Loading
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ انھوں نے گلگت بلتستان میں بارشوں اور سیلابی صورتحال پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ گلگت میں حالیہ بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے آئے ہیں۔ دنیا بھرکی طرح پاکستان خاص کر گلگت بلتستان کو موسمیاتی تبدیلی کا سامنا ہے، ہر سال گلیشیئرز کے پگھلاؤ میں اضافے کے باعث یہاں کے باسیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ گلگت بلتستان 7 ہزار سے زائد بڑے قدرتی گلیشیئرز کا مسکن ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئرز کو سنگین خطرات لاحق ہیں، بلند درجہ حرارت کے باعث گلیشیئرز کا پگھلاؤ تیز ہو رہا ہے جو بڑے نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے قراقرم پہاڑی سلسلے کی بلند و بالا چوٹیاں اس سال کوہ پیماؤں کے لیے غیر معمولی حد تک خطرناک بن گئیں، جس کی بڑی وجہ بدلتے ہوئے موسمی حالات ہیں، ان حالات نے برفانی تودوں، چٹانوں کے گرنے اور دیگر جان لیوا خطرات میں اضافہ کر دیا ہے۔ برف کی مقدار کم ہونے سے پہاڑ نسبتاً خشک ہو چکے ہیں، جس کے باعث وہ برفانی تودوں کا شکار ہو رہے ہیں اور کبھی کبھار ایک ہی دن میں کئی بار ایسا ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی سے انسانی جانوں، املاک، فصلوں، زرخیز زمین، درختوں اور مال مویشیوں کا بھی نقصان ہوتا ہے، برف باری میں کمی اور تیزی سے گلیشیئر پگھلنے کی موسمیاتی تبدیلیوں پر علاقے میں بڑے آبی بحران کا خدشہ ظاہرکیا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلیوں میں بیرونی عوامل کے علاوہ داخلی وجوہات کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔ قدرتی جنگلات کی کٹائی اور گرین بیلٹ میں پھیلتی ہوئی آبادی اور گاڑیوں سے نکلنے والا کاربن کے ساتھ بے ہنگم تعمیرات جیسے ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ علاقے میں خشک موسم کا دورانیہ بڑھ گیا ہے اور بارشیں کم ہو رہی ہیں جب کہ گزشتہ سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرنے کا کئی برس پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا، وہیں اس بار گرمیوں میں پارہ بلند ترین سطح پر ہے، گلگت بلتستان میں درجہ حرارت 48.5 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات انسانی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں، گلگت بلتستان میں زراعت اور سیاحت سمیت مختلف شعبوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔حالیہ بجٹ میں ماحولیاتی شعبے کے لیے مختص فنڈز میں 24 فیصد کی کمی کی گئی ہے، یہ کمی اس وقت کی گئی ہے جب ملک ہیٹ ویوز اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کا سامنا کر رہا ہے، جو زراعت اور عوامی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے بجٹ 26-2025 میں موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے مختص فنڈز 3.5 ارب روپے سے 2.7 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے میں رواں مالی سال کے دوران 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو نہ صرف معیشت کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ خوراک، کسانوں کی آمدن اور دیہی معیشت کے لیے بھی تشویشناک اشارہ ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2025 کو تحفظِ گلیشیئر کا عالمی سال قرار دے دیا ہے۔ اس اقدام سے دنیا میں دو ارب سے زیادہ لوگوں کے لیے تازہ پانی کے ان اہم ذرایع کو بچانے کی کوششیں یکجا کرنے میں مدد ملے گی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک نہیں، کئی وجوہات ہیں اور ہماری پیاری زمین کو اس حال پر کسی اور نے نہیں، ہم نے خود پہنچایا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ، طوفانوں کی شدت میں اضافہ، غیر متوقع بارشیں موسم کی اہم تبدیلیاں ہیں۔ موسم میں تبدیلیاں غیر معمولی بات نہیں مگر انسانی سرگرمیوں نے ان تبدیلیوں کو غیر متوقع حد تک خطرناک بنا دیا ہے۔ درخت کٹتے ہیں یا انھیں جلایا جاتا ہے، یہ عوامل بھی ہمارے ماحول کے لیے زہر قاتل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں ہماری زندگی پر انتہائی خطرناک اثرات ڈالتی ہیں، زراعت اور معیشت کی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر اسے موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے بحران یا واقعات سے ایک پاکستانی شہری کی موت کا امکان دوسرے ممالک کے مقابلے میں 15 گنا زیادہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اسی رفتار سے جاری رہیں تو کئی تاریخی اور خوبصورت شہر صرف یادوں میں رہ جائیں گے۔ دنیا بھر میں موسمی تبدیلیاں، زرعی معیشت اور مویشی پال صورتحال کسانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہیں، پاکستان جیسے زرعی ملک میں مویشی پالنا لاکھوں افراد کا ذریعہ معاش ہے تاہم بدلتے موسموں نے اس شعبے کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق پاکستان میں مویشی پالنے کا شعبہ جی ڈی پی کا تقریباً 11.7 فیصد ہے اور زراعت کے شعبے کا 60 فیصد حصہ مویشیوں سے جڑا ہوا ہے، تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہ حرارت میں اضافے، بارشوں کے بے وقت اور شدید پیٹرن، خشک سالی اور چارے کی قلت جیسے مسائل نے مویشیوں کی صحت، پیداوار اور افزائش نسل پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ گرمی کے باعث دودھ دینے والی گایوں اور بھینسوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق درجہ حرارت میں ہر 1 ڈگری سیلسیس اضافے سے دودھ کی پیداوار میں 3 سے 5 فیصد کمی آتی ہے، موسمی تبدیلی سے پیدا ہونے والی نئی بیماریاں، جیسے لمپی اسکن بیماری، مویشیوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں، ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت کو موسمیاتی پالیسیوں میں مویشیوں کے تحفظ کو شامل کرنا ہوگا اور کسانوں کو بروقت آگاہی، ویکسی نیشن اور چارہ فراہم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تغیرات پاکستان میں ہر جاندار کو متاثر کر رہے ہیں، درخت کم ہو رہے ہیں، گلیشیئر پگھل رہے ہیں، بارشیں اور سیلاب زیادہ شدت اختیار کر رہے ہیں اور آبی ذخائر کم ہونے کی وجہ سے یہ پانی ضایع ہورہا ہے اور سال کا اکثر وقت کسان اور جانور پانی کی کمی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ تھر میں پچھلے کئی سال سے موسم گرما میں قحط سالی کے باعث مرنے والے موروں کی تعداد بڑھ رہی ہے، پانی کے پرندے بھی یہاں سے ہجرت کر رہے ہیں، جانوروں کی نسلیں معدوم ہو رہی ہیں، یہ سب ایکو سسٹم کی تباہی کے اشارے ہیں جو بالآخر انسانوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں جنگلی حیات اور مویشیوں کو خاص طور پر متاثر کرتی ہے، اس کے نتیجے میں ان کے مسکنوں کا نقصان پہنچ رہا ہے، خوراک کی دستیابی میں کمی ہو رہی ہے، بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا اور بعض انواع کی معدومیت کے خطرات بھی پیدا ہو چکے ہیں، یہ اثرات جنگلی جانوروں اور پالتو مویشیوں کو متاثر کرتے ہیں جس کی وجہ سے پیداواری صلاحیت، افزائش نسل اور جانوروں کی صحت میں کمی واقع ہوتی ہے، آب و ہوا کی تبدیلی قدرتی رہائش گاہوں کے نقصان اور جنگلی حیات کی بقا کے لیے اہم جنگلات اور دلدلی علاقوں اور گھاس کے میدانوں کا نقصان کرتی ہے۔ کسانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور موافقت کے اقدامات کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا انھیں باخبر فیصلے کرنے میں مدد دے سکتا ہے، جہاں دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاتی ہے وہاں پانی ذخیرہ کرنے کی سہولیات پر سرمایہ کاری پہ بھی توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ اس بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے پانی کے وسائل کو زیادہ موثر طریقے سے منظم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔2022کے تباہ کن سیلاب اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کن بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان سیلابوں نے ملک کے تین کروڑ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، 1700 سے زائد اموات ہوئیں اور معیشت کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ ورلڈ بینک کے مطابق ان آفات کی وجہ سے پاکستان کی جی ڈی پی میں 2 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ پاکستان میں زراعت جو کہ جی ڈی پی کا 20 فیصد اور افرادی قوت کا 40 فیصد حصہ ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ خشک سالی اور بے وقت بارشوں نے گندم، کپاس، اور چاول کی پیداوار میں نمایاں کمی کی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر اقدامات نہ کیے گئے تو 2040تک پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ شہری علاقوں میں شدید گرمی کی لہروں اور فضائی آلودگی نے صحت کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ 28 ہزار اموات آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا سبب ہوتی ہیں، جن میں ایک بڑا حصہ موسمیاتی تبدیلی سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان نے فوری طور پر موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا ادراک نہ کیا تو آنے والے برسوں میں معاشی، زرعی اور ماحولیاتی نظام ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پائیدار ترقی، متبادل توانائی، اور بین الاقوامی ماحولیاتی فنڈز کے استعمال پر توجہ دی جائے تاکہ مستقبل کی نسلوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل