Monday, June 30, 2025
 

دبئی میں ہوٹل سے غائب ہونے والے برطانوی شہری کے ایئرپوڈز جہلم سے برآمد

 



برطانوی شہری مائلز کے ایئر پوڈز دبئی کے ہوٹل سے غائب ہونے والے برطانوی شہری کے ایئرپوڈز جہلم سے  برآمد کرلیے گئے۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے کہا کہ شہری نے اپنی ڈیوائس حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت اور پنجاب پولیس سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ کے ذریعے رابطہ کیا۔ جہلم کے ڈسڑکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) طارق عزیز کہتے ہیں کہ برطانوی شہری مائلز کی جانب سے چند دن قبل پنجاب پولیس، جہلم پولیس اور حکومت پاکستان کو ایکس پر ٹیگ کر کے کہا گیا تھا کہ اُن کے دبئی میں گُم ہونے والے ایئر پوڈ اِس وقت پاکستان کے شہر جہلم میں موجود ہیں۔ طارق عزیز کے مطابق ’اس پر جہلم پولیس نے ایکس ہی پر اُن سے رابطہ قائم کیا اور ان سے مزید معلومات حاصل کی گئیں۔‘ طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’مائلز ابتدائی طور پر تو جہلم کی لوکیشن بتا رہے تھے۔ ان سے وہ لوکیشن حاصل کر کے خود جدید طریقے سے تفتیش کی گئی۔ ایک دفعہ جب لوکیشن سمجھ میں آ گئی تو اس وقت لوکیشن پر موجود ہزاروں افراد سے انٹرویو اور تلاش کا کام ممکن نہیں تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایئر پوڈ مبینہ طور پر دبئی میں گم یا چوری ہوئے تھے۔ پولیس نے مزید ٹریکنگ کا کام کیا اور ایک مخصوص آبادی کی نشان دہی ہوئی کہ اس مقام پر ایئر پوڈز ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے انسانی ذرائع استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔‘ طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’ایک خصوصی تفتیشی ٹیم کو ٹاسک سونپا گیا کہ وہ اس مخصوص علاقے میں پتا کریں کہ اس علاقے میں حالیہ دنوں میں کون کون دبئی سے واپس آیا ہے۔ ان لوگوں کے نام، پتے حاصل کر کے ان سے انٹرویو کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘ طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’مخصوص لوکیشن میں سے جو لوگ دبئی سے آئے تھے انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کے پاس ایئر پوڈز موجود ہیں۔ مگر جب ہماری تفتیش کے مطابق مرتب کردہ فہرست میں دبئی سے واپس آنے والے آخری شخص سے بات ہوئی تو انھوں نے ایئر پوڈز کی بات سنتے ہی ایک دم کہا کہ انھوں نے دبئی سے ایئر پوڈز خریدے تھے۔‘ پولیس کے مطابق اُس شخص نے ’خریداری کا ثبوت بھی دکھایا اور یہ بھی بتایا کہ انھوں نے کس سے اسے خریدا تھا۔ پولیس نے خریداری کے یہ سارے ثبوت مائلز کو دکھائے، جس کے بعد مائلز نے خود ہی ایکس پر پوسٹ کر دیا کہ ان کے ایئر پوڈز مل گئے ہیں۔‘ طارق عزیز کا کہنا تھا کہ ’جس شخص سے یہ ایئر پوڈز ملے جب انھوں نے برطانوی شہری مائلز کی انھیں تلاش کرنے کی کہانی سنی تو وہ مسکرائے اور یہ ایئر پوڈز رضاکارانہ طور پر یہ کہتے ہوئے ہمارے حوالے کر دیے کہ اگر ایک شخص ایئر پوڈز کے لیے اتنا جذباتی ہو رہا ہے تو انھیں یہ واپس کرتے ہوئے خوشی ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دوبارہ مائلز سے رابطہ قائم کیا اور انھیں کہا کہ اگر وہ چاہیں تو پولیس ان کے لیے کسی کوریئر سروس کے ذریعے یہ ایئرپوڈز واپس پہنچا سکتی ہے مگر انھوں نے انکار کیا اور کہا کہ وہ خود لینے آئیں گے اور پھر وہ جہلم ہمارے دفتر آئے۔ مائلز کے ایئر پوڈز رضاکارانہ طور پرر واپس کرنے والے پاکستانی شہری حالیہ دنوں میں چھٹیاں گزارنے جہلم آئے تھے اور واپس جانے سے ایک دن پہلے انھوں نے یہ ایئر پوڈز پولیس کو دیے۔ شہری نے کہا کہ ’جب مجھے پتا چلا کہ دبئی سے خریدے گئے ایئرپوڈز برطانوی شہری کے ہیں اور وہ اِن کو پانے کے لیے بہت بے تاب ہیں تو اس وقت میں بہت پریشان ہوا کہ کہیں مجھ پر اس کی چوری کا الزام نہ لگ جائے مگر شکر ہے کہ میرے پاس ایسے ثبوت موجود تھے کہ یہ میں نے خریدے تھے۔ میں نے یہ ثبوت پولیس کے حوالے کر دیے۔‘ شہری کا کہنا تھا کہ ’حقیقت بھی یہی ہے کہ دبئی کے جس ہوٹل سے یہ ایئرپوڈز گم ہوئے تھے میرا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ میں تو کبھی اس ہوٹل میں گیا بھی نہیں۔ دبئی میں میرے کام کی نوعیت ہوٹل اور ریستوران سے منسلک نہیں ہے۔ مگر جس شخص سے میں نے یہ ایئرپوڈز خریدے تھے وہ ہوٹل میں ہاؤس کیپنگ کا پارٹ ٹائم کام کرتا تھا۔‘ شہری کا کہنا تھا کہ ’مجھے پولیس کے ذریعے سے بعد میں یہ آفر بھی ملی کہ وہ شخص اس کی رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ مگر میرا دل نہیں مانا کہ میں رقم وصول کروں۔ میں نے دیکھا ہے کہ وہ ایئرپوڈز پا کر بہت خوش ہوئے اور ایئر پوڈز کو وصول کرنے کے لیے خود پاکستان آئے۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہوئی۔‘ مائلز کا کہنا تھا کہ ’جس نے میرے ایئر پوڈز چرائے ہیں اس کو میں قانونی طور پر کچھ نہیں کہوں گا۔ میں دبئی میں کام کے لیے گیا تھا اور وہاں پر ایئر پورٹ پر ایک سستے ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ کمرے کے دروازے پر میں نے ’ڈو ناٹ ڈسٹرب‘ کا ٹیگ لگا اور باہر چلا گیا مگر حیرت انگیز طور پر جب میں کمرے میں واپس آیا تو میرے ایئر پوڈز غائب تھے۔‘

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل