Sunday, August 10, 2025
 

کرکٹرز کو کنٹرول کریں

 



یہ 2005 کی بات ہے، میں پہلی بار آسٹریلیا گیا تھا، ایک دن ایک ریسٹورینٹ میں لنچ کرنے گیا، اتفاق سے وہاں پاکستان کے 2 کرکٹرز بھی آ گئے، ان دنوں کھلاڑیوں اور میڈیا کے درمیان موجودہ دور جیسے فاصلے نہیں تھے اور دوستانہ روابط ہوا کرتے تھے۔  وہ دونوں میری ہی ٹیبل پر آ کر بیٹھ گئے، اس دوران ایک ویٹرس آئی اور آرڈر کے بارے میں کچھ کہا، جب وہ خاتون جانے لگیں تو ان کرکٹرز میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ’’اگر یہ خوبصورت ہوتی تو تم فورا دوستی کر لیتے’‘ یہ سن کر وہ ویٹرس واپس آئیں اور آہستہ سے سرگوشی کی کہ ’’ میرا تعلق بنگلہ دیش سے ہے اور میں اردو سمجھتی ہوں‘‘ اس پر وہ کرکٹر شرم سے پانی پانی ہو گیا اور ساتھی پر غصہ کرنے لگا کہ میرے حوالے سے ایسی بات کیوں کہی۔ مجھے یہ سن کر اچھا لگا کہ اس کھلاڑی کے دل میں خواتین کا کتنا احترام ہے، چند روز بعد وہی کرکٹر آسٹریلیا میں ہی ریپ کیس میں پھنس گیا اور بڑی مشکل سے اس نے اپنی ’’خاتون دوست‘‘ سے پیچھا چھڑایا،اس وقت مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ تو اتنا شریف لگتا ہے ایسے کام میں کیسے پڑ گیا، اس پر کسی نے کہا تھا کہ ’’کسی کے چہرے کی معصومیت پر نہ جایا کرو‘‘۔  دراصل ہمارے ملک میں بیشتر کرکٹرز غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ایکدم سے بزنس کلاس میں سفر، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام، ڈالرز میں معاوضے اور شائقین کی توجہ ملنے سے بگڑنے کا چانس زیادہ ہوتا ہے، چند سال پہلے جب زیادہ روک ٹوک نہیں ہوا کرتی تھی تو کھلاڑیوں کے کمروں میں ’’’مخصوص خواتین‘‘ کا آنا جانا معمول کی بات تھی۔  بعض اسکینڈلز سے بچنے کیلیے ایک ہی ہوٹل میں دوسرا کمرا تک بک کرا لیتے تھے، اس رنگین مزاجی کا جواریوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا، کئی کرکٹرز ’’ہنی ٹریپ‘‘ کا بھی شکار ہوئے اور ویڈیوز بنا کر انھیں بلیک میل کیا گیا۔  آپ کو شرجیل خان یاد ہوں گے، فکسنگ کیس میں الجھنے سے کچھ عرصے قبل ان کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے اپنی کچھ ویڈیوز اور بلیک میل کیے جانے کا ذکر کیا تھا، نجانے ایسے اور کتنے قصے ہوں گے جو سامنے نہیں آئے۔  البتہ ہمیں محمد رضوان اور بابر اعظم کو کریڈٹ دینا ہوگا، ان کے دور میں ٹیم کا اس حوالے سے ماحول بہتر رہا، پی سی بی نے بھی سختی کر دی تھی، جب سے سوشل میڈیا آیا کھلاڑی خود محتاط ہو گئے لیکن پھر ویڈیو چیٹس اور ڈائریکٹ میسجز سامنے آنے لگے، البتہ ان میں خطرہ کم تھا۔ کرکٹ بورڈ ان دنوں جونیئر ٹورز کا بہت کریڈٹ لے رہا ہے، حال ہی میں شاہینز ٹیم انگلینڈ گئی جہاں دوسرے درجے کے حریفوں سے مقابلہ ہوا، انگلینڈ لائنز سے کوئی میچ نہیں رکھا گیا، ان میں فتح پر خوب شور بھی مچایا گیا لیکن ابھی اس کی گونج ختم ہی نہیں ہوئی تھی کہ حیدر علی کی گرفتاری کا اسکینڈل سامنے آ گیا، اس سے بڑی شرمناک بات کیا ہوگی کہ کسی کرکٹر کو گراؤنڈ سے ہی گرفتار کیا جائے۔  کرکٹ بورڈ کی پرانی عادت ہے کہ خبروں کو چھپایا جائے لیکن اگر کسی صحافی کو پتا چل جائے اور وہ تصدیق کے لیے رابطہ کرے تو فوری طور پر پریس ریلیز جاری کر دیتے ہیں، یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہو گا، حیدر کو ضمانت پر رہائی مل چکی لیکن وہ برطانیہ چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔  اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ پی سی بی نے کیوں اس ٹور میں کسی منیجر کو نہیں بھیجا، آفیشل پریس ریلیز میں تو کسی کا ذکر نہیں تھا، کھلاڑی بچے نہیں ہیں لیکن ان کی رہنمائی تو کرنی چاہیے کہ ٹورز میں آپ ملک کے سفیر ہیں محتاط رہنا، ایسا کچھ نہیں ہوا، وہاں کوئی ڈسپلن نہیں تھا جس کی جو مرضی وہی کرتا رہا۔  پاکستانی کرکٹرز انگلینڈ اور آسٹریلیا وغیرہ میں خواتین سے خوب دوستیاں کرتے ہیں، بیشتر کا مقصد مستقبل کو محفوظ بنانے کیلیے شادی کرکے غیرملکی پاسپورٹ کا حصول ہوتا ہے، یہ فارمولہ کئی کھلاڑی کامیابی سے استعمال کر چکے، البتہ صرف وقت گذاری کرنے والے ’’شادی کا وعدہ‘‘ پورا نہ کرنے پر مشکل میں پھنس جاتے ہیں،شاید حیدر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا۔ کبھی کبھار ’’ریٹ‘‘ پر بھی اختلاف ہو جاتا ہے، اب پس منظر میں رہ کر بڑی شخصیات معاملہ سیٹ کرنے کیلیے کوشش کر رہی ہوں گی، اگر کامیابی نہ ملی تو حیدر بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے جائیں گے، ان کے حوالے سے ماضی میں بھی کئی قصے سامنے آ چکے تھے۔  بہرحال جو بھی نتیجہ سامنے آئے ملک کی بڑی بدنامی ہو گئی ہے، ساری دنیا میں یہ خبریں چلیں کہ ’’پاکستانی کرکٹر انگلینڈ میں ریپ کیس میں گرفتار‘‘۔ اب مستقبل کیلیے پی سی بی کو سخت ترین پالیسی اپنانی چاہیے، جس طرح قومی ٹیم کے ساتھ سخت گیر منیجر نوید اکرم چیمہ کی صورت میں موجود ہیں ویسے ہی جونیئر اسکواڈز کے ساتھ بھی کسی تگڑے منیجر کا تقرر ہونا چاہیے جو کھلاڑیوں پر گہری نظر رکھے اور ڈسپلن کی خلاف ورزی پر واپس بھیج دے۔  اسی طرح کرکٹرز کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایک غلطی نہ صرف ان کا کیریئر تباہ کر سکتی ہے بلکہ والدین، بہن ، بھائی سب سے سر اٹھا کر جینے کا حق چھین لیتی ہے، اپنا نہیں تو گھر والوں کا ہی سوچ لیا کریں، آج کل کے دور میں مداحوں کے روپ میں بکیز کی آلہ کار خواتین بھی آس پاس گھومتی رہتی ہیں۔  سوشل میڈیا پر بھی غلط شناخت کے ساتھ دوستی کی کوشش ہوتی ہے، پھر کوئی پھنس جائے تو اسے بلیک میل کیا جاتا ہے، کیا یہ اچھا نہیں کہ ان چکروں میں پڑا ہی نہ جائے، نوجوان کرکٹرز کو چاہیے کہ وہ حیدر علی سے سبق سیکھیں،ملک سے باہر جا کر اپنی کرکٹ کھیلیں اور گروپس کی صورت میں ٹیم آفیشل کی اجازت سے گھومیں پھریں، بلانے پر کسی کے گھر اکیلے نہ جائیں، اسی طرح بورڈ کو بھی سخت اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ آئندہ جگ ہنسائی نہ ہو، ورنہ ایسے مزید واقعات کیلیے تیار رہیں۔ (نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل