Loading
پاکستان میں کئی دہائیوں سے بزنس کمیونٹی اور حکومت کے درمیان مختلف کاروباری معاملات، فیصلوں اور پالیسیوں پر بداعتمادی کا ماحول غالب نظر آتا ہے۔اگرچہ تمام حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف معیشت کی بحالی کے لیے سرگرم ہیں بلکہ ایسی پالیسیاں لانا چاہتے یا لارہے ہیں جو ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی کے لیے سازگار ماحول کو پیدا کرنے میں بھی معاون ثابت ہو۔ اسی طرح حکمران طبقہ کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اپنی پالیسیوں ،قانون سازی یا اس کے عملدرآمد کے نظام میں کاروباری طبقات کی قیادت سے مشاورت اور ان کے اعتماد سمیت اتفاق رائے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی کئی کاروباری شخصیات کا بیانیہ حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات سے مختلف ہے اور ان کے بقول نہ تو حکمران طبقہ کی مجموعی پالیسیاں کاروبار کے پھیلاؤ کے مفاد میں ہیں اور نہ ان پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت ترقی کررہی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت اور کاروباری کمیونٹی میں بداعتمادی کا ماحول ہے ۔ کاروباری شخصیات کاروبار اور ملکی معیشت سے جڑے مسائل پر اپنے تحفظات ظاہر کرتی رہتی ہیں۔ کاروباری تنظیموں کی قیادت کی ہر دور میں اعلیٰ سطح کی حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کرتے ہیں اور اپنی سفارشات اور تحفظات بیان کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ تحفظات مسلسل چل رہے ہیں، کبھی کوئی مسلہ اور کبھی کوئی مسلہ ۔ کاروباری تنظمیں اور ان کی قیادت موجودہ حکومت کے بارے میں بھی یہی کہہ رہی ہے کہ وہ ان کے مسائل کو سمجھنے کے لیے ہی تیار نہیں ہے اور ان مشاورت کے بغیر سرکاری ایجنڈا مسلط کیا جاتا ہے۔ جب کاروباری افراد یا تنظیمیں اپنے تحفظات پیش کررہے ہوں تو یہ ملکی معیشت سمیت کاروبارکے مسائل کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ کاروباری طبقہ متبادل پالیسی چاہتا ہے ۔ کاروباری تنظیمیں اسی قسم کے تحفظات سابقہ حکومتوں پر بھی اٹھاتی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ کاروباری افراد اور تنظیموں کو حکومت کے وزیر اعظم ، وزیر خزانہ،وزیر تجارت یا وزیر سرمایہ کاری اور ایف بی آر سے مل کر اپنے مسائل حل کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ بار بار یقین دہانیوں کے باوجود کاروباری مسائل حل ہونے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہیں ۔بنیادی بات یہ ہے کہ حکمران طبقہ معیشت کی بدحالی یا ناکامی کا ملبہ کاروباری طبقے پر ڈالتا ہے جب کہ کاروباری طبقہ اس ناکامی کی وجہ حکومتی طرزعمل سمیت ان کی معاشی پالیسیوں کو سمجھتا ہے۔ کاروباری افراد کا یہ مقدمہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ان کے بقول حکومتی اور معاشی خود مختاری نہ ہونے کی وجہ سے حکمران طبقہ ہم سے مشاورت کیے بغیر آئی ایم ایف کی پالیسیاں لاگو کرکے جہاں معیشت کو خراب کرتا ہے وہیں کاروباری طبقہ کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔اصولی طور پر تو حکومت کی معاشی پالیسیاں اور جو بھی نظام ہے اس میں کاروباری طبقات کی قیادت کو اعتماد میں لے کر معاشی فیصلوں کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔لیکن کیونکہ ہمارا حکومتی نظام جہاں کمزور ہے وہیں گورننس سے جڑے اہم مسائل کی وجہ سے بھی کاروباری طبقے کو مختلف نوعیت کے معاشی یا کاروباری مسائل کا سامنا ہے۔ ان معاملات کے حل میں حکومت اور حکومتی اداروں ہی کی طرف دیکھنا ہوتا ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ ٹیکس قوانین میں کی گئی متنازعہ ترامیم پر معاملات افہام و تفہیم سے حل ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے ۔ کاروباری طبقہ کی جانب سے ملک گیر احتجاج کو بھی روک دیا گیا ہے ۔بنیادی طور پر کاروباری طبقہ کوٹیکس قوانین میں کی گئی تبدیلیوں پر اعتراض ہے ،ان میں ایف بی آر کو گرفتاریوں کے اختیارات دینے کے علاوہ کسی فرد کی گرفتاری کی صورت میں اپنائے جانے والے طریقہ کار پر بھی اعتراضات ہیں ۔اسی طرح ٹیکس قوانین کے متنازع سیکشن 37اے اور 37بی کے ساتھ فنانس ایکٹ 2025 میں شامل دیگر کاروباری مخالف اقدامات بھی شامل ہیں۔مختلف کاروباری طبقات تواتر کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کرتا چلا آرہا ہے ، ٹیکس وصولی کا نظام بھی پوری طرح شفاف نہیں ہے ۔ آج کی حکومت ہو یا ماضی کی جو حکومتیں رہی ہیں، اداروں کی ری اسٹرکچرنگ اور بنیادی نوعیت کے ڈھانچوں میں تبدیلیاں اور سخت گیر یا شفاف طرز کی اصلاحات لانے میں ناکام رہی ہیں اور ان اداروں کی کرپشن کی کہانیاں بھی موجود ہیں جو ان اداروں کی شفافیت کا بھی پول کھولتی ہیں۔ماضی میں اور حال میں بھی کاروبار کے فروغ اور اس نظام کی شفافیت کو پیدا کرنے اور معیشت کی درست بحالی پر حکومت کی سطح پر مختلف نوعیت کی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں یا بنائی گئی ہیں اور ان کمیٹیوں کی سربراہی وزیروں کے ہاتھوں میں رہی ہے ۔لیکن ان کمیٹیوں کی سفارشات پر نہ تو کبھی عمل ہوسکا اور نہ نظام میں شفافیت کی بنیاد پر اصلاحات کا عمل آگے بڑھ سکا۔کیونکہ اصل مسئلہ حکومتی ترجیحات اور مختلف اسٹیک ہولڈر کو نظر انداز کرکے آگے بڑھنے کا ہے۔ جب حکومتی نظام کمزور بنیادوں پر کھڑا ہوگا تو پھر کسی بھی صورت میں حالات کی بہتری ممکن نہیں۔ حکومت کو بھی سوچنا چاہیے کہ معاملات اس حد تک کیوں گئے ہیں کہ کاروباری طبقہ اپنے تحفظات ظاہر کررہا ہے۔ حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مسائل کا حل بھی ان کے پاس نہیں بلکہ اداروں کی شفافیت پر مبنی کارکردگی، اسٹرکچرل ریفارمز اور مختلف اسٹیک ہولڈرز میں باہمی مشاورت سے جڑا ہوا ہے۔اس لیے جب تک اس ملک کے ادارہ جاتی نظام میں سخت گیر اور شفاف اصلاحات نہیں ہوںگی کاروباری طبقہ کا اعتماد یا معیشت کی بحالی کا خواب بھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اس سوال پر بھی غور ہونا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ دنیا میں جن ممالک نے بہتر اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی اور کامیابی حاصل کی ان تجربات سے سیکھنے کے لیے ہماری حکومت کیونکر تیار نہیں یا بہتر اور شفاف اصلاحات کیونکر حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکی ہیں ۔کاروبارطبقہ معیشت کی ترقی میں کنجی کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کو نظر انداز کرنے یا ان کو ڈرانا دھمکانا مسائل کا حل نہیں ہے ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل