Loading
تاریخ کیا ہے؟ وہ کل جو بہت گیا اور ہمارا بدل گیا۔ تبدیلی کیسی رہی؟ تاریخ کو اس سے سروکار نہیں لیکن اس کے باوجود تاریخ یہ ضرور بتا دیتی ہے کہ جو کچھ ہوا، وہ کیوں ہوا، کیسے ہوا اور کس نے کیا۔ گویا تاریخ ایک نامہ اعمال ہے جو وہ کسی کا لحاظ کیے بغیر مرتب کرتی رہتی ہے۔ کچھ ایسا کام ہی قدرت نے برادر محترم نواز رضا صاحب سے بھی لیا۔ ان کی کتاب ' مرد آہن: محمد نواز شریف ' ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے تین وقت کے وزیر اعظم جمہوری جدوجہد کے سرخیل میاں محمد نواز شریف کی شخصیت کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ کام بھی اس کتاب نے کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک اور خدمت بھی انجام دی ہے۔ ہماری قومی تاریخ میں 2014 سے اب تک کا زمانہ ایک خاص حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ اس حوالے کا تعلق پاکستان اور جمہوریت کے استحکام سے ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے باہمی تعلقات میں جیسی تلخی بھی رہی ہو لیکن یہ کریڈٹ ان سے کوئی چھین نہیں سکتا کہ ان دو جماعتوں نے میثاق جمہوریت جیسا معاہدہ کر کے قومی اتحاد، سلامتی اور جمہوریت کو سیاست سے بلند کر دیا۔ میثاق جمہوریت سے لے کر 2014 تک ان دونوں جماعتوں کے تعلقات میں بہت اونچ نیچ رہی ہے جن کا ذکر سننے کو اکثر مل جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ان جماعتوں نے اپنے میثاق کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی لیکن 2014 کا سورج طلوع ہونے کے بعد تاریخ بدل گئی۔ اس زمانے میں کچھ ایسا ہوا کہ ریاست اور جمہوریت پر سیاست غالب آگئی۔ اس ' کارنامے ' کو عمران خان سے جائز طور پر منسوب کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے یہ عظیم کارنامہ کیسے انجام دیا اور اس عظیم خدمت میں میں کس کس نے ان کا ہاتھ بٹایا، یہ کل کی باتیں ہیں لیکن گزر جانے والے واقعات کا ایک المیہ وہ ہے جسے ہمارے ایک محاورے میں بیان کیا گیا ہے یعنی آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل لیکن تاریخ کے قرض کو یوں طاق نسیاں پر رکھ دینا موزوں نہیں۔ ان باتوں اور واقعات کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ انھیں یاد رکھنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اس عہد کے خبری ماخذات تک رسائی حاصل کی جائے یعنی ریڈیو ٹیلی ویژن کے پرانے نشریات سنے جائیں یا کسی سیلن زدہ تہہ خانے میں بیٹھ کر ہزاروں اخبارات کی ورق گردانی کی جائے۔ مستقبل کے مؤرخ کو یہ کام کرنا تو اب بھی پڑے گا لیکن نواز رضا صاحب نے اس کام میں بہت کچھ آسانی بھی پیدا کر دی ہے۔ یہ شاید قدرت کا کوئی انتظام ہی رہا ہو گا کہ عین اُس زمانے میں ان کے کام کی نوعیت بدل گئی۔ ایک زمانہ تھا کہ ان کے دن اور رات روزمرہ کی خبریں بناتے اور ان کا در و بست سنوارتے ہوئے گزر جاتے تھے لیکن اِس زمانے میں سیاست کے ساتھ ہماری صحافت پر بھی امتحان آیا۔ یوں حاجی صاحب کو اپنے لگے بندھے روزگار کو خدا حافظ کہنی پڑی۔ اس ابتلا میں جنم جنم کا صحافی کیا کرے؟ حاجی صاحب نے اس عہد کی روداد بہ انداز دگر لکھنی شروع کر دی۔ اس زمانے میں انھوں نے ہفتہ وار کالموں میں ہمارے عہد کا آشوب قلم بند کیا۔ حاجی نواز رضا کی نگاہ میں اس عہد ناپرساں میں اگر کسی پر سب سے بڑی آزمائش آئی تو وہ نواز شریف تھے۔ اس ابتلا میں نواز شریف کے ساتھ کیسا کیسا سلوک کیا گیا اور اس کے جواب میں ان کا طرزِ عمل کیا تھا۔ حکمران کیا ارادے رکھتے تھے اور ہر قسم کی طاقت اور وسائل رکھنے کے باوجود وہ ناکام کیوں ہو گئے۔ ناکامی کو سامنے دیکھ کر ان طرزِ عمل کیا تھا اور جاتے جاتے انھوں نے اس ملک کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ یہ سب ہماری تاریخ کے دل خراش واقعات ہیں جو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو یکجا مل جائیں تو اس سے بڑی بات کوئی ہو نہیں سکتی۔ نواز رضا نے اپنی کتاب میں یہی کام کیا ہے۔ مسلم لیگ ن پرابتلا آئی تو اس مرحلے پر خود اس جماعت کے اندر بھی بغاوت کی ایک صورت دکھائی دی۔ اس بغاوت کی قیادت چودہری نثار نے کی۔ وہی چودھری نثار جو نواز شریف کے دست راست اور برے وقتوں کے ساتھی تھے۔ چودھری نثار نے یہ سب کیوں کیا، ان کے مقاصد اور وجوہات کیا تھیں۔ کوئی بغاوت گھر کے اندر سے پیدا ہو کر انسان کا محاصرہ کر کے تو بڑے بڑوں کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ اس مشکل مرحلے نواز شریف کا انداز فکر کیا تھا اور اس مشکل وقت میں وہ اپنے پرانے ساتھی کے بارے میں کس انداز میں سوچ رہے تھے؟ نواز رضا کی یہ کتاب تاریخ کے اس باب کی تفصیلات بھی بیش کرتی ہے۔ مسلم لیگ ن ہی نہیں قومی سیاست کا ایک اہم سوال بھی یہ ہے کہ میاں نواز شریف کا سیاسی جانشین کون ہو گا؟ یہ سوال نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے سیاسی مستقبل سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اس عہد میں بڑی ہمت اور توانائی کے ساتھ پاکستان کی قیادت کی ہے جب پاکستان کو عراق اور لیبیا جیسی ' جمہوریت ' بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ یہ درست ہے کہ اس زمانے میں نواز شریف اقتدار سے ضرور محروم ہوئے لیکن انھوں نے اپنی سیاسی حکمت سے ملک کو ایک بدترین آمریت کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا۔ اس مرحلے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف کا جانشین نواز شریف کی سیاسی روایت کو برقرار پائے گا یا نہیں؟ یہ درست ہے کہ نواز رضا نے اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا لیکن جب وہ میاں صاحب کے جانشین کی حیثیت سے مریم نواز کا ذکر کرتے ہیں تو ان سوالوں کے جوابات خود بہ خود سامنے آ جاتے ہیں۔ اس پس منظر میں حاجی نواز رضا کی یہ کتاب ایک مستقل اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے اس عہد کو سمجھنے جسے بھی ضرورت ہو گی، اس کتاب کا مطالعہ اس کے لیے ناگزیر ہو گا۔ نواز رضا کی اس اہم کتاب کے ساتھ ہی 'قلم گزشت' کے نام سے جبار مفتی صاحب کی کتاب بھی منصہ شہود پر آئی ہے۔ مفتی صاحب سینئر صحافی اور دانش ور ہیں۔ انھوں نے پاکستان کا وہ دور اور اس کے دور کے لوگ دیکھ رکھے ہیں جب آج کے دور کے نام ور دانش ور ، صحافی اور اینکر اس دنیا میں وارد نہیں ہوئے تھے یا پھرانگوٹھا چوس رہے تھے۔ صحافیوں، خاص طور پر اینکروں کی یہ نسل جب پاکستان اور اس کی تاریخ کے بارے میں حتمی نوعیت کے احکامات جاری کرتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ کاش ان نوجوانوں کو جبار مفتی جیسے بزرگوں کی صحبت میسر آئی ہوتی اور یہ جانتے کہ آج ہمارا ملک جیسا ہے، ویسا کیوں ہے اور اسے اس انجام تک پہنچانے کی خدمت کس کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔ مفتی صاحب نے اپنی یاداشتوں کے عنوان سے پاکستان کی تاریخ ساز شخصیتوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں مولانا مودودی، ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف عمران خان، کوثر نیازی اور یوسف رضا گیلانی بہت سے دیگر لوگ شامل ہیں۔ مفتی صاحب نے اس عہد کے نام ور لوگوں کے تذکرے کے ساتھ اپنی زندگی کے ذاتی واقعات کے علاوہ اپنے عہد کے اہم واقعات کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔ اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو پہلی بار سامنے آئی ہیں ۔ یہ تذکرہ تاریخ کا ماخذ اور اس کے اہم کرداروں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مفتی صاحب نے اختصار سے کام لیا ہے۔وہ ذرا زیادہ تفصیل سے کام لیتے تو ان کا قاری زیادہ مطمئن ہوتا ۔ نواز رضا کی' مرد آہن: نواز شریف' اور جبار مفتی کی ' قلم گزشت'، یہ دونوں کتابیں علامہ عبد الستار عاصم کی قلم فاؤنڈیش نے اپنی روایت کے مطابق بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی ہیں۔ قلم فاؤنڈیشن پاکستانی تاریخ کو ریکارڈ پر لا کر ایک اہم خدمت انجام دے رہی ہے جس پر وہ اور اس کے مدار المہام علامہ عبدالستار عاصم بجا طور پر تعریف کے مستحق ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل