Sunday, August 10, 2025
 

پاکستان محبت، امن کی دھرتی... اقلیتیں ہمارے سر کا تاج!!

 



  رپورٹ: احسن کامرے11 اگست کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘ اسی تناظر میں پاکستان میں 11 اگست کو اقلیتوں کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔ خلیل طاہر سندھو (سینیٹر وسابق صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)  11 اگست کو اقلیتوں کا قومی دن منانے کا مقصد پاکستان کیلئے اقلیتوں کی خدمات اور ان کاوشوں کو سراہنا ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒنے پہلی دستور ساز اسمبلی کے 11 اگست کو ہونے والے اجلاس جس کی صدارت جوگیندر ناتھ مینڈل نے کی، سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘ اس برابری کی بنیادی نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے 632 ء میں اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں واضح فرمائی تھی کہ ’’کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت نہیں ہے، کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت نہیں ہے، ہاں! البتہ تقویٰ کی بنیاد پر (ان کو ایک دوسرے پر فضیلت ہوسکتی ہے)۔‘‘ ان تعلیمات کو قائداعظمؒ اور پھر ہمارے قائد میاں محمد نواز شریف نے آگے بڑھایا۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ میری لغت میں اقلیت کا لفظ نہیں۔ ان کی سوچ کو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف آگے بڑھا رہی ہیں اور اس وقت پنجاب میں سردار رمیش سنگھ اروڑا اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔عالمی سطح پر حالات کا جائزہ لیں تو غزہ میں انسانیت سوز سلوک جاری ہے۔ وہاں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مسیحی اور دیگر مذاہب کے پیروکار بھی آباد ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں 150 سال پرانا چرچ تباہ کر دیا ہے جو باعث افسوس ہے۔ اسی طر ح مقبوضہ کشمیر میں بھی مسیحی آباد ہیں لہٰذا میرے نزدیک فلسطین اور کشمیر کامسئلہ انسانی حقوق کا ہے اور وہاں انسانیت سوز سلوک کسی بھی طور قابل قبول نہیں۔ پنجاب میں جب میری وزارت کا آخری دن تھا تو ہم نے سردار رمیش سنگھ کے بل کو منظور کرکے پوری دنیا میں سب سے پہلے سکھ میرج ایکٹ بنایا۔اس میں راجہ اشفاق سرور، رانا ثناء اللہ اور محمود الرشید کا کردار بھی اہم تھا۔ 23جون 1947ء کو ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں کل 177 ووٹ تھے جن میں 5 ووٹ اقلیتوں کے تھے۔ پاکستان کے حق میں اقلیتوں کے4 ووٹ کاسٹ ہوئے، پھر قائد اعظمؒ اس وقت کے سپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا کے کمرے میں گئے اور پھر انہوں پاکستان کے حق میں آخری ووٹ کاسٹ کیا اور اس طرح اقلیتوں کے پانچ اہم ووٹ پاکستان کو ملے جس کے نتیجے میں نارروال، شکر گڑھ سمیت مختلف اضلاع پاکستان کا حصہ بنے۔ آج 99 فیصد پاکستانی چاہتے ہیں کہ ملک میں امن و اتحاد ہو اور سب ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوں۔ میرے نزدیک ملک میں اقلیت اور اکثریت دونوں کو ہی مسائل درپیش ہیں لہٰذا انہیں خاص رنگ دے کر ہوا دینا درست نہیں ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے افسوسناک واقعات ہوتے ہیں، ان کی گنجائش تو کسی بھی مذہب میں نہیں ہے۔ نبی کریمﷺ نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ انسانوں سے منسلک مسائل صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اتحاد کی سوچ رکھنے والے افراد مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہوسکے۔ بھارتی ریاست دہشت گردی اور نفرت کو سپانسر کر رہی ہے۔ پاکستان میں ریاست اس کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ بھارتی جارحیت کے خلاف تمام پاکستانی بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور قومیت،متحد ہوئے اور فیلڈ مارشل جنرل سید حافظ عاصم منیر کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے۔ ہم نے پریس کانفرنس بھی کی کہ پاکستان کی اقلیتیں افواج پاکستان کے ساتھ ہیں۔ پاکستان نے بھارت کی آبادی کو نشانہ نہیں بنایا لیکن اسے منہ توڑ جواب دے کر شکست سے دوچار کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مئی کے مہینے میں پاک فوج کے ساتھ ٹکر نہیں لینی چاہیے۔ فورم میں موجود تینوں اقلیتیں مہاجر نہیں بلکہ پاکستان کی وارث ہیں۔ مشکلات سب کو آتی ہیں لیکن ہمیں سپورٹ بھی بہت ملی ہے۔ مولانا عبدالخبیر آزاد ہمیشہ تعاون کرتے ہیں۔ ہمارے جو بھی مہمان بیرون ملک سے آتے ہیں، انہیں بادشاہی مسجد کا دورہ کرایا جاتا ہے، وہاں کسی کا مذہب نہیں پوچھا جاتا۔ محبت کے اس سلسلے کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ 11 اگست کو ہم پورے شہر کو فلیکسز اور بینرز سے سجا دیتے ہیں اور اقلیتوں کی قربانیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ہم سب پاکستان کی ترقی اور سلامتی کیلئے مل کر کام کر رہے ہیں۔ جس طرح پنجاب میں ہیومن رائٹس پالیسی، انٹر فیتھ پالیسی، مینارٹی افیئرز کی پالیسی ہے، اسی طرح ہم نے وفاقی سطح پر نیشنل کمیشن فار دی رائٹس آف مینارٹیز کی منظوری دی ہے۔ اس میں تمام اقلیتیں ماسوائے ایک کے جو خود کو کبھی اقلیت مانتے ہیں اور کبھی نہیں ، سب شامل ہوں گے۔ اس کا ایک چیئرپرسن ہوگا اور تمام صوبوں کے دو دو نمائندے شامل ہوں گے جن کا تعلق صرف اقلیت سے نہیں ہوگابلکہ اس میں مسلمان اور اسلامی نظریاتی کونسل کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ اس کمیشن میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی، یہ بااختیار ہوگا اور اس کے پاس جوڈیشل پاورز ہوں گی۔ صدر پاکستان کی منظوری کے بعد یہ کمیشن اپنے کام کا آغاز کردے گا ۔ سردار رمیشن سنگھ اروڑا (صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب) بادشاہی مسجد، سمادھی مہاراجہ رنجیت سنگھ اور گوردوارہ ڈیرہ صاحب کی دیواریں سانجھی ہیں جو بین المذاہب ہم آہنگی کی عظیم مثال ہے۔ یہ صرف لاہور ہی میں نہیں ہے بلکہ دیگر علاقوں میں بھی ہمیں بین المذاہب ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ سب ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں۔ آئین پاکستان تمام شہریوں کے برابر حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور ہم عملی طور پر اس حوالے سے کام بھی کر رہے ہیں۔ وفاقی سطح پر اقلیتوں کیلئے قومی کمیشن قائم کیا جا رہا ہے۔ وفاق میں مذہبی امور اور مذہبی ہم آہنگی جبکہ صوبہ پنجاب میں انسانی حقوق اور اقلیتی امور کی وزارت ہے۔ دیگر صوبوں میں بھی وزارتیں اور ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی اقلیتوں کیلئے اسمبلی میں مخصوص نشستیں نہیں ہیں۔ پنجاب میں حکومت کے تینوں درجات میں اقلیتوں کی نمائندگی موجود ہے تاکہ ان کے حقوق کو یقینی بنایا جاسکے۔ میاں محمد نواز شریف کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اکثریت اور اقلیت کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ پاکستان میں بسنے والا ہر شہری برابر کا شہری ہے۔ اسی سوچ کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اسمبلی کے فلور پر کہا کہ مجھے اچھا لگتا ہے جب میں اسمبلی میں مختلف مذاہب کے لباس اور نمائندگی دیکھتی ہوں۔ یہ ملک میں بسنے والے تمام افراد کی نمائندگی اور شمولیت کی بہترین مثال ہے۔ 11 اگست کا دن اس ملک میں ’ڈائیورسٹی اینڈ انکلوژن‘ کا دن ہے کہ یہاں رہنے والے تمام افراد برابر کے شہری ہیںا ور مل جل کر رہتے ہیں۔ یہ کہنا کہ اقلیتوں کو یہاں مسائل نہیں ہیں، درست نہیں۔ کیونکہ اگر مسائل نہ ہوں تو پھر اس وزارت اور ادارے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں چیلنجز کا ادراک ہے جنہیں دور کرنے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ وزیراعلیٰ پنجاب کا وعدہ اور وژن ہے۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے پنجاب اسمبلی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔ ہم نے بابا گورونانک دیو جی کے جنم دن کی سرکاری چھٹی منظور کروائی۔ پنجاب اسمبلی نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سکھ میرج ایکٹ منظور کیا۔یہ بل 2018ء میں پاس ہوا،بعدازاں تحریک انصاف کی حکومت آگی اور پھر 2023ء تک اس کے رولز نہیں بن سکے۔اب ہم نے سکھ میرج ایکٹ اور ہندو میرج ایکٹ دونوں کے رولز بنا دیے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد اور پہلا ملک ہے جہاں سکھ میرج ایکٹ کے رولز بنے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے سوشل سیفٹی نیٹ کا ایک بڑا پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت ایسے 50 ہزار اقلیتی خاندان جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،ا نہیں مینارٹی کارڈ جاری کر دیے گئے ہیں۔ یہ تعداد بڑھا کر 75 ہزار کر دی گئی ہے، اسے 1 لاکھ کیا جائے گا۔ میرے نزدیک پاکستان میں انسانی حقوق اور تصادم کے واقعات کی بڑی وجہ غربت ہے۔ جہاں بھی تصادم کا واقعہ ہوا وہاں غربت زیادہ اور وسائل کی کمی ہے لہٰذا لوگوں کی معاشی حالت بہتر کرنا انتہائی اہم ہے۔اس منصوبے کا آغاز بھی اسی لیے ہی کیا گیا ہے۔ ایسے اقلیتی خاندان جو خط غربت کے قریب ہیں اور انہیں تھوڑی سی سپورٹ مل جائے تو حالت بدل سکتی ہے ، ان کیلئے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ ہم ایسے 10 ہزار خاندانوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں جنہیں وسائل فراہم کیے جائیں گے اور مختلف اداروں کی مدد سے ہنر مند بنایا جائے گاتاکہ وہ اپنا روزگار خود کام سکیں۔ ہم انٹرپرینیورشپ کو فروغ دے رہے ہیں، یہ انٹرپرینیورز ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا کریں گے۔ پاکستان میں مذہبی سیاحت کے بہت مواقع موجود ہیں۔ ہم اس پر توجہ دے رہے ہیں۔ سکھ ازم کی بنیاد پاکستان سے ہے۔ بابا گورونانک کی جائے پیدائش یہاں ہے۔ ہم دنیا بھر سے سکھوں کو پاکستان آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اسی طرح ہندوؤں کے بہت سارے استھان یہاں ہیں۔ مسیحیوں کیلئے بھی یہ ملک اہم ہے۔ ہم نے گزشتہ برس سے اب تک 56 چرچز ، 20 گوردواروں اور 6 مندروں کو بحال کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جہاں مسیحی، ہندو یا سکھ آبادی زیادہ ہے، ان علاقوں کو جدید طرز پر بنایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے وژن کے تحت پہلی مرتبہ 1200 اقلیتی بچوں کو ڈیجیٹل سکلز سکھائی جا رہی ہیں، انہیں ای لرننگ کے ذریعے جدید تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ عالمی مارکیٹ سے لنک بھی کیا جا رہا ہے۔ ہم اقلیتی بچوں کو ڈیجیٹل سکلزسکھا کر اس مقام پر لانا چاہتے ہیں کہ وہ نہ صرف خود کیلئے کمائیں بلکہ اپنے علاقے کے لوگوں اور ملک پاکستان کی خدمت بھی کریں۔ خلیل طاہر سندھوکے دور میں اقلیتوں کے ملازمت کے کوٹہ پر اقلیتی نوجوان پولیس و دیگر محکموں میں شامل ہوئے۔ پنجاب نے تاریخ میں پہلی مرتبہ 15 اقلیتی بچوں کو سول سروسز اکیڈمی بھیجا، امید ہے یہ بچے کامیاب ہوکر اہم عہدوں پر آئیں گے۔ 22 اپریل کے پہلگام واقعہ پر پاکستان نے بھارت کو تحقیقات کیلئے تعاون کی آفر دی لیکن اس کی سوچ اور عمل میں مکاری تھی۔ 20 اپریل کو پہلی مرتبہ 5 ہزار 800 سکھ یاتری پاکستان آئے جب وہ واپس گئے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ ہمارے اقلیت دوست ہونے کا پیغام ہے۔ بھارت نے کبھی ننکانہ صاحب اور کبھی امرتسر پر میزائل برسائے کیونکہ سکھوں نے کہا تھا کہ ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم ہمیشہ امن و محبت کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان بھارت مخالف بات نہیں کرتا بلکہ مودی کی نفرت اور انتہا پسندی کی سوچ پر تنقیدکرتا ہے۔مودی نے بھارت کا سیکولر چہرہ مسخ کر دیا۔ پاکستان کے آپریشن بنیان مرسوس اور معرکہ حق سے بھارت کی انہتاپسندانہ سوچ کو شکست ہوئی۔ ہم فیلڈ مارشل جنرل سید حافظ عاصم منیر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور دنیا پر یہ واضح کیا کہ ہم امن کی بات کرتے ہیں لیکن اگر پاکستان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھے گا تو اس کی آنکھ سلامت نہیں رہے گی۔ ابھی ہم نے صرف دفاع کیا ہے، بھارت کو جواب نہیں دیا، دوبارہ اگر کسی نے ہمت کی تو اس سے بہتر جواب دیا جائے گا۔ بھارت میں سکھوں ، مسیحیوں، مسلمانوں اور دلت کے ساتھ نارروا سلوک ہو رہا ہے ، یہ بھارت کی ریاستی پالیسی ہے جبکہ پاکستان اقلیتوں کے حقوق و تحفظ اور برابری کی بات کرتا ہے۔ پاکستان کی تمام اقلیتوں کو11اگست اور 14 اگست دونوں مبارک۔ ہم نے اقلیتوں کا قومی دن بھی منانا ہے اور یوم آزادی بھی۔ دعا ہے آنے والا ہر دن خوشیوں والا ہو۔ ہم نے مل کر اس ملک کو خوددار اور خودمختار بنانا ہے۔ مولانا سید محمد عبد الخبیر آزاد (چیئرمین رویت ہلال کمیٹی و امام بادشاہی مسجد لاہور) اقلیتوں کے قومی دن پر دنیا کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ پاکستان سب کا ہے اور سب یہاں متحد اور آزاد ہیں۔ سب ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں میں شریک ہوتے ہیں اور مل کر خوشیاں بھی مناتے ہیں۔ یہ یکجہتی کی ایک عظیم مثال ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کے مطابق اسلامی ریاست میں بسنے والی اقلیتوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے بھی اسی بات کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے کہ پنجاب میں ایک سکھ وزیر ہے ۔ اسی طرح وفاق و تمام صوبوں میں اقلیتوں کی نمائندگی موجود ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں یکجہتی باتوں کی حد تک نہیں ہے بلکہ عملی طور پر موجود ہے۔ یہاں جب کبھی مشکل صورتحال پیدا ہوئی سب نے مل جل کر کردار ادا کیا۔ جڑانوالہ ، جوزف کالونی، یوحنا آباد اور گوجرہ واقعہ میں حکومت، ریاستی اداروں، تمام مذاہب کے رہنما اورسول سوسائٹی سمیت سب نے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا ۔ اگست کے مہینے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پاکستان کی صورت میں نعمت عطاء کی۔اس مرتبہ یوم آزادی کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ہم نے اپنے ازلی دشمن بھارت سے معرکہ حق میں فتح حاصل کی ہے۔ پاکستان لاکھوں انسانوں کی قربانیوں سے وجود میں آیا۔ قائد اعظم ؒ نے یہ ملک بنا دیا، ہم نے اسے بچانا ہے۔ ہمارے دشمن بھارت نے پہلگام کے ڈرامے سے ہم پر الزام لگایا، ہم پر میزائل داغے اور ہماری مساجد پر حملہ کیا۔اس کے برعکس ہم نے ہمیشہ احترام انسانیت کیا۔ قرآن کریم میں ہے کہ ہم نے آدمؑ کی اولاد کو عزت عطاء کی۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ بھارت کی عبادت گاہوں یا عام شہریوں کو نشانہ بنایا جائے بلکہ ہمارے جوابی میزائل اس کی چھاؤنیوں میں گئے۔ افواج پاکستان نے اس جگہ پر میزائل داغے جہاں سے ہمارے بچوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ نریندر مودی بھارت میںا قلیتوں پر مظالم ڈھا رہا ہے، وہاں مسلمان، مسیحی، سیکھ سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں۔ نریندر مودی اور اس کے قریبی افراد کا رویہ متشددانہ اور انتہا پسندانہ ہے۔ بھارت نے سکھ برادری کے رہنما کو کنیڈا میں قتل کیا۔ کینیڈا کی حکومت نے خود کہا کہ یہ قتل بھارت نے کرایا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ بھارت کا ایسا سلوک قابل مذمت ہے۔ہم ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے فروغ کیلئے کام کر رہے ہیں۔ دشمن قوتیں اور چند چھوٹے گروہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں امن ہو لیکن پاکستان کی 99 فیصد عوام امن چاہتے ہیں۔ اس کیلئے ممبر و محراب اور تمام عبادت گاہوں سے امن کا پیغام دیا جا رہا ہے ۔ دین اسلام امن کا درس دیتا ہے بلکہ تمام مذاہب کی تعلیم امن ہے۔ انجیل مقدس میں ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کرواتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ امن کے شہزادے ہیں۔ ہمارے نبی ﷺ کی تعلیمات میں بھی انسانیت اور امن ہے۔ آج کے دن پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے پیروکاردنیا کو یہ واضح پیغام دیتے ہیں کہ ہم پاکستان کی امن و سلامتی اور بقاء کیلئے متحد ہیں اور سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ پاکستان کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ کو نکال پھینکیں گے۔ ہم اپنی حکومت، افواج پاکستان اور فیلڈ مارشل جنرل حافظ سید عاصم منیر کے ساتھ کھڑے ہیں اور مل کر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔ پاکستان نے عالمی سطح پر فلسطین کے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ پوپ ویٹیکن سٹی اور فرانس سمیت مختلف ممالک نے غزہ کے مسلمانوں کے حق میں بات کی ہے۔ سعودی عرب نے بھی واضح کیا ہے کہ جب تک فلسطین کو آزاد ریاست نہیں بنایا جاتا تب تک اسرائیل کی کوئی بات نہیں سنی جائے گی۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھی شدید اذیت سے گزر رہے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیں عالمی سطح پر فلسطین اور کشمیر کے مظلوموں کیلئے مضبوط آواز اٹھانی چاہیے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ وطن سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ پیغام پاکستان نے دہشت گردی، فرقہ واریت اور انتہاء پسندی کو حرام قرار دیا ہے۔ اسے ہر گھر تک پہنچا رہے ہیں۔ عاشورہ محرم کے دوران سب نے مل کر امن و امان کی صورتحال یقینی بنانے کیلئے بہترین کردار ادا کیا۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنائے۔ آمین! شاہد رحمت (سی ای او ،یوتھ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن) یہ مصنوعی ذہانت کا دور ہے۔ ہم اسے امن قائم کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت ہمیں ہاٹ سپاٹ ایریاز اور متنازعہ علاقوں کی تلاش میں مدد کرتی ہے۔ اس سے ڈیٹا کے تجزیہ سمیت مختلف ٹرینڈز کا بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ نفرت انگیز مواد کہاں سے اپلوڈ ہو رہا ہے، اس کے لیے کون سے ٹولز یا پلیٹ فارمز استعمال ہو رہے ہیں اور کس طرح کا مواد شیئر کیا جا رہا ہے، یہ سب مصنوعی ذہانت سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ ہم اسے ’ارلی وارنگ سسٹم‘ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ہم مصنوعی ذہانت کو اقلیتوں کی شمولیت، مذہبی آزادی اور یوتھ امپاورنمنٹ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بعض جگہ اقلیتوں کے ساتھ ایسا سلوک ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہیے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ جو اچھے کام ہو رہے ہیں، ان کی تعریف بھی کرتے ہیں ۔ اچھے اقدامات کو ہائی لائٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم آئندہ تین برسوں میں 300 اقلیتی خواتین کو ہنرمند بنائیں گے اور انہیں کاروبار کیلئے ایک لاکھ سے تین لاکھ تک کی گرانٹ بھی دیں گے۔ محکمہ انسانی حقوق اس میں ہماری سرپرستی کر رہا ہے اور ہمیں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا تعاون بھی حاصل ہے۔ ہم نے اقلیتوں کیلئے پنجاب اسمبلی کے تعاون سے انٹرن شپ پروگرام کا آغاز بھی کیا ہے۔ اس کے تحت اقلیتی نوجوان پنجاب اسمبلی میں انٹرن شپ کریں گے اور یہ سیکھیں گے کہ اسمبلی کیسے کام کرتی ہے، یہ انٹرن شپ مستقبل میں ان کی سیاسی نظام میں شمولیت میں معاون ثابت ہوگی۔    n

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل