Loading
سکندر‘ سلطنت مقدونیا کے دارالحکومت پیلا میں 356قبل مسیح کو پیدا ہوا۔ والد فلپ دوم‘ ریاست کا بادشاہ تھا۔ سکندر کو اوائل عمری ہی میں ولی عہد نامزد کر دیا گیا۔ تیرہ برس کی عمر میں‘مایہ ناز فلسفی ‘ ارسطو نے ‘ شہزادے کو تعلیم دینی شروع کی۔ جو تین برس تک جاری رہی۔ سکندر کو‘ اس زمانے کے حساب سے تمام عسکری علوم پڑھائے گئے۔ سب کو اندازہ تھا کہ وہ ہونے والا بادشاہ ہے۔ اس لیے تربیت حد درجہ بہترین طور پر کی گئی۔ سکندر میں ایک مسئلہ ضرور تھا۔ بہت زیادہ خود اعتمادی نے اسے خود سر بنا دیا تھا۔ فطرت میں غصہ اور جلد بازی تھی۔ ہر جانشین کی طرح سکندر کے ذہن میں بھی تھا کہ کہیں اس کا والد ‘ کسی اور کو ولی عہد نہ بنا دے۔ بڑی وجہ‘ کنگ فلپ کی پانچویں شادی تھی۔ خاتون کا نام یوری ڈائس تھا۔ جس کا سگا بھائی اٹلس ‘ شاہی فوج کا سپہ سالار تھا۔ یوری ڈائس‘ ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ حسب نسب کے حوالے سے اولمپس سے بہتر تھی۔ ذہن میںر ہے کہ اولمپس سکندر کی والدہ تھی۔ اولمپس کو ایسے لگا ، اگر اس نئی شادی سے کوئی اولاد ہوئی‘ تومقدونیا کے قوانین کے مطابق نئے شہزادے کو ولی عہد بنایا جائے گا۔ کیونکہ اس کا خون اور خاندان‘ سکندر سے بہتر ہوگا۔ ایک تقریب میں یہ بات اٹلس نے سرعام بھی کہہ دی کہ اس کی بہن کے بطن سے پیدا ہونے والا بچہ ہی تخت کا اصل وارث ہو گا۔ سکندر کو بات بہت بری لگی۔ اس نے سپہ سالار کو بہت برا بھلا کہا۔ فلپ کو اپنے سپہ سالار کی بے عزتی بھلی نہ لگی۔ اٹھا اور سکندر کو مارنے کی کوشش کی۔ پیر پھسلنے کی وجہ سے گر گیا اور سکندر بچ گیا۔ باپ اور بیٹے کے تعلقات اس حد تک کشیدہ ہو گئے کہ ولی عہد سکندر اپنی جان بچانے کے لیے ریاست سے ہی بھاگ گیا۔ ایک ہمسایہ ملک لی یریا(lliyria) میں پناہ لے لی۔ Demaratusنام کے ایک سنجیدہ رئیس نے بہت کوشش کر کے‘ باپ بیٹے کی جزوی صلح کرا دی۔ مگر معاملہ مکمل طور پر ٹھنڈا نہ ہو پایا۔ فلپ اپنے بیٹے کے غصہ اور جلد بازی سے سخت تنگ تھا۔ اس نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ولی عہد کا تاج سکندر سے لے کر اپنے کسی اور بیٹے کو دے ڈالے گا۔ سکندر کی والدہ حد درجہ ذہین عورت تھی۔ دربار اور حکومت کے معاملات کو گہرائی سے سمجھتی تھی۔ اسے بادشاہت اپنے بیٹے سے ہاتھوں سے نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ مگر کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ سپہ سالار اٹلس‘ سکندر کے خلاف تھا۔ لیکن قدرت کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔ پچیس اکتوبر 336 قبل مسیح کو بادشاہ اپنی بیٹی کی شادی میں شامل ہوا۔ تقریب کے دوران سب سے بااعتماد محافظ Pausanius نے اسے قتل کر دیا۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ کوئی بھی بادشاہ کوبچا نہ سکا۔ محافظ کو سکندر کے دوست Leonnatusنے مار ڈالا۔ سکندر کی والدہ‘ تقریب میں موجود تھی۔ نوجوان ولی عہد کو کہا کہ یہ وہ موقع ہے جسے ضایع نہیں کیا جا سکتا۔ سکندراٹھا، اپنے باپ کی لاش کو سیدھا کیا۔ شاہی تلوار میان سے نکالی اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ سارے درباریوں نے فوراً اسے بادشاہ تسلیم کر لیا۔ آج تک مورخین کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ فلپ کا قتل‘ اس کی بیوی‘ اولمپس نے کرایا یا یہ سازش کسی اورنے کی تھی۔ مگر صاحبان‘ اس واقعہ نے پوری دنیا تبدیل کر دی۔ سکندر ایک چھوٹی سی ریاست سے طوفان کی طرح اٹھا اور پوری دنیا کا فاتح اعظم بن گیا۔ جس کی عظمت اور بہادری کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ذرا غور سے معاملات کو دیکھیئے ‘ قرون اولیٰ سے قدرت کا ایک ہی اصول رہا ہے ۔ یہ کہ حتمی فیصلہ صرف اور صرف اسی کے پاس ہے۔ انسان کچھ سوچتا ہے۔ مگر ہوتا بالکل کچھ اور ہے۔ دربار‘ بادشاہت‘ سلطنت اور انتقال اقتدار میں یہ مثال مزید توانا ہو جاتی ہے۔ بادشاہ ‘ اپنے جانشین کے متعلق کچھ سوچ رہا ہوتا ہے۔ ایک حادثہ ہوتا ہے۔ اور بہترین حکمت عملی اور طاقت ‘ دھری کی دھری رہ جاتی ہے ۔ قدرت صرف ایک لمحہ میں پانسہ پلٹ دیتی ہے۔ کل کا معتوب‘ آج کا ظل الٰہی قرار پاتا ہے۔ اور آج کا ناقابل شکست شہنشاہ دھول چاٹ رہا ہوتا ہے۔ تمام سلطنتیں جن میں انتقال اقتدار کا کوئی مستند قانون رائج نہیںرہا، وہاں حادثے تقدیر بدل ڈالتے ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز‘ انھیں پسماندہ ملکوں میں آتا ہے۔ جہاں آئین میں تو سب کچھ درج ہے ۔ مگر اس کمزور سے آئین کی طاقتورطبقہ بات نہیں سنتا۔ عملاً ہمارے ملک کی یہ مقدس دستاویز‘ مسکین بلکہ یتیم سے کاغذات کا مجموعہ ہے۔ جس کی عملی شکل کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ تمام مسلمان ملک‘ اس مہلک بیماری میں مبتلا ہیں کہ سوائے سازش یا قتل و غارت کے حکمران کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ زبوں حالی دیکھئے۔ ستاون (57) مسلم ممالک میں کوئی بھی ایسی ریاست نہیں‘ جو ایک مکمل جمہوری ضابطہ کے تحت چل رہی ہو۔ بادشاہت ‘ پوری ریاست کے وسائل پر ایک خاندان کا قبضہ ‘ مرتے دم تک حکمرانی کا خبث باطن ‘ ان تمام ملکوں میں برہنہ ہو کر رقص کر رہا ہے۔ کسی بھی مسلمان ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ مستند جمہوری رویوں سے نفرت کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ مراکش سے لے کر ایران تک‘ اور انڈونیشیا سے لے کر عرب حکمرانوں تک‘ ایک جیسا بگاڑ ہے۔ محض خاندانوں کی حکومت ہے۔ افراد بغیر کسی توجیہہ کے‘ بادشاہ سلامت گردانے جاتے ہیں۔ نسل درنسل‘ تخت پر ادنیٰ لوگ قابض رہتے ہیں۔ ویسے مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ مسلمان ریاستوں میں حکمران عوامی رائے سے حد درجہ ڈرتے ہی رہتے ہیں۔ کھوکھلے نعروں اور مذہبی تاویلوں سے کام لے کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرتے نظر آتے ہیں۔ انھیں‘ جمہوری اقدار سے نفرت معلوم پڑتی ہے۔ ویسے ان تمام مسلم ممالک کے عوام بھی اب ‘ جمہوری رویوں سے کچھ نالاں نظر آتے ہیں۔ دراصل فکری آزادی نہ ہونے کی بدولت‘ انسان کو اپنی غلامی کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ مگر ایک مہلک حادثہ ‘ سب کچھ تبدیل کر ڈالتا ہے۔ دور مت جایئے۔ اپنے ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑایئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کا خاندان‘ جنرل ضیاء الحق کے طویل جبر کا نشانہ بنا رہا۔ پیپلزپارٹی کو زمین میں دفن کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا تھا کہ ضیاء الحق ‘ اقتدار سے کبھی علیحدہ ہو گا۔ تمام ریاستی ادارے اس کی آنکھ کے اشاروں پر ناچتے تھے۔ بے نظیر جو ایک بھرپور سیاسی قوت تھیں۔ تخت پر براجمان ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ پانچ جولائی 1977سے لے کر‘ سولہ اگست 1988تک ضیاء الحق‘ ایک شنہشاہ کی طرح چمڑے کے سکے چلا رہا تھا۔ اس نے ایک ایسی سیاسی قیادت ‘ مصنوعی طور پر تیار کر لی تھی جو انگوٹھے کے نیچے تھی۔ سترہ اگست کو حادثہ ہوا جس میں پراسرار طریقے سے ضیاء الحق مارا گیا۔ ایک حادثے نے صرف ایک دن میں ہمارے ملک کا سیاسی دھارا تبدیل کر ڈالا۔ ریاستی اداروں کی تمام چالوں کے باوجود ‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ مسند اقتدار پر فائز ہوئیں۔ جو کچھ سولہ اگست تک سوچا تک نہیں جا سکتا تھا، صرف ایک خونچکاں ہوائی حادثہ نے اسے زمین پر آراستہ کر ڈالا ۔ یہ ہمارے آنکھوں دیکھی بات ہے۔ قیامت یہ ہے کہ ہم لوگوں نے اپنے ہی تلخ تجربات سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ اس کے متضاد ‘ ہم نے تاریخ کا پہیہ الٹا چلانے کی بھرپور ‘ مگر ناکام کوشش کی۔ موجودہ سیاسی صف بندی کو دیکھئے۔ صاف نظر آ جاتا ہے کہ موجودہ حکومتی سیٹ اپ کو عوامی تائید نصیب نہیں۔ کوئی نہیں ہے جو عوام کے درمیان جاکر ان کا دکھ درد پوچھ سکے، زخموں پر مرہم رکھ سکے۔ عوامی فلاح کے طویل المدت منصوبہ بنا سکے۔ اس کے برعکس ‘ ہر وہ عاجلانہ فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ جس سے عام لوگوں کی کوئی خدمت نہیں ہو رہی۔ حکمران طبقے کو اس طرح کی باتیں بالکل پسند نہیں آتیں کہ کوئی انھیں بتائے کہ حضور‘ خدا آپ کا اقبال بلند رکھے۔ ذرا قصر بلکہ قلعہ سے باہر آ کر‘ عوام کے دکھ درد میں شریک ہو جائیں۔ حل تو آپ کچھ کر نہیں سکتے بلکہ آپ کے پاس وہ سوچ ہی نہیں ہے جس سے لوگوں کی فلاح ہو سکے۔ مگر یہاں ہر حکمران بھول جاتا ہے کہ سکندر جیسا باغی شہزادہ بھی صرف ایک واقعہ کی بدولت‘ تخت پر براجمان ہو جاتا ہے۔ اور پھر دنیا اس کی ٹھوکروں میں ہوتی ہے۔ غور فرمایئے! کیا تاریخ ‘ اپنا فیصلہ دوبارہ نہیں سنا سکتی!
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل