔ ہر حکومت کی طرح پی ٹی آئی حکومت بھی الزام لگاتی تھی کہ (ن) لیگ کی حکومت ملک کا یہ حال کر گئی ہے۔ سابقہ حکومتوں پر الزام تراشی کا یہ سلسلہ بہت طویل ہے اور عشروں سے جاری ہے اور ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ قرضوں سے ترقی نہیں ہوتی درست نہیں اور ترقی نہ ہونا حکومتوں کے لیے تو ہو سکتا ہے مگر عوام کے لیے نہیں ہے کیونکہ امیروں کو تو اپنے گھر بنانے کے لیے قرضوں کی ضرورت ہی نہیں ہوتی مگر متوسط طبقے کی یہی ترقی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا اپنا گھر ہو جائے وہ پہلے کسی نہ کسی طرح پلاٹ خریدتا ہے پھر رشوت دے کر ہاؤسنگ بلڈنگ کے سرکاری ادارے سے قرض سود پر لیتا ہے اور قسط ادا کرکے اپنا گھر بنا لیتا ہے اور یہی اس کی ترقی ہے۔ پرانے مکان خرید کر اسے رہائش کے قابل بنانے یا اس میں توسیع کے لیے اپنے جاننے والوں یا رشتے داروں سے بلا سود و رشوت قرض لیتے ہیں اور اپنا گھر بنا بھی لیتے ہیں اور مکان بنانے کے لیے وہ قرضہ احتیاط سے استعمال کرتے ہیں اور حکومتوں کی طرح دکھاوا اور شاہ خرچی نہیں کرتے اور کسی طرح حکومتی مدد کے بغیر اپنا گھر بنا لیتے ہیں جس کے لیے وہ اپنے گھریلو اخراجات میں کمی کی پالیسی بناتے ہیں کیونکہ اخراجات کم کرکے ہی رقم بچائی جاسکتی ہے جو انھوں نے قرضے کی واپسی کے لیے بچانا ہوتی ہے تب کہیں گھر بنتا ہے اور قرض اترتا ہے یہی اس کی ترقی ہوتی ہے اور وہ کچھ عرصہ بعد قرض کی ذلت سے بھی بچ جاتا ہے۔ بعض لوگ ترقی اور اضافی آمدنی کے لیے گھر کا کوئی حصہ کرائے پر بھی دے کر قرض اتارتے ہیں۔ بے گھر افراد بھی اسی طرح اپنا گھر بنا ہی لیتے ہیں اور ترقی کر جاتے ہیں مگر حکومتوں میں یہ ترقی نہیں ہوتی۔ حکومتیں قرضے لے کر حکومتی اخراجات بڑھاتی اور شاہانہ اخراجات کرتی ہیں اور بچت پر کوئی توجہ نہیں دیتیں اور قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے سود پر لیتی ہیں اور سود کی رقم کی ادائیگی کرتی ہیں اور قرضہ چڑھتا رہتا ہے پھر وہ قرضہ اتارنے کے لیے مزید قرضہ لیا جاتا ہے تو ترقی کیسے ہو سکتی ہے قرض اتارنے کے لیے اپنے اخراجات کم کرنا پڑتے ہیں تب کہیں جا کر قرضے اترتے ہیں اور ان کے لیے ترقی ممکن ہوتی ہے مگر حکومتیں ایسا نہیں کرتیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل