Loading
پاکستان ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے، اس کا احساس سنجیدہ افراد اور اہل دانش کی سطح پر پایا جاتا ہے،اگرچہ کچھ لوگ ملک کی ایک ایسی تصویر پیش کرتے ہیں جو حقایق سے زیادہ جذباتیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس وقت ملک کو جن اہم مسائل کا سامنا ہے، ان میں معیشت ، سیکیورٹی، دہشت گردی ، گورننس ، عوامی مفادات کی عدم ترجیحات ،احتساب اور عدم شفافیت جیسے امور شامل ہیں۔ حکمرانو اور عوام یا اہل دانش کی سطح پر موجود بیانیہ میں بہت زیادہ فرق ہے۔ حکمرانو اور عوام کے درمیان میں خلیج بڑھ رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔لیکن ایک وجہ تمام طاقتور فریق اپنے اپنے آئینی اور قانونی دائرہ کار میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں اور سب کا طرز عمل ایک دوسرے کی مخالفت پر استوار ہے۔ یہ عمل سیاسی ، انتظامی ،قانونی ، آئینی اداروں کے درمیان جہاں عدم اعتماد کو پید ا کرتا ہے وہیں ایک دوسرے میں ٹکراو کو بھی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہ جو ہم نے سیاسی بندوبست کا نظام قائم کیا ہوا ہے وہ حکمرانی کی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے اس میں زیادہ مشکلات کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔غیر جمہوری ، غیر آئینی ، غیر قانونی اور ہائبرڈ یا ہائبرڈ پلس کے نام پر جو نظام کئی برسوں سے چلایا جا رہا ہے، وہ بھی ایک مضبوط جمہوری حکومت کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ حق حکمرانی عوام کا ہے یا یہ حکمرانی عوام کے مقابلے میں اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے، اس کا تجزیہ کرناچاہیے اور اس کے نتیجہ میں جو نظام پر عدم اعتماد بڑھ رہا ہے، اس سے جمہوری کی لیوا لیڈرشپ کو یقیناً سبق حاصل کرنا چاہیے۔ وہ انتظامی ادارے جو آئین اور قانون کے پابند ہیں جب وہ من مانی اس وقت ہی کرتے ہیں جب سیاسی قیادت کا جمہوریت سے رشتہ محض دکھاوے کا ہوتا ہے اور وہ ہر وقت اسٹیلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہے۔ ہم آج کے اس دور میںجہاںجدیدیت کا نظام دنیا میں رائج ہے، اس سے ہم کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ روائتی طرز حکمرانی، موقع پرست سیاسی قیادت، معاشی ،قانونی اور انتظامی روائتی ادارہ جاتی نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی سیاسی ضد نے ہمیں دنیا کی ترقی سے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔جب ہم اس ملک میں اختیارات حاصل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملانے کے لیے تیار رہیں گے، مشکل وقت آئے تو سیاسی فریقین سے مذاکرات کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کا برملا اعلان کریں گے تو آپ کو جمہوری قوت کون تسلیم کرے گا۔جو بڑی طاقتیں سیاسی اور انتظامی نظام میں فرنٹ فٹ پر کھیلنے کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنا چکی یا چاہتی ہیںکہ براہ راست کنٹرول ان ہی کا ہو تو پھر سیاست اور جمہوریت کا ہمارا مقدمہ دنیا کی سیاست میں اور کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا میں اسٹیبلیشمنٹ کی موجودگی ایک سیاسی طور پر حقیقت ہے اور اس کو حکمرانی کے نظام میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔لیکن اہم سوال یہ ہے کہ یہ کردار فرنٹ فٹ پر کھیلا جائے گا یا اس کا کوئی دائرہ کار آئین اور قانون کی حکمرانی کو بنیاد بنا کر اختیار کیا جائے گا۔ کیونکہ جب اسٹیبلیشمنٹ براہ راست قومی فیصلوں کا حصہ بنے گی تو اس کے نتیجے میں اس کی ذمے داری لینے پر ان پر تنقید بھی ہوگی اور خرابی کی صورت میں یہ تنقید اور زیادہ شدت اختیار کرجائے گی۔عدلیہ ہی کے محاذ کو دیکھ لیں یا سیاسی اداروں یعنی پارلیمنٹ کو دیکھیں تو ان کی خود مختاری کے بغیر یہ ادارے اپنی شفافیت برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ اسی طرح اگر اہل دانش سیاسی قیادت کے قول و فعل کا تنقیدی جائزہ نہیں لے گی ، تو پھر سیاسی قیادت کھل کر کہے گی کہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے اور مخالف سیاسی قیادت کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔اس قسم کی سیاست قیادت کے ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو روکنا ناممکن ہے۔جس طرح سے ہمارے درمیان باہمی ٹکراو کا ماحول ہے اس سے مسائل بڑھ رہے ہیںبلکہ سیاسی تقسیم گہری ہورہی ہے ۔ اس وقت ہم جمہوری سیاسی قیادت کے بحران سے دوچار ہیں اور اس بحران کا علاج سیاسی تنہائی میں تلاش کرنا ممکن نہیں۔غلطی کسی ایک فریق کی نہیں اور ہمیں اس روش سے بھی باہر نکلنا ہوگا کہ ہم حالات کی ناکامی کسی ایک فرد یا ادارے پر ڈال کر خود کو یا دوسروں کو بچانے کی کوشش کریں ۔یہ جو کچھ اس وقت ملک میں ہورہا ہے یہ ہماری اجتماعی ناکامی سے جڑا ہوا مسئلہ ہے اور کسی فریق نے اس ناکامی میں زیادہ اور کسی نے کم حصہ ڈالا ہے۔ یہ نہیں کہ ہمارے پاس مواقع یا نئے امکانات نہیں ہیں ۔حالیہ کچھ مہینوں میں پاکستان کے لیے دنیا کی سیاست میں ایک نرم گوشہ پیدا ہوا ہے اور ہم نے اپنی اہمیت بھی سفارتی اور دفاعی طور پر منوائی ہے ۔لیکن ان نئے امکانات سے فائدہ محض ہم جذباتیت کی بنیاد پر نہیں اٹھاسکیں گے ۔ ہمیں جذباتیت کی سیاست سے باہر نکل کر قومی سطح پر موجود سیاسی تلخ حقایق ، معاشی یا سیکیورٹی کے حالات کی سنگینی کو تسلیم کرکے نئی حکمت عملیوں کو اختیار کرنا ہوگا۔پاکستان کی ریاست اور حکومت کے نظام کو تمام فریقوں کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے وجود سے انکاری یا اس کا خاتمہ یا اس کو کمزور کرناہماری ترجیحات کا حصہ نہیںہونا چاہیے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ اس ریاست اور اس کے نظام کو آئینی اور قانونی بنیاد پر چلایا جائے اور تمام فریق ایک دوسرے کے دائرے کار کو تسلیم کرکے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کی سیاست سے گریز کریں ۔ ایسی حکومت جس میں عام لوگوں کا حصہ نہ ہو یا جس کی بنیاد طبقاتی نظام پر قائم ہواور حکمرانی کا نظام طاقت کی حکمرانی کی بنیاد پر ہی چلایا جارہا ہو وہاں ریاست ہو یا حکومت اپنی اہمیت کھودیتی ہے ۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کیا اشرافیہ واقعی اس نظام کی شفافیت اور درستگی چاہتی ہے اور اگر ایسا ہے تو ایسا کون سا روڈ میپ ہے جو اس سسٹم پر لوگوں کا اعتماد بڑھا سکے۔یہ ملک فرسودہ نظام حکمرانی کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ لوگوںکو سیاست دانوں ، سیاسی جماعتوں اور حکمران جماعتوں سے بہت سی توقعات وابستہ ہوتی ہیں مگر ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت نظام کو تبدیل کرنے یا ان میں اصلاحات پیدا کرنے کے بجائے پہلے سے موجود بگاڑ کے نظام کا حصہ دار بن کر تبدیلی کے عمل کو اور اس کی ترجیحات کو اور زیادہ دورکردیتی ہیں۔ اس لیے سیاسی نظام سمیت سیاسی جماعتوں کی اپنی داخلی اصلاح بھی ہمارے لیے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔سیاست،جمہوریت، آئین، قانون یا سیاسی و معاشی معاملات میں عام آدمی کا حصہ مسلسل کم اور طاقت ور طبقہ کا مسلسل بڑھتا جارہا ہے جو کئی طرح کے خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے۔اس لیے اب بھی سب فریقوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنا اپنا داخلی محاسبہ کریں تاکہ ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے آگے بڑھنے کے لیے ایسا کچھ کریں جو اس ریاست اور حکمرانی کے نظام کو مضبوط بناسکے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل