Monday, August 04, 2025
 

امریکا کی نظر التفات کوئی پہلی بار نہیں

 



امریکا بہادرکی ہم پر حالیہ نظر التفات کوئی انہونا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ ہم پرکئی بار محبت، شفقت، عنایت اور مہربانی کی بارشیں کرچکا ہے، اسے جب جب ہم سے کوئی کام نکلوانا ہوتا ہے وہ ہم سے اچانک یونہی محبت و شفقت کا رویہ اختیارکرنے لگتا ہے، البتہ اس بار جو بڑا فرق یہ نظر آرہا ہے وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ اس کا معاندانہ رویہ ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ خود انڈیا والے بھی حیران و ششدر ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرنے والی بھارتی حکومت اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی بھی سکتے کے عالم میں اس امریکی رویے سے حیران و پریشان ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جیت پر واشنگٹن کی یاترا کرتے ہوئے انھوں نے جس مسرت و شادمانی کا اظہار کیا تھا اور ٹرمپ کے لیے بڑے تحسین آمیز الفاظ استعمال کیے تھے، اُن کا اثر یہ نکلا کہ ٹرمپ اپنی ہر تقریر میں بھارتی حکومت پر لعن و طعن کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نریندر مودی کو اس وقت اپنی اپوزیشن اور عوام کے سامنے انتہائی خفت و شرمندگی کا سامنا ہے، وہ جھنجھلاہٹ کے عالم میں اس وقت کوئی بیان دینے کے قابل بھی نہیں رہے۔  ہمیں اس وقت کیا کرنا چاہیے۔ کیا امریکا کی اس اچانک کی جانے والی محبت و مہربانی پر شادیانے بجانا چاہیے یا اس کے پیچھے چھپے امریکی مفادات پرگہری نظر رکھنی چاہیے۔ ہم جیسے ملک پر امریکی مہربانیاں کچھ بلاوجہ نہیں ہوتیں۔ اس کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بڑا مفاد چھپا ہوتا ہے۔ ہم ماضی میں بھی ایسی امریکی نوازشات سے مستفید ہوتے رہے ہیں جن کا خمیازہ ہمیں بعد میں بھگتنا پڑا۔  ہمیں چوکنا رہنا ہوگا۔ جنرل ضیاء کے دور میں افغانستان میں روسی مداخلت روکنے کے لیے اس نے ہم پر ایسی ہی بڑی مہربانیاں کی تھیں اور جب کام نکل گیا تو اس نے جس طرح نظریں پھیر دیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اسی دور میں اس نے ہم پر اقتصادی پابندیاں بھی لگائی تھیں۔ ہمارے چالیس F-16 طیاروں کی ترسیل روک کر ہماری پہلے سے دی ہوئی بھاری رقوم بھی اس نے کئی سالوں تک روکے رکھی اور بعد ازاں اُس رقم کے بدلے ہمیں گندم لینے پر مجبورکردیا گیا۔ یہ زیادتی دنیا میں کسی ملک کے ساتھ نہیں ہوئی۔ امریکا جسے ہم اپنا دوست سمجھ کر قناعت کرتے رہے اسی امریکا نے ہمیں کئی بار دھوکے بھی دیے ہیں۔ ہماری معاشی بدحالی میں اس امریکا کا بہت بڑا ہاتھ اور کردار بھی ہے۔ وہ جب چاہتا ہے ہمیں اپنی محبت کے چنگل میں پھنسا لیتا ہے اور جب چاہتا ہے ہم پر پابندیاں میں لگا دیتا ہے۔ کبھی دہشت گرد ملکوں کی فہرست میں شامل کرکے اور کبھی فیٹیف کی گرے لسٹ میں شامل کر کے۔ کبھی CTBT میں دستخط نہ کرنے کی پاداش میں تو کبھی کم عمر بچوں سے کام لینے کے جرم میں۔ وہ جب چاہتا کسی نے کسی بہانے سے ہم پر پابندیاں لگاتا رہا ہے۔ آج اس کی یہ مہربانیاں بھی عارضی ہوسکتی ہیں۔ کل نیا آنے والا امریکی صدر یا خود ڈونلڈ ٹرمپ کیا پینترا بدل ڈالے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز حکومت سنجیدہ اور شائستہ نہیں ہے۔ وہ جذباتی اور عاجلانہ امیچیور فیصلے کر رہے ہیں۔ کل وہ اچانک ایک نیا فیصلہ کردیں یا اپنے انھی فیصلوں پر یوٹرن لے لیں کسی کو نہیں معلوم، لٰہذا ہمیں اپنے حق میں کیے گئے اُن کے فیصلوں پر شادیانے نہیں منانا چاہیے، بلکہ کسی بھی دوسرے مخالفانہ فیصلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہم اپنی آنکھیں بند کرکے خود کو ایک بے اعتبار ملک امریکا کے حوالے نہیں کرسکتے جس نے ہمیں ہمیشہ دھوکا ہی دیا ہے۔ وہ ہماری خود مختاری اور خود انحصاری کا بہت بڑا دشمن ہے، وہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ ہم ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر کے ایک ترقی یافتہ ملک بن جائیں۔ ہمیں محتاج اور غلام بنا کر ہی وہ ہم پر اپنا حکم چلا سکتا ہے، وہ ہماری جغرافیائی حیثیت سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ اس لیے وہ کبھی کبھار ہم پر اپنی مہربانیوں کے ڈورے ڈالتا رہتا ہے تاکہ ہم اس سے اپنا ناتا جوڑے رکھیں۔ ہماری مجبوری یہی ہے کہ فی الحال ہم اس سے دشمنی مول نہیں سکتے، لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کراس کی اس اچانک نازل ہونے والی محبت میں چھپی چالوں کونہ صرف سمجھنا ہوگا بلکہ موثر اور بصیرت آموز طریقے سے جواب بھی دینا ہوگا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل