Monday, August 04, 2025
 

کامریڈ رانا عبدالرحمان صاحب

 



پچھلے سال انھی مون سون کے دنوں کی بات ہے، جب ایک روز اخبار کھولا تو رانا عبدالرحمان صاحب کی گمشدگی اور پراسرار موت کی خبر پڑھی، دل کٹ کے رہ گیا۔ معلوم ہوا کہ ایک روز پہلے صبح سویرے گھر سے نکلے، مگر نہ تو اپنے دفتر پہنچے اور نہ گھر واپس آئے۔ ان کے اہل خانہ، دوست احباب سارا دن ان کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے، پر کوئی سراغ نہ پایا۔ دوسرے روز یہ اطلاع ان کے چاہنے والوں پر بجلی بن کے گری کہ وہ زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ لاہور سے بہت دور،ان کے آبائی پنڈچک 39 گ ب ستیانہ فیصل آباد کی نہر ان کو اپنی سرد آغوش میں لے چکی تھی۔ کوئی نہیں جانتا کہ انتہائی کمزور بینائی کے باوصف ناگہاں کس طرح اتنی دور اپنے آبائی گاؤں جا پہنچے اورکن جانے، انجانے حالات میں جان، جان آفرین کے سپرد کی، مگر ان کی اس طرح دل خراش موت لاہور کی کتاب دوست برادری کو بے حد اداس کر گئی۔ اسی ستیانہ گاؤں، جس کے پاس رانا عبدالرحمان نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیں، کے ایک متوسط کاشتکار خاندان میں 1959میں انھوں نے آنکھ کھولی، یہیں بچپن گزرا ا ور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے بی اے کرنے کے بعد تلاش معاش کے لیے راولپنڈی کی راہ لی۔ کچھ عرصہ نیشنل پبلشنگ ہاؤس میں کام کیا۔ پھر محکمہ زراعت میں سرکاری نوکری مل گئی۔ کچھ اپنے معاشی پس منظر اور کچھ بچپن کے دوست طاہر قمر، جن کے والد پیپلزپارٹی کے مقامی عہدیدار بھی تھے، کی معرفت سوشلسٹ لٹریچر کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ عملی طور پر پیپلزپارٹی کے ’کامریڈ‘ بن چکے تھے۔ مزدوروں ، محنت کشوں اور صنعتی کارکنوں کے حقوق کے لیے ٹریڈ یونین سیاست میں بھی متحرک رہتے تھے۔ چنانچہ، بھٹو حکومت کے خاتمہ کے بعد جب پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے خلاف داروگیر کا سلسلہ شروع ہوا، تو رانا صاحب کو بھی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا، بلکہ اس کے بعد لگ بھگ پانچ برس تک اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے دور، روپوشی اور گمنامی کی زندگی گزارنی پڑی۔ کہتے ہیں، جنرل ضیاء کے کارندوںکی وحشیانہ دستبرد سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے وہ میر پور آزاد کشمیر منتقل ہو گئے، جہاں وہ ’رانا صاحب‘ کے بجائے اب ’لالہ جی‘ کہلاتے تھے،اور 1988میں جنرل ضیاء کی موت کے بعد ہی گھر لوٹ سکے، اور زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کے قابل ہوئے۔ میر پور سے واپسی کے بعد، مگر دوبارہ راولپنڈی جانے کے بجائے، انھوں نے لاہور آ کے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا، جو آگے چل کے معاشی طور پر ان کے لیے مفید بھی ثابت ہوا۔ لاہور کے انڈسٹریل ایریا میں گزربسر کے لیے ملازمت مل گئی، تو اپنے چند احباب کے ساتھ مل کے رائل پارک سے ’نیا پاکستان‘ کے نام سے ایک پرچہ نکالا، جو مگر اتنا ہی چلا، جتنا کہ ان نامساعد حالات میں انتہائی محدود وسائل کے ساتھ چل سکتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد لاہور میں چند ترقی پسند دانشوروں نے مل کے ’مکتبہ فکرو دانش‘کی بنیاد رکھی، تو رانا صاحب اس تنظیم میں بھی پیش پیش تھے۔ اس مکتبہ کے تحت ہی ’فکشن ہاؤس‘ وجود میں آیا۔ پھر اسی ’فکشن ہاؤس‘ سے پہلے’ روہتاس‘ اور’ تخلیقات‘ نے جنم لیا، اور آخر میں رانا صاحب کا ’بک ہوم‘ برآمد ہوا۔ اور، یہی دن تھے، جب عباس نجمی کی معرفت پہلے پہل رانا صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔ نجمی صاحب کی اس روز ریڈیو ریکارڈنگ تھی۔ واپسی پر وہ کوئنز روڈ میرے‘ دفتر آئے، تو کچھ ہی دیر بعد یہ کہہ کے اٹھ کھڑے ہوئے کہ’ آج آپ کو رانا عبدالرحمان سے ملواتے ہیں، یہیں قریب ہی صفانوالا چوک کے پاس نیا پبلشنگ ہاؤس شروع کر رہے ہیں‘۔ ہم رانا صاحب کے پاس پہنچے، تو وہ شو روم کے فرنیچر، بک شلفوں کی ترتیب اور ان کے رنگ و روغن کا جائزہ لے رہے تھے۔ ’نجمی صاحب کم تیار اے‘، نجمی صاحب کو دیکھ کررانا صاحب جیسے خوشی سے اچھل پڑے، ’بس تھوڑے دناںدی گل دے، اوپرکیبن وی بن جائے گا، فیر ایتھے ای محفلاں جمن دیاں۔‘ ان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ معلوم ہوا کہ نجمی صاحب سے ان کا دیرینہ تعلق اور دوستانہ ہے۔ نجمی صاحب نے میرا تعارف کرایا، تو بے تکلفی سے کہا، تسیں نجمی صاحب دے دوست او، تے آج تو ساڈے وی دوست او، اور واقعتاً اس کے بعد مجھ سے ان کا سلوک ہمیشہ دوستانہ ہی رہا ۔ اس روز پہلی بار رانا صاحب سے مل کے یوں لگا، جیسے ان کے اندر بجلی بھری ہوئی ہے، پر عزم اور پر امید۔ گندمی رنگ، درمیانی قدو قامت،اگرچہ بینائی کا ان کو اس وقت بھی مسئلہ تھا، اور عینک لگانے کے باوجود جب مخاطب کی طرف دیکھتے تو معلوم ہوتا تھا، جیسے کسی اور طرف دیکھ رہے ہیں۔مگر ، ایسی پریشان کن صورتحال نہ تھی، جو زندگی کے آخری دنوں میں پیدا ہوچکی تھی۔ تیز تیز بولتے ، تیز تیز چلتے،اور تیز تیز ہی ہرکام کرتے نظر دیتے تھے۔ نہایت متواضع، مگر نجمی صاحب کی طرح اکل کھرے اور انتہائی حد تک صاف گو، جو بات دل میںہے، وہی زبان،بلکہ نوک زباں پر ہے۔ پیپلزپارٹی اور بھٹو صاحب کے ساتھ طالب علمی کے زمانے سے جو والہانہ لگاؤ تھا، اب تک برقرار تھا۔ بعینہ، جنرل ضیاء کے خلاف ان کے اندر جو تلخی تھی، اور اس کی وجوہات قابل فہم تھیں، وہ بھی جوں کی توں موجود تھی۔ تاہم، اب پیپلزپارٹی کی سیاست کے بجائے، ان کی دلچسپی بس ان سوشلسٹ نظریات سے تھی، جن کی بھٹو صاحب نے پیپلزپارٹی کے ابتدائی دور میںآبیاری کی تھی۔ چنانچہ، جیسے ہی شوروم کے اندرچھت سے ملحق لکڑی کاکیبن تیار ہو گیا، تو اسے انھوں نے اپنی سربراہی میں ترقی پسند ’رائٹرز فورم‘ کی نظریاتی سرگرمیوں کے لیے وقف کر دیا۔ اس فورم کے اجلاسوں کی روداد نہ صرف باقاعدگی سے اخبارات کو بھجواتے، بلکہ دوست احباب کے لیے وٹس ایپ پر بھی جاری کرتے تھے۔ اس روز، جب میں رانا صاحب کو نئے شوروم میں فرنیچر کوترتیب سے رکھواتے دیکھ رہا تھا، تو میرا خیال تھا، اس نئے ادارے کو اپنی جگہ بنانے میں چار پانچ برس تو لگ ہی جائیں گے، مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی، جب ایک سال کے اندر اندر ہی اس ادارے کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔ ایسے دھڑا دھڑ کتابیں آ رہی تھیں، جیسے فوٹو اسٹیٹ مشین سے فوٹو کاپیاں نکلتی ہیں۔ شہر کے مرکز میں اس ادارہ نے کتابی ڈیرے کی شکل اختیار کرلی تھی، جہاں چائے کے دور تو سارا دن چلتے ہی رہتے، اس کے ساتھ دوپہر کو مزنگ اڈے کی مشہور جٹے کی دال سے بھی مہمانوں کی تواضع ہوتی تھی۔ عباس نجمی، زاہد مسعود اور رانا عبدالرحمان، اس کتابی ڈیرے کی وہ مثلث تھے، جو شہر میں اس کی مستقل شناخت تھی، خوش باش، زندہ دل اور پُرجوش۔ مگر وہ جو شاعر نے کہا،’ چرخ پر اپنا مدار دیکھیے کب تک رہے، اس طرح روزگار دیکھیے کب تک رہے‘، آج وہ لیل و نہار خواب معلوم ہوتے ہیں۔ پہلے آناً فاناً عباس نجمی نے رخت سفر باندھا اور چل دیے۔پھر زاہد مسعود بھی ’ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی، کچھ ہماری خبر نہیں آتی‘ کی تصویر بن گئے۔ چنانچہ رانا عبدالرحمان سے اس کے بعد ملاقاتیں، اب عباس نجمی اور زاہد مسعود کے ساتھ بیتے دنوں کو کریدنے کا وسیلہ بھی تھیں۔ انھی دنوں رانا صاحب اپنے ہمدم دیرینہ غلام سرورصاحب کے ہمراہ ’مجلس ترقی ادب‘ کے دفتر تشریف لائے۔ میں ان کو دیکھ کے حیران ہوا، تو کہنے لگے، حیران ہونے کی ضرورت بھی ہے، کیونکہ میں سال ہا سال سے لاہور میں ہوں، اورپبلشنگ کے کاروبار ہی سے وابستہ ہوں، لیکن آج پہلی بار مجلس کے دفتر آیا ہوں ، اور وہ بھی اس لیے کہ تمھیں اس کا سربراہ مقرر کیے جانے پر مجھے حقیقی خوشی ہوئی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ اب یہ ادارہ ادبی، سیاسی اور نظریاتی تعصبات سے بالاتر ہو کر علم وادب کی خدمت کرے گا۔ وہ زاہد مسعود کی علالت پر بہت ملول تھے، اور دیر تک ان کی باتیں کرتے رہے۔ دوسرے روز میں دفتر آیا تو میز پر زاہد مسعود کی تمام کتابوں کا سیٹ پڑا تھا ، جس میں سے زاہد مسعود کے لیے رانا صاحب کی سچی محبت کی خوشبو آرہی تھی۔ اس ملاقات کے بعد رانا عبدالرحمان کی صرف ایک جھلک دیکھی، وہ بھی اس طرح ان کے شو روم کے پاس سے گزر رہا تھا۔ دور سے دیکھا تو شو روم کے اندر اپنے مخصوص انداز میںگھوم رہے تھے، ایک لمحے کے لیے سوچا، ان سے ملنے کے لیے رک جاؤں، لیکن اگلے ہی لمحے ٹریفک کے بہاؤ میں گاڑی آگے بڑھ چکی تھی۔ آخری فوٹیج میں ان کو اسی طرح تیز تیز چلتے دیکھا، جس طرح تیز تیز چلنے کی ان کی عادت تھی، تو یہ منظر دیکھتے ہوئے یقین نہیں آتا تھا کہ آج جس لہر میں تیز تیز چلتے ہوئے کامریڈ رانا عبدالرحمان جا رہے ہیں، اندھیری راہوں کے اس سفر سے کبھی واپس نہیں لوٹیں گے۔ حافظ نے کہا تھا ؎ گفتم کہ نہ وقت سفرت بود چنیں زود گفتا کہ مگر مصلحت وقت چنیں بود  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل