Loading
پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے اور مستقبل میں سیلاب و ماحولیاتی نقصانات کو کم کرنے کے لیے صوبے میں جنگلات کا رقبہ بڑھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، تاہم یہ ہدف حکومت تنہا حاصل نہیں کر سکتی، بلکہ اس کے لیے کمیونٹیز، نجی شعبے اور جدید ٹیکنالوجی کی شمولیت ناگزیر ہے۔ لاہور کے مقامی ہوٹل میں محکمہ جنگلات پنجاب اور انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے اشتراک سے منعقدہ 2 روزہ ’’فاریسٹ ورکشاپ‘‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ ماضی کے بلین ٹری منصوبے کے باوجود جنگلات کے رقبے میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ ان کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ترجیح ہے کہ فاریسٹ مینجمنٹ کو مستند اعداد و شمار اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ازسرنو ترتیب دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں درخت لگانا ممکن نہیں، اس کے باوجود حکومت تجاوزات کے خاتمے اور جنگلاتی رقبے کے تحفظ کے لیے سرگرم ہے، صوبے میں پہلی بار جنگلی حیات کا سروے کیا جا رہا ہے جب کہ ہر ترقیاتی منصوبے میں ایک فیصد رقبہ گرین کور کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق مری میں ایسا نظام متعارف کرایا جا رہا ہے جس میں مقامی کمیونٹیز کو جنگلات کا براہِ راست نگران بنایا جائے گا۔ مریم اورنگزیب نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کا بجٹ ماضی میں 50 سے 60 کروڑ روپے تھا، جسے بڑھا کر 50 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ ان کے مطابق پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جھینگا فارمنگ کے شعبے پر بھی بڑے پیمانے پر کام شروع کیا گیا ہے۔ آئی یو سی این پاکستان کے کنٹری ہیڈ محمود اختر چیمہ کا کہنا تھا کہ موجودہ جنگلات کو محفوظ رکھنا اور ان میں اضافے کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں، ورکشاپ میں ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی سفارشات کو پالیسی سازی میں شامل کیا جائے گا تاکہ جنگلات کے تحفظ اور فروغ کو یقینی بنایا جا سکے۔ آئی یو سی این کے ڈائریکٹر پراجیکٹس عاصم جمال نے کہا کہ جنگلات کا تحفظ اولین ترجیح ہونا چاہیے، ان کے مطابق نئی شجرکاری کے لیے سرکاری محکموں کی اراضی استعمال کرنی ہوگی اور سڑکوں، نہروں اور دریاؤں کے کنارے بڑے پیمانے پر درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیونٹیز کی شمولیت کے بغیر اس ہدف کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ سیکریٹری جنگلات، جنگلی حیات و فشریز مدثر ریاض ملک نے ورکشاپ میں بتایا کہ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران شعبہ جنگلات اور وائلڈ لائف میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ ان کے مطابق وائلڈ لائف فورس تشکیل دی جا چکی ہے اور آئندہ دو سے تین برسوں میں جھینگے کی 1.2 ارب ڈالر مالیت کی برآمدات شروع ہو جائیں گی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ماضی میں اس شعبے کو مطلوبہ اہمیت اور ادارہ جاتی اونرشپ نہیں دی گئی۔ آئی یو سی این کے ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر جاوید احمد نے زور دیا کہ پنجاب کے لیے 2025 تک ایک جامع ’’فاریسٹ ویژن‘‘ کی تیاری ضروری ہے، تاکہ صوبے کے جنگلاتی مستقبل کو سمت دی جا سکے۔ ماہر جنگلات بدر منیر نے کہا کہ مقامی کمیونٹیز کو جنگلات کی معاشی، صحت اور ماحولیاتی اہمیت سے آگاہ کرنا مثبت قدم ہے۔ ان کے مطابق نجی شعبے کو بھی اس مہم میں شامل کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی پالیسی ہونی چاہیے کہ لوگ خود جنگلات اگانے کی طرف آئیں، اس سے نہ صرف انہیں معاشی فائدہ ہوگا بلکہ صوبے کے گرین کور میں بھی اضافہ ہوگا۔ ڈائریکٹر جنرل فاریسٹ اظفر ضیا نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پنجاب کے 5 کروڑ ایکڑ رقبے میں سے ساڑھے 16 لاکھ ایکڑ محکمہ جنگلات کے پاس ہے، جن میں سے ساڑھے 12 لاکھ ایکڑ پر جنگلات موجود ہیں۔ ان کے مطابق باقی پونے پانچ کروڑ ایکڑ نجی ملکیت ہے، اس لیے جنگلات کے رقبے میں اضافہ عوام اور کمیونٹیز کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دریاؤں کے کنارے بفر زون قائم کرنا ہوں گے، جو نہ صرف زمین کے کٹاؤ کو روکتے ہیں بلکہ سیلابی نقصان کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ورکشاپ میں محکمہ جنگلات کے افسران، ڈبلیو ڈبلیو ایف کی نمائندہ ڈاکٹر عظمیٰ خان، موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ، ’’فرینڈز آف فاریسٹ‘‘ کے اراکین اور حیاتیاتی تنوع کے طلبہ و طالبات نے بھی شرکت کی۔ ماہرین کے مطابق اگر حکومت اپنی پالیسیوں میں کمیونٹیز کو حقیقی شراکت دار بنائے، غیر قانونی کٹائی پر قابو پائے اور نجی شعبے کو ترغیبات فراہم کرے تو نہ صرف پنجاب میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ ممکن ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بھی کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل