Loading
رواں برس مئی میں اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموترخ نے بعد از جنگ غزہ میں سرمایہ کاری کے امکانات سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری پٹی کو تباہ کر کے لوگوں کو جنوب کے ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود کر دیا جائے گا۔شرکا نے اس خبر کا تالیوں سے خیر مقدم کیا۔جولائی میں وزیرِ ثقافت ایمخائی ایلیاہو نے ایک ریڈیو انٹرویو میں بتایا کہ بفضلِ خدا ہم غزہ کو تیزی سے صاف کر رہے ہیں اور جلد ہی یہ علاقہ یہودی آبادکاری کے قابل ہو جائے گا۔ ملٹری انٹیلی جینس کے سربراہ میجر جنرل ہارون حلیوا گذشتہ برس اپریل میں ریٹائر ہوئے۔اسرائیلی چینل بارہ نے گذشتہ ماہ جنرل صاحب کی ایک آڈیو ریکارڈنگ سنوائی۔اس میں جنرل صاحب کہہ رہے ہیں کہ ’’ سات اکتوبر کو مرنے والے ہر اسرائیلی کے بدلے پچاس فلسطینیوں کا مرنا ضروری ہے۔انھیں سبق دینے کے لیے ہر چند برس بعد ایک نقبہ کی ضرورت ہے۔تاکہ ان کی آیندہ نسلوں کو بھی یاد رہے اور ہماری آیندہ نسلیں بھی ان سے محفوظ رہیں ‘‘۔ ( نقبہ کا مطلب قیامتِ صغری ہے۔پہلا نقبہ انیس سو سینتالیس تا انچاس جاری رہا جس میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینی گھروں سے نکالے گئے۔دوسرا نقبہ انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد شروع ہوا۔اس میں ساڑھے تین لاکھ فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور تیسرا نقبہ اس وقت جاری ہے جس میں اب تک مغربی کنارے کے پچاس ہزار فلسطینی اندرونی طور پر دربدر ہو چکے ہیں جب کہ غزہ کی پوری آبادی نسل کشی اور بے گھری کے درمیان معلق ہے )۔ برطانوی اخبار گارجین ، اسرائیلی نیوز ویب سائٹ پلس نائن سیون ٹو میگزین اور لوکل کال نے اسرائیلی فوج کی ایک کلاسیفائیڈ ڈیٹا فائل حاصل کر لی۔ اس فائل میں سات اکتوبر دو ہزار تئیس تا مئی دو ہزار پچیس ( انیس ماہ ) کا ڈیٹا موجود ہے۔اس ڈیٹا کے مطابق انیس ماہ میں حماس اور اسلامک جہاد سے تعلق رکھنے والے سینتالیس ہزار چھ سو تریپن جنگجوؤں میں سے محض آٹھ ہزار نو سو جنگجو مارے گئے یا ’’ شائد‘‘ مر گئے۔( ’’ شائد مر گئے ‘‘ کی کیٹگری میں پندرہ سو ستر نام ہیں )۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تک غزہ میں جتنے بھی لوگ مرے ان میں سے صرف سترہ فیصد جنگجو اور تراسی فیصد عام شہری ہیں۔یعنی روانڈا ، بوسنیائی شہر سربرے نیتزا اور یوکرین کے شہر ماریوپول میں قتلِ عام کے بعد کسی بھی مسلح بحران میں سب سے زیادہ سویلینز غزہ میں مرے ہیں اور مسلسل مر رہے ہیں۔ حماس کی وزارتِ صحت ان زخمیوں اور ہلاک شدگان کو گنتی ہے جن کی تصدیق ہو چکی ہے اور اسرائیلی فوج بھی ان اعداد و شمار کو درست سمجھتی ہے۔اگر موقر برطانوی طبی جریدے دی لانسٹ کی تحقیق پر اعتبار کر لیا جائے تو جتنے لوگ اب تک مصدقہ طور پر مرے ہیں ان کے علاوہ کم از کم چالیس فیصد وہ ہیں جو لاپتہ ہیں یا ان کی لاشیں ملبے سے نہیں نکالی جا سکیں یا پھر ان کے بمباری سے چیتھڑے اڑ گئے یا ان کی لاشیں راستوں میں پڑی پڑی گل سڑ گئیں ۔ان غیرمصدقہ لاپتہ لوگوں کو بھی اگر ہلاک شدگان میں شامل کر لیا جائے تو غزہ میں اب تک لاکھ سے زائد انسان مر چکے ہیں۔ پچھلے کم ازکم سو برس کی تمام جنگوں میں غزہ جتنے رقبے میں اتنی تعداد میں انسان کہیں اور نہیں مارے گئے۔ اسرائیلی فوجی ذرائع نے کلاسیفائیڈ ڈیٹا کے افشا ہونے کی تردید نہیں کی۔غیر جانبدار انسانی حقوق ذرائع ابتدا سے کہہ رہے ہیں کہ مرنے والوں میں اکثریت بیگناہوں کی ہے مگر اسرائیلی سیاست داں نسل کشی پر پردہ ڈالنے کے لیے ہمیشہ حماس اور اسلامک جہاد کے جنگجوؤں کی تعداد نہ صرف بڑھا چڑھا کے پیش کرتے رہے بلکہ ہر مرنے والے کو جنگجو یا ان کا ساتھی یا ہمدرد ڈکلئیر کرتے آئے ہیں۔ گذشتہ برس ستمبر میں نیتن یاہو نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی فوج جدید جنگ کے تمام اخلاقی اصول برت رہی ہے اور ایک دہشت گرد اور ایک سویلین کی موت کا ون پلس ون تناسب قائم ہے۔مگر نیتن یاہو حسبِ معمول جھوٹ بول رہے تھے۔کیونکہ فوجی قیادت نے شروع سے ہی اپنے فیلڈ مینوئل میں طے کر لیا تھا کہ اگر ایک جونئیر جنگجو کو ہدف بناتے ہوئے پندرہ سے بیس سویلینز یا ایک سینیر جنگجو کے ساتھ پچاس تک سویلینز مر جائیں تو سودا مہنگا نہیں۔ مگر ہلاکتوں کی نوعیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارنے والے بھی کسی خاص شخص کو نشانہ بنانے کے بجائے اندھا دھند مار رہے ہیں اور قاتل فوج کو بھی ٹھیک سے نہیں معلوم کہ کتنے انسان مارے ہیں۔ مثلاً جنگ شروع ہونے کے ایک ماہ بعد ( نومبر دو ہزار تئیس ) اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع نے غزہ میں بیس ہزار جنگجو ختم کرنے کا دعوی کیا۔اگلے ہی مہینے یہ تعداد کم ہو کے سات ہزار آٹھ سو ساٹھ جنگجو ہو گئی۔فروری دو ہزار چوبیس میں فوج نے دعوی کیا کہ اس نے اب تک تیرہ ہزار جنگجو مار دیے ہیں۔لیکن ایک ہفتے بعد ہی تیرہ ہزار میں سے ایک ہزار کم کر دیے۔اگست دو ہزار چوبیس میں دعوی کیا گیا کہ اب تک سترہ ہزار جنگجو مار دیے گئے ہیں مگر دو ماہ بعد اکتوبر میں کہا گیا کہ چودہ ہزار مرے ہیں۔ ظاہر ہے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اسرائیلی ملٹری انٹیلی جینس کے ایک زریعے نے بتایا کہ اگر مختلف بریگیڈ کمانڈروں کے دعووں کو تسلیم کر لیا جائے تو اب تک انھوں نے جنگجوؤں کی اصل تعداد سے بھی دو سو گنا زائد جنگجو مار دیے ہیں۔بظاہر اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ اموات کے بارے میں فلسطینی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کو ہمیشہ چیلنج کر کے محض پروپیگنڈہ قرار دیتی ہے۔مگر عسکری اور انٹیلی جینس ذرائع ان اعداد و شمار کو نہ صرف درست سمجھتے ہیں بلکہ ان ہی کی روشنی میں اپنی رپورٹیں اور تخمینے بھی مرتب کرتے ہیں۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ اسرائیلی قیادت کے جھوٹ کے برعکس اسرائیلی انٹیلی جینس کے کلاسیفائڈ ڈیٹا نے حقیقت بیان کر دی ہے کہ اب تک مرنے والوں میں سے صرف سترہ فیصد ایسے ہیں جو قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہونے کے سبب واجب القتل تھے۔مگر یہ سچ معلوم ہونے کے بعد کیا کریں ؟ اس حقیقت کا اچار ڈالیں ؟ دنیا کی کتنی ریاستیں ہیں جو عالمی عدالتِ انصاف اور اس کے فیصلوں کا دم بھرتی ہیں مگر اس عدالت نے جن اسرائیلیوں کو اشتہاری قرار دے رکھا ہے وہ دندناتے ہوئے دنیا بھر میں گھوم رہے ہیں اور کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو ان اشتہاریوں کو اپنی بری ، بحری یا فضائی حدود سے گذرتے ہوئے حراست میں لے کر دی ہیگ میں قائم عدالت کے حوالے کر سکے۔چنانچہ اسرائیل نے تراسی فیصد سویلینز مارے یا سو فیصد جنگجو قتل کیے۔اس انکشاف سے دنیا کو کیا فرق پڑتا ہے ؟ (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل