Tuesday, September 09, 2025
 

دکھاوے کے لیے اصل حکمران عوام

 



کچھ معزز لوگ کہتے ہیں کہ ملک کے اصل حکمران صرف عوام ہیں یہ بات عشروں سے سنائی جا رہی ہے مگر 78 سالوں میں عوام کی حکمرانی کہیں بھی یا کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت میں نظر نہیں آئی جن کا دعویٰ رہا کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار میں آئے ہیں۔ بھٹو صاحب نے 1973 کے تحت جو حکومت بنائی تھی اسے بھٹو صاحب نے عوامی حکومت کا نام دیا تھا اور عوام کو روٹی کپڑا و مکان فراہم کرنا پیپلز پارٹی کا منشور تھا اور بھٹو صاحب کسی حد تک عوامی رہنما بھی تھے جس کا مظاہرہ انھوں نے اپنی حکومت کے شروع میں کرکے دکھایا بھی تھا اور بطور وزیر اعظم انھوں نے بڑے لوگوں کے مخصوص اجتماعات سے خطاب کے بجائے عوام میں اچانک بغیر پروٹوکول پہنچ جانے اور ان سے خطاب کے مناظر بھی عوام کو دکھائے تھے مگر بعد میں بھٹو صاحب بھی عوامی سیاست سے دور ہو گئے اور ان کی مصروفیات ایک مطلق العنان حکمران بننے، سیاسی مخالفین کو کچلنے، صوبہ سرحد و بلوچستان میں نیب اور جے یو آئی کی جمہوری حکومتیں ختم کرکے پی پی کی حکومتیں قائم کرنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے اور مضبوط کرنے کی سیاست میں مصروف ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں وہ عوام سے دور ہو کر بڑے لوگوں تک محدود ہو گئے تھے۔ عوام کو اگر حکمران سمجھا جاتا تو ملک 1971 میں کبھی دولخت نہ ہوتا کیونکہ جنرل یحییٰ کے کرائے گئے 1970 کے الیکشن نے عوامی لیگ کو واضح کامیابی دلا کر اقتدار میں آنے کا حق دیا تھا مگر یہ فیصلہ کچھ سیاستدانوں کو قبول نہ تھا جس کا مطلب عوام کا فیصلہ قبول نہ کرنا اور عوام کو ان کی حکمرانی سے محروم کرنا تھا جس سے واضح ہو گیا تھا کہ اصل حکمران عوام نہیں اور صرف نام کی حد تک ہیں اور اصل حکمران وہ ہیں جو عوام کا مینڈیٹ مسترد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور مرضی کی حکومت چاہتے ہیں جس کے بعد سے یہی ہوتا آ رہا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ 1977 کا مارشل لا بھٹو صاحب کی مکمل آمریت کی خواہش اور من مانیوں کے باعث لگا تھا جس میں سیاستدان بھی شریک تھے اور جنرل ضیا کے دور میں ان کے حامی و مخالف رہے پھر 1988 سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اقتدار کی باریوں سے سلسلہ شروع ہوا۔ بے نظیر حکومت میں پہلی بار غیر جمہوری قوتوں کو تمغہ جمہوریت دے کر تسلیم کر لیا گیا تھا کہ حکومت عوام کی مرضی سے نہیں بلکہ کہیں اور سے ملتی ہے اور اقتدار عوام کی مرضی سے نہیں ملتا بلکہ نہ عوام اصل حکمران ہیں مگر ہر الیکشن میں نام عوام ہی کا استعمال ہوا اور (ن) لیگ، پیپلز پارٹی، (ق) لیگ کے بعد نیا تجربہ ان آزمائی ہوئی پارٹیوں کی جگہ تحریک انصاف کو عوام کے نام پر اقتدار میں لا کر کیا گیا اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے کبھی نہیں کہا کہ وہ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے ہیں یا اصل حکمران عوام ہیں ۔ وہ پونے چار سال فخریہ کہتے رہے کہ وہ اور انھیں اقتدار میں لانے والے ایک پیج پر ہیں اور اگر یہ پیج برقرار رہتا تو وہ 2028 تک اقتدار میں رہنے کی منصوبہ بندی اور اپنی مخالف سیاسی پارٹیوں کے مکمل خاتمے کا پروگرام بنائے ہوئے تھے مگر پہلی بار اقتدار میں لائے گئے نئے تجربے نے بھی ثابت کر دکھایا کہ اصل حکمران عوام نہیں بلکہ عوام تو ووٹ کسی اور کو دیتے ہیں مگر حکمران کوئی اور بنتا ہے جیسے 2018 میں ہوا۔ 2022 میں بھی کسی اور کو حکمرانی ملی جیسے 2018 میں حکمرانی دی گئی تھی۔ اگر پی ٹی آئی عوام کی مدد سے اقتدار میں آئی ہوتی تو اس کے وزیر اعظم کو کھلے عام یہ اعتراف نہ کرنا پڑتا کہ ہمیں بجٹ بھی ایجنسیوں کی مدد سے منظور کرانا پڑتا تھا۔ معزز شخصیات ہائبرڈ نظام کو آمریت قرار دیں تو ان کا حق ہے کیونکہ یہی شخصیات آمریت کی حامی رہیں اور انھوں نے ہی جنرل پرویز کے صدارتی ریفرنڈم کو شفاف قرار دیا تھا۔ اصل حکمران قرار دیے جانے والے عوام کی تو عدالتوں میں بھی نہیں سنی جاتی کیونکہ عدالتوں سے انصاف لینے کے لیے عوام بڑے وکیلوں کی بھاری فیس ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے جن کی پارلیمنٹ میں سنی جاتی ہے نہ ان کے نام پر آئی کسی حکومت نے انھیں اہمیت دی اور دل بہلانے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ اصل حکمران عوام ہیں جب کہ ایسا قطعی نہیں ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل