Monday, August 18, 2025
 

کوچۂ سخن

 



غزل سرسری خواب کی تکمیل اٹھا لائے ہیں  دشت والے ہیں مگر نیل اٹھا لائے ہیں  آپ کو آگ بجھانے کے لیے بھیجا تھا  آپ نقصان کی تفصیل اٹھا لائے ہیں  زندگی خانہ بدوشوں کی کوئی حالت تھی  ہم تجھے پھر بھی کئی میل اٹھا لائے ہیں  پھول ہوتے  ہیں امر پیر پکڑ کر اس کے لوگ کس چیز کی تمثیل اٹھا لائے ہیں  میں نے پریوں کو بلانے کے لیے بھیجے تھے کچھ کبوتر تو یہاں جھیل اٹھا لائے ہیں عشق مذہب کی ضمانت نہیں مانگا کرتا آپ تو ہاتھ میں انجیل اٹھا لائے ہیں میں ابھی نیند بنانے میں لگا ہوں ساجد ؔ لوگ تو خواب کی تشکیل اٹھا لائے ہیں  (لطیف ساجد۔ حافظ آباد، پنجاب) ۔۔۔ غزل کیا کہتے ہو، پھر جادوگری ہے کہ نہیں ہے مل آئے ہو اُس سے، وہ پری ہے کہ نہیں ہے؟ وہ بادِ تغافل پہ سوار، آیا چمن میں  اور بولا،’کوئی شاخ ہری ہے کہ نہیں ہے؟‘ جس جا،مری تنہائی ترے غم سے ملی تھی  اب باغ میں وہ بارہ دری ہے کہ نہیں ہے جس درجہ خبر رکھتا ہے دل میرا وہاں کی  اُس درجہ وہاں بے خبری ہے کہ نہیں ہے کیا داد کی لت دھبہ نہیں کارِ ہنر پر اور شکوہ گری، پیشہ وری ہے کہ نہیں ہے؟ دل، جس نے کبھی کچھ بھی نہیں مانگا کسی سے  الزامِ تمنّا سے بَری ہے کہ نہیں ہے خواہش تو سبھی کی ہے، کہیں کا نہ رہوں میں  قسمت میں بھی کچھ دربدری ہے کہ نہیں ہے؟ کیا پوچھتا ہے کیسے مہیّا کیا میں نے تو بول، تری جھولی بھری ہے کہ نہیں ہے (نعمان شفیق ۔سرگودھا) ۔۔۔ غزل شکوے شکایتیں سبھی دل سے نکال کر  مجھ سے بھی گفتگو کبھی اے خوش مقال کر  مرنے کے بعد بھی تری ہوتی رہے گی دید میں چھوڑے جا رہا ہوں یہ آنکھیں نکال کر کر دائمی عطا مجھے غم ہو کہ ہو خوشی  اتنی سی آرزو ہے مجھے لازوال کر بجھنے کو ہے چراغِ غمِ دل ہوائے تند  ڈھلتی ہوئی حیات کا ہی کچھ خیال کر  زلفیں گرا تو چاند سے چہرے پہ اس طرح  دن رات کا ملاپ ہو ایسا کمال کر یونہی نہیں ہوا ہے دھنک رنگ آسمان  آیا ہے دور وہ کہیں آنچل اچھال کر  اک بے وفا کے ہجر میں رونے کو شاہ میرؔ  رکھے ہیں میں نے آنکھ میں آنسو سنبھال کر   (محمد شاہ میر مغل۔ لاہور) ۔۔۔ غزل خود کو اُس آگ میں جانے سے بچاتا رہا میں  پھر بھی جاتا رہا، جاتا رہا، جاتا رہا میں چیختے چیختے آج اُن کے گلے سوکھ گئے  جن رفیقوں کی اک آواز پہ آتا رہا میں تیری جانب کا سفر یوں تھا کہ ہر پاؤں پر  بیٹھ جاتا رہا دل اور اٹھاتا رہا میں شہر میں چشمے بہا دوں تو بتاؤں گا تمہیں  کس سے ملنے کے لیے غار میں جاتا رہا میں یہ نکھٹو تجھے دیں گے وہ گہر؟ سبحان اللہ  جو سمندر کی تہیں چھان کے لاتا رہا میں (زبیر حمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ) ۔۔۔ غزل آنکھوں سے گفتگو ہوئی، لب دیکھتے رہے کل رات ایک خواب عجب دیکھتے رہے اہلِ جنوں نے سر کو جھکایا، فنا ہوئے اہلِ خرد تو نام و نسب دیکھتے رہے  پھر یوں ہوا کہ اس کی تمنا بھی چھن گئی  ہم خاک زاد بیٹھے یہ سب دیکھتے رہے وہ آیا، اک نگاہ سے سب کاسے بھر گیا اور لوگ اپنی اپنی طلب دیکھتے رہے کچھ لوگ تو صدائیں بھی دھیمی نہ کر سکے کچھ سانس لینے میں بھی ادب دیکھتے رہے حالانکہ گفتگو کی بھی خواہش تو تھی مگر اکرامؔ اس کو جاں بلب دیکھتے رہے (اکرام افضل ۔مٹھیال،اٹک) ۔۔۔ غزل ہوا کے شورسے بچ کر، چمن سے ڈرتے ہوئے میں آگیا ہوں وطن میں وطن سے ڈرتے ہوئے میں لکھ رہا ہوں تجھے لفظ لفظ مدت سے ترے جمال، ترے بانکپن سے ڈرتے ہوئے سفر کی ریت مرے تن بدن سے چپکی ہے میں چل رہا ہوں مگر اس چبھن سے ڈرتے ہوئے یہ زندگی بھی، دغا باز زندگی ہے میاں میں آگیا ہوں کفن تک، کفن سے ڈرتے ہوئے میں چل رہا ہوں ابھی بے چراغ رستوں پر خیال ِیار سے چھپ کر، سخن سے ڈرتے ہوئے (سید فیض الحسن فیضی کاظمی ۔پاکپتن) غزل رُتِ جمیل میں کلیاں نکھار آئے ہیں  ہم ایسے دورِ محبّت گزار آئے ہیں ہمارے سَر پہ بڑا بوجھ تھا وفاؤں کا بچھڑ کے اُس سے وہ سارا اتار آئے ہیں اُسے کہو کہ ذرا دیر کھول رکّھے کواڑ  کہ اُس کو دیکھنے سب پا فگار آئے ہیں ترے خلاف اترتا نہیں گمان میں کچھ وگرنہ مشورے تو بے شمار آئے ہیں زمانہ سخت سمجھتا رہا ہمیں اور ہم فقط نگاہ پہ سب کچھ ہی ہار آئے ہیں  جو چاہتا تھا کوئی اُس سے بات تک نہ کرے  ہم ایسے شخص کا لہجہ سنوار آئے ہیں ہم ایک باغ میں رہتے ہیں اور بخت ایسے کہ روز خواب میں بس ریگزار آئے ہیں بس ایک نام ہی شوزبؔ رہے گا صدیوں تک سخن شناس تو ورنہ ہزار آئے ہیں  (شوزب حکیم ۔شرقپور ، ضلع شیخو پورہ) ۔۔۔ غزل اپنے قبلے ٹھیک کریں گے ہم دونوں  پھر اک بار ضرور ملیں گے ہم دونوں جس کو پڑھ کے ملنے میں آسانی ہو  وہ کلمہ اک ساتھ پڑھیں گے ہم دونوں اک دوجے سے غافل ہو کے دیکھ لیا ہر لمحہ بھر پور جئیں گے ہم دونوں جھگڑے کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں  ایسا کوئی ورد کریں گے ہم دونوں مل بھی لیں گے لیکن اتنا یاد رہے  اپنی حد میں یار رہیں گے ہم دونوں ( عظیم کامل۔ جام پور) ۔۔۔ غزل جن کے چہرے مرے آئینے میں گلفام رہے  اپنی پہچان میں وہ آج تلک خام رہے ایک مصرع دمِ آخر کہوں گا قاتل پر  مجھ پہ احسان ہو، اس پر مرا الزام رہے میرے ویران بدن میں کوئی خوشبو جاگے میرے آنگن میں تری خاک کا بھی کام رہے یہ بھی ممکن ہے کہ منزل کبھی مل جائے مجھے پھر بھی رستے میں تری یاد کی اک شام رہے قافلہ چھوڑ گیا، شوق مگر زندہ ہے کبھی منزل، کبھی صحرا مرے ہم نام رہے شب گزاری میں بھی اک شعلۂ امید رہے میرے بستر پہ تری یاد کا احرام رہے (زبیر احد۔ فیصل آباد) ۔۔۔ غزل آپس میں جو ہم دست وگریباں ہی رہیں گے اغیار سے تا عمر ہراساں ہی رہیں گے ہم زخم کے جیسے تو نہیں ہیں کہ عیاں ہوں ہم درد کی مانند ہیں، پنہاں ہی رہیں گے گر ہم نے مذمّت کے سوا کچھ نہ کیا تو نا اہل یہاں حاکمِ دوراں ہی رہیں گے ہم آج تغافل میں گزاریں گے اگر وقت  لازم ہے کہ پھر کل کو پشیماں ہی رہیں گے بن جائیں اگر دین کے رستے کے مسافر  پھر حشر تلک صاحبِ ایماں ہی رہیں گے  اے مالکِ افلاک! یہ ٹھانی ہے ہمیں نے ہر لمحہ فقط تیرے ثناخواں ہی رہیں گے (محبوب الرّحمان محبوب۔سینے،میاندم،سوات) ۔۔۔ غزل لے دے کے کوئی شخص جو برفیلا پڑا ہے چہرہ ہے مگر زرد، بدن نیلا پڑا ہے تم اتنا کہو بھولے سے بھی دھیان گیا کیا؟ جو راستے میں دوست یہ زہریلا پڑا ہے  توڑوں گا تعلق تو بڑا پاپ پڑے گا پاؤں میں مرے ڈورا جو چمکیلا پڑا ہے انصاف پسند آدمی تھا، تھا تو مخالف  چڑھ دوڑ کے جو آیا تھا وہ ڈھیلا پڑا ہے چُھو لوں تو ابھی ٹوٹ کے بکھرے گا یہیں پر چھاتی پہ مری جسم جو لچکیلا پڑا ہے مزدور کی عظمت کی گواہی سی دکھے گا اک جسم پسینے سے جو یوں گیلا پڑا ہے  حسرتؔ پہ ابھی وقت، تو کل اس پہ پڑے گا ہے روگ کوئی جس سے کہ رخ پیلا پڑا ہے (رشید حسرت۔کوئٹہ) ۔۔۔ غزل بہار نقطۂ آغاز کرنے والی تھی مگر ہمیں نظر انداز کرنے والی تھی تبھی تو لہجہ پراسرار ہوگیا اتنا ہوا چراغوں کو ہمراز کرنے والی تھی یہ بام ودر کی خموشی کسی بھی لمحے میں مرے سکوت کو آواز کرنے والی تھی بلندیوں کی کہانی سے ماورا تھی بہت کہ میری سوچ جو پرواز کرنے والی تھی وہ آنکھ صرف نظر کر کے ایک دنیا سے کسی کسی کو فسوں ساز کرنے والی تھی یہ کون منظر ہستی سے ہٹنے والا تھا یہ زندگی کسے ناراض کرنے والی تھی شکستہ ناؤ نے انجامِ کار ڈوبنا تھا فضول میں ہی تگ و تاز کرنے والی تھی چمک تھی آنکھ میں اک خواب کی عمر عاطرؔ جو اک ہجوم سے ممتاز کرنے والی تھی (عمر عاطر۔ میٹروول سائٹ ٹاؤن، کراچی) سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔  انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘  روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل