Loading
بھارتی فضائیہ کے سربراہ اے پی سنگھ نے بھارت کے لیے عالمی ہزیمت کا سبب بننے والی 4 روزہ جنگ میں پاکستان کے 5 لڑاکا طیاروں سمیت 6 طیارے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ انھوں نے بغیر کسی ثبوت کے یہ دعوے کر کے بھارتی ایئر فورس کی پیشہ ورانہ اہلیت پر مزید سوالات کھڑے کر دیے۔ پاکستان نے بھارت کو چیلنج کیا کہ دونوں ممالک اپنے طیاروں کی فہرستیں آزاد ماہرین کے سامنے پیش کریں تاکہ حقیقت دنیا پر آشکار ہو لیکن خدشہ ہے بھارت ایسا کرنے سے کترائے گا۔ پاکستان کے خلاف بھی بھارت کا رویہ ہمیشہ الزام تراشی اور جارحیت پر مبنی رہا ہے۔ ہر داخلی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا بھارتی حکومت کی پرانی عادت بن چکی ہے۔ چاہے پلوامہ کا واقعہ ہو، سرحدی کشیدگی یا کسی دہشت گرد حملے کی ذمے داری، بغیر ثبوت پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا دینا بھارت کی ایک منصوبہ بند حکمتِ عملی ہے، لیکن عالمی برادری اب ان حربوں سے واقف ہو چکی ہے۔ وہ سوال اٹھا رہی ہے، ثبوت مانگ رہی ہے اور بھارت کو آئینہ دکھا رہی ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں وقت کی گردش اور حالات کی کروٹ بعض اوقات بڑے بڑے دعویداروں کو زمین پر لے آتی ہے۔ یہی کچھ آج بھارت کے ساتھ ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایک ایسا ملک جو خود کو خطے کی بڑی طاقت کے طور پر پیش کرنے میں مصروف رہا، جو دنیا کو یہ باور کراتا رہا کہ وہ معاشی، عسکری اور سفارتی لحاظ سے ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے، وہی بھارت آج اپنے جھوٹے بیانیے کے بوجھ تلے دب کر عالمی تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تنہائی محض کسی ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ خارجہ پالیسی، علاقائی تعلقات، داخلی سیاست، انسانی حقوق، معاشی ترقی اور سفارتی وقار ہر میدان میں دکھائی دے رہی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو روسی تیل کی خریداری کا حوالہ دیتے ہوئے 50 فیصد کا بھاری ٹیرف لگا دیا اور بھارتی معیشت کو مردہ قرار دیا ہے، اس کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سال کے اوائل میں پاک، بھارت تنازع حل کرنے کی کوشش کے دوران پاکستانی قیادت کو برابری کی حیثیت دے کر بھارتیوں کو اور برہم کر دیا۔ اس سب نے بھارت کو ایک ایسی صورتحال میں ڈال دیا، جہاں اسے اپنی طاقت کی حدوں پر غور کرنا پڑرہا ہے، مودی نے اس ہفتے اعتراف کیا کہ تجارتی تنازع پر انھیں ذاتی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ مودی سرکار کی بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتر کرنے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے اور مودی گزشتہ 7 برسوں میں پہلی بار رواں ماہ کے آخر میں چین کا دورہ کرنے والے ہیں، مگر تعلقات اب بھی سرحدی جھڑپ اور چین کی جانب سے حالیہ دنوں میں پاکستان کی عسکری کشیدگی میں حمایت کی وجہ سے کشیدہ ہیں۔ چین، اپنی طرف سے نئی دہلی کی ان کوششوں پر محتاط ہے جو وہ چین کا متبادل مینوفیکچرنگ حب بنانے کے لیے کر رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے روس کے صدر ولادیمیر پیوتن سے بھی گفتگو کی اور کہا کہ فریقین نے بھارت، روس خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹرٹیجک شراکت داری کو مزید گہرا کرنے کا عزم کیا ہے۔ روس کی ایک مستحکم شراکت دار کے طور پر حیثیت کو بھارت میں حکام بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں، مودی نے ایکس پر اپنے رابطے کے بعد کہا کہ میں اس سال کے آخر میں روسی صدر پیوتن کی بھارت میں میزبانی کرنے کا منتظر ہوں، مگر اس دوڑ دھوپ اور ضد سے ہٹ کر بھارت کی یہ خواہش کہ وہ ایک معاشی اور سفارتی طاقت کے طور پر اپنے عروج کو مستحکم کرے، اچانک غیر یقینی صورتحال سے ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ بھارتی حکام اور ماہرین میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ملک کو اپنی طویل آزمودہ اسٹرٹیجک خود مختاری کی پالیسی پر واپس جانا ہوگا۔ ٹرمپ کے سخت اقدامات نے انتہائی اہم شراکت داری کی اسٹرٹیجک منطق کو تہ و بالا کر دیا ہے، جو 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے میں بڑی محنت سے پروان چڑھائی گئی تھی، نئی دہلی کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی عملی اسٹرٹیجک ایڈجسٹمنٹس کرنا ہوں گی۔ درحقیقت، یہ تعلقات اس سے پہلے ہی بگڑنا شروع ہوگئے تھے، جب ٹرمپ نے روسی تیل پر توجہ مرکوز کی، حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق تعلقات کی خرابی کا تعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ذاتی ناراضگی سے ہے۔ مودی سرکار کو اپنی کرپشن بچانے کی قیمت قومی وقار ، عالمی پوزیشن اور سفارتی تنہائی کی صورت میں چکانا پڑ رہی ہے، عالمی برادری میں مودی کی بے بسی، اڈانی سے جڑے مالیاتی مفادات کا نتیجہ ہے۔کشمیر کے مسئلے کو بنیاد بنا کر بھارت نے عالمی سطح پر ایک جھوٹا بیانیہ مرتب کیا ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، وہاں تمام تر حالات معمول کے مطابق ہیں اور پاکستان وہاں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ یہ بیانیہ اتنی بار دہرایا گیا کہ بھارت خود اس پر یقین کرنے لگا، لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بدترین انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، اقوامِ متحدہ کی رپورٹیں، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے بیانات اور عالمی ذرایع ابلاغ کی خبریں اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہیں کہ بھارت کا دعویٰ ایک فریب سے زیادہ کچھ نہیں۔بھارت کی خارجہ پالیسی، جو کبھی نہرو کے زمانے میں غیر جانبداری، پرامن بقائے باہمی اور عالمی امن کے اصولوں پر استوار تھی، آج صرف مفاد پرستی، تکبر، اور علاقائی بالادستی پر مرکوز نظر آتی ہے۔ بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ جیسے قریبی ہمسایہ ممالک بھارت کے رویے سے ناخوش ہیں۔ چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی، پاکستان کے ساتھ مسلسل دشمنی اور افغانستان کے حوالے سے واضح حکمتِ عملی کا فقدان بھارت کی علاقائی حیثیت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ سری لنکا، نیپال، اور مالدیپ جیسے ممالک، جو ماضی میں بھارت کے قریب تھے، آج چینی سرمایہ کاری اور تعاون کے سبب نئی صف بندی کی طرف جا رہے ہیں۔ ایسے میں بھارت کی سفارتی تنہائی روز بروز گہری ہوتی جا رہی ہے۔روس اور یوکرین کے تنازعے میں بھارت کا رویہ بھی عالمی سطح پر مشکوک نگاہوں سے دیکھا گیا۔ ایک طرف وہ امریکا اور یورپی ممالک کے ساتھ معاشی تعاون اور تجارتی تعلقات کا خواہاں ہے، دوسری طرف روس سے سستا تیل خرید کر مغرب کے اقتصادی مفادات کو چوٹ پہنچا رہا ہے۔ اس دوغلے رویے نے بھارت کو مغرب کی نظر میں غیر معتبر بنا دیا ہے۔ اندرونی طور پر بھی بھارت کی جمہوریت، جسے کبھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا تھا، آج انتہا پسندی، اقلیت دشمنی، مذہبی منافرت اور اظہارِ رائے پر پابندیوں کی زد میں ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک، متنازعہ شہریت قوانین، اور کشمیر میں لاک ڈاؤن جیسے اقدامات نے بھارت کے جمہوری چہرے پر بدنما دھبے لگا دیے ہیں۔ عالمی ادارے اور میڈیا ان مظالم کی نشاندہی کر چکے ہیں، مگر بھارت اپنے بیانیے کی پٹیاں آنکھوں پر باندھے ان حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔مودی حکومت نے میڈیا کو اپنی گرفت میں لے کر ایک ایسا منظر نامہ پیش کیا ہے جو زمینی حقائق سے بالکل مختلف ہے۔ معاشی ترقی کے بلند و بانگ دعوے، دفاعی طاقت کے خوش نما اعداد و شمار اور سفارتی کامیابیوں کے مبالغہ آمیز بیانات صرف اندرونی سیاست کو سہارا دینے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی معیشت کو مہنگائی، بے روزگاری، اندرونی بدامنی اور بین الاقوامی اعتماد کے بحران کا سامنا ہے۔ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی، یورپی پارلیمنٹ اور امریکی سینیٹ کے چند ارکان نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ وہ اشارے ہیں جنھیں بھارت جتنا بھی دبائے، مگر عالمی سطح پر ان کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت اپنی پالیسیوں اور بیانیے پر ازسرِ نو غور کرے، ورنہ عالمی تنہائی کی دلدل میں مزید دھنستا چلا جائے گا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت کا موجودہ حکمران طبقہ، خاص طور پر بی جے پی اور نریندر مودی کی قیادت میں، ایک ایسا نظریاتی ایجنڈا لے کر چل رہا ہے جو ’’ہندو توا‘‘ پر مبنی ہے۔ یہ ایجنڈا نہ صرف بھارت کے سیکولر آئین سے متصادم ہے بلکہ اس نے ملک کو داخلی طور پر تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ جب قوم کے اندر خود انتشار، خوف، عدم برداشت اور محرومی ہو، تو بیرونی دنیا بھی ایسے ملک کو قابلِ اعتماد شراکت دار نہیں سمجھتی۔ اگر بھارت چاہتا ہے کہ اسے عالمی سطح پر وقار، احترام اور اثر و رسوخ حاصل ہو، تو اسے سچ کا دامن تھامنا ہوگا۔ جھوٹے بیانیے، الزام تراشی، اور میڈیا کے ذریعے مصنوعی سچائیاں گھڑنے سے وقتی فائدہ تو ہو سکتا ہے، مگر دیرپا مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی اقوام سر بلند رہی ہیں۔ جنھوں نے اپنے اندر جھانکنے، اپنی غلطیاں تسلیم کرنے اور خود کو بہتر بنانے کی صلاحیت پیدا کی ہے۔بھارت کا جھوٹا بیانیہ اب دنیا کے لیے نیا نہیں رہا۔ یہ بیانیہ تاش کے پتوں کی طرح بکھرتا جا رہا ہے۔ اور جب کوئی ملک خود کو دنیا سے کاٹ لے، سچائی سے دور کر لے، اور اپنی برتری کے خمار میں دوسروں کو کمتر سمجھے، تو وہ خود تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی بھارت کے ساتھ ہو رہا ہے، اور اگر اسے خود کو عالمی برادری میں باوقار مقام دلوانا ہے، تو اسے جھوٹ، غرور اور جبر کے راستے سے ہٹ کر حقیقت، انکساری اور عدل کے راستے پر آنا ہوگا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل