Sunday, October 05, 2025
 

بلتستان داستان (دوسرا حصہ)

 



جوں جوں ہم درہِ بابو سر سے چلاس کی جانب بڑھ رہے تھے، توں توں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اترائی میں تو کوسٹر سست رفتار تھی ہی مگر جب سڑک سیدھی ہوگئی، تب بھی ہماری کوسٹر دھیمی ہی رہی۔ معلوم ہوتا تھا کہ ہماری کوسٹر کا ڈرائیور کچھوے اور خرگوش کی کہانی میں کچھوے صاحب سے بہت متاثر ہے۔ ایسے میں نہ جانے کتنے خرگوش ہم سے آگے نکل گئے۔ میری بھوک کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور میں توقیر پر طنزومزاح کے تیر چلا رہا تھا کہ میرے کھانے پینے کا کچھ سامان کرے اور میرا ساتھ دینے میں ارسلان اور طارق صاحب پیش پیش تھے۔ مجھ سے آگے والی سیٹ پر ارسلان تھا اور ارسلان سے آگے طارق صاحب تھے۔ بالآخر ہمارا کچھوا اپنی منزلِ مقصود تک پہنچا اور ہم چلاس پہنچ گئے۔ بچے ’’ہائے گرمی‘‘ کرتے ہوئے کوسٹر سے باہر نکلے اور اپنے اپنے کمرے کی تلاش میں نکل پڑے۔ چلاس حالاں کہ بابو سر ٹاپ سے زیادہ دور نہیں مگر اپنے سنگلاخ پہاڑوں کی وجہ سے شدید گرم علاقہ ہے، مگر لاہوری کولر نے اپنا کام دکھایا اور کمرے ایسے ٹھنڈے رہے کہ ہمیں رات لحاف اوڑھ کر سونا پڑا۔ لطف کی بات یہ کہ جب میں کمرے میں گیا تو بستر پر لحاف دیکھ کر سوچا کہ ایسے گرم موسم میں لحاف کون بے وقوف لیتا ہے۔ میں نے لحاف بستر سے اٹھا کر نیچے پٹخ دیا مگر جوں ہی ذرا رات بیتی تو معلوم ہوا کہ میں بھی ان ہی بے وقوفوں میں سے ایک تھا جو چلاس میں لحاف اوڑھ کر سوتے ہیں۔  صبح سویرے سو کر اٹھے تو معلوم ہوا کہ ناشتہ چلاس کی بجائے استور میں ملے گا۔ میرے نزدیک یہ عقل مندی کا کام تھا کہ چلاس کی گرمی سے فوراً نکلا جائے مگر ہم چلاس سے نکلے ہی تھے کہ ہمارے ڈرائیور صاحب نے بریک لگادیا۔ ساری کوسٹر بیٹھی رہی۔ مجھے چائے کے کیڑے نے تنگ کیا تو میں بھی نیچے اترا تو معلوم ہوا کہ ڈرائیور صاحب کو یہاں کی چائے بہت پسند ہے۔ میں نے بھی اپنے لیے پھینکی چائے منگوالی۔ چائے واقعی اچھی تھی۔ اتنی اچھی کہ میرا ابھی آدھا کپ رہتا تھا اور ڈرائیور صاحب نے جانے کے لیے ہارن بجا دیا۔ میں نے بیس روپے کا ایک کاغذی کپ خریدا، اس میں چائے انڈیلی اور کوسٹر میں سوار کو گیا۔ اور یہیں مجھے میرا پسندیدہ ہم سفر مل گیا۔ انگریزوں نے 1893 میں چلاس پر قبضہ کر لیا۔ سکھوں اور پھر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے چلاس کے لوگوں نے بہت قربانیاں دیں مگر دونوں ادوار میں ہی چلاس کے لوگ شکست کا شکار ہوئے۔ 1851 میں سکھوں نے چلاس والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور رہی سہی کسر 1892-93 میں انگریزوں نے پوری کی۔ چلاس جہاں دریائے سندھ بہتا ہے مگر یہ علاقہ اس قدر بنجر ہے کہ یہاں سبزہ دکھائی نہیں دیتا۔ چلاس میں ہی مہاتما بدھ اور ایک پرانے قلعے کے آثار بھی ہیں۔  یہ قلعہ قدیم شاہراہِ قراقرم کو محفوظ بنانے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اور بعد ازاں 1852ء میں مہاراجا گلاب سنگھ نے کرنل لوچن سنگھ کو چلاس میں تعینات کیا، جس کے بعد مقامی لوگوں نے اس پر حملہ کیا تھا ۔ برطانوی دور میں اسے دوبارہ مضبوط کیا گیا تاکہ شاہراہ کے ذریعے سپلائی لائنز کو کنٹرول کیا جا سکے۔ قدیم شاہراہِ قراقرم کے تحفظ میں قلعے کا کردار انتہائی اہم تھا ۔ اس دور میں یہاں سے قدیم بودھ تہذیب کی یادگاریں اور پتھر پر کندہ نشانات ملتے ہیں جو 5000–1000 قبل مسیح کے ہیں۔ موجودہ دور میں قلعہ پولیس اسٹیشن کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔  سننے میں آیا ہے کہ چلاس میں ایک پتھر پر مہاتما بودھ کی مورتی بھی کندی ہوئی ہے اور قریبی پتھروں پر قدیم رسم الخط کے حروف بھی کندہ ہیں۔ چلاس میں سو سال پرانے قدیم گھر یا دکانیں آپ کو آرام سے مل سکتے ہیں۔ کتابیں بتاتی ہیں کہ چلاس پہلے اتنا بھی بنجر نہیں تھا، جتنا آج ہے۔ سکھوں کے حملے سے پہلے چلاس سرسبز اور شاداب علاقہ تھا مگر پھر سکھوں نے اس علاقے پر ایسی تباہی پھیری کہ پہلے جیسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ چلاس کے پہاڑوں پر بہت سے مینڈھوں اور مارخوروں کی تصویریں بھی کندی ہیں جنھیں چلاس کے پرانے لوگ شکار کیا کرتے تھے۔ چلاس میں ہی ایک وادی داریل نام سے بھی ہے جہاں ایک بڑے پتھر پر وشنو دیوتا اور ہاتھی کے مجسمے کی تصویر بھی ہے۔ وشنو دیوتا کی تصویر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کبھی ایسے لوگ بھی آباد تھے جو وشنو دیوتا کی پوجا کرتے تھے۔ چلاس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کا پرانا نام سیوات تھا۔ کہتے ہیں کہ اشوک بھی نائب السلطنت کی حیثیت سے چلاس آیا تھا مگر یہ تب کی بات ہے جب وہ بڑا بادشاہ نہ بنا تھا اور نہ اس نے ابھی فتوحات کی تھیں۔ چلاس پر ایک لمبا عرصہ بودھ مت کے ماننے والوں نے حکومت کی اور بہت سی خانقاہیں اور اسٹوپے بنائے۔ آج بودھ مت کے ماننے والے اس علاقے میں صرف لداخ تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ چلاس پر ہندوشاہی خاندان کی بھی حکومت رہی ہے۔ چلاس کے پتھروں پر وشنو اور ہاتھی کا مجسمہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ لوگ بڑے ماہر گھوڑا سوار تھے۔ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں پولو کا کھیل بھی ان ہی لوگوں کی وجہ سے ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ہندو شاہی دور میں اس علاقے سے بودھ مت کے آثار مٹانے کی بہت کوشش کی گئی۔ چٹانوں سے مہاتما بودھ کے مجسمے ہوں یا چٹانوں پر لکھی ہوئی تحریریں، بہت کچھ مٹا دیا گیا مگر پھر بھی بہت سا مواد اب بھی باقی ہے۔ صرف ہندوؤں نے ہی نہیں بلکہ سکھوں نے بھی بودھ مت کی خانقاہوں اور آثار کو بہت نقصان پہنچایا۔ اب تو حقیقتاً یہ آثار بہت کم رہ گئے ہیں۔ آپ درہ بابو سر سے نیچے چلاس کی طرف اتریں تو فوری طور پر آپ کو اپنا محبوب شیر دریا مل جائے گا۔ شاہراہ قراقرم سے آنے کی صورت میں یہ بہت پہلے ہی آپ کا ہم سفر بن جاتا ہے۔ دریائے سندھ نے جب سے چلاس کے پہلو میں بہنا شروع کیا ہے، چلاس اپنے سنگلاخ چٹانوں سمیت جوں کا توں کھڑا ہے۔ چلاس کو سکھوں اور انگریزوں نے تو بہت نقصان پہنچایا مگر شیر دریا چلاس کا ایسا پکا دوست ہے کہ بے پناہ تیز بہاؤ کے باوجود اسے آج تک کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ وجہ شاید یہ بھی ہے کہ شیر دریا بہت نیچے ہے اور چلاس بہت اوپر۔ چلاس شہر سے باہر ماحول بے آب و گیا ہے۔ کہیں بھی کوئی درخت دکھائی نہیں دیتا۔ دریا کے کنارے بھی غیر آباد سے نہ تھے۔ نہ کوئی آدمی نہ کوئی جانور اور نہ ہی کہیں پرندے۔ رائے کوٹ آیا تو سب کو کوسٹر میں سے ہی نانگا پربت کی عظیم چوٹی کی تھوڑی سی چونچ دکھائی دی۔ سب لوگ اپنی منڈیاں کوسٹر سے باہر نکال کر نانگا پربت کی چونچ کی تصاویر بنوانے لگے۔  ارسلان نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حارث تم بھی نانگا پربت کی تصویر بنا لو مگر میں آرام سے بیٹھا رہا۔ جس نے فقط ایک سال پہلے ہی نانگا پربت کے دوسرے بیس کیمپ سے نانگا پربت کو ہاتھ لگایا ہو، وہ نانگا پربت کی چھوٹی سی چونچ کی تصاویر کیوں کر لے گا اور اسے اس چھوٹے سے دیدار سے کیا حاصل؟ میرے ساتھ جتنے بھی احباب تھے ان میں سے کسی نے بھی نانگا پر بت کو قریب سے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے دل میں ہی یہ طے کیا ہوا تھا کہ اگر مجھے تین سے چار اچھے افراد ملے تو میں ان سب کو لے کر بیس کیمپ ون ہرلنگ کوفل ضرور جاؤں گا جہاں سے سب لوگ نانگا پربت کا دیدار کریں گے تو یقیناً شاہراہِ قراقرم سے نظر آنے والی اس چھوٹی سی چونچ کو بھول جائیں گے۔  جگلوٹ سے ذرا پہلے ہی ہم نے شاہراہِ قراقرم اور شیر دریا، دونوں کو چھوڑا اور دائیں جانب استور نالے کے ساتھ استور روڈ کی جانب مڑ گئے۔ استور نالا جو اصل میں ایک مکمل دریا ہے مگر مقامی لوگ چوں کہ اسے استور نالہ کہتے ہیں، اس لیے اسے استور نالہ لکھ دیا گیا ہے۔ دریائے استور جو بنیادی طور پر درہِ برزل کے گلیشئرز سے بنتا ہے، شیو سر کے پانیوں کو اپنے ساتھ ملاتا ہے اور پھر نیچے کی جانب بہنا شروع کر دیتا ہے۔ دریائے استور کو بنانے میں سب سے اہم کردار نانگا پربت کی جھیل لاتوبو کے پانیوں کا ہے۔ آگے چل کر راما جھیل کے علاوہ اور بھی بہت سے ندی نالوں کا پانی اس میں شامل ہوتا ہے اور بالآخر یہ استور نالہ شیر دریا (دریائے سندھ) میں شامل ہوجاتا ہے۔ استور کو جانے والی یہ سڑک نہ تو زیادہ اچھی ہے اور نہ بہت بری۔ شاہراہ قراقرم جیسی بالکل بھی نہیں ہے۔ بس گزارے لائق ہی ہے۔  یہاں میں طارق محمود صاحب (جو ماہرِارضیات ہیں) کی ایک چھوٹی سی تحریر شامل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک کہانی غلط العام کہانی آپ کو گلگت شہر سے 41 کلومیٹر پہلے  شاہراہ ریشم  پر (چلاس کی طرف) اسکردو موڑ سے پہلے بھی ملے گی، جس پر درج ہے،’’یہاں تین بڑے پہاڑی سلسلے آ کر ملتے ہیں۔‘‘ ارضیاتی حدودوقیود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم ایسی بات نہیں کرسکتے۔ اس لیے اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ وہاں ایسا کو جنکشن پوائنٹ ہے۔ اب میں سادہ الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں کہ وہاں صرف دو پہاڑی سلسلے ملتے ہیں۔ ہمالیہ ٭   کوہ ہندوکش(اسے کوہستان آئی لینڈ آرک بھی کہتے ہیں) اس جگہ پر جو تیسرا پہاڑی سلسلہ کوہ قراقرم درج ہے وہ اس جگہ سے تقریباً 100 کلومیٹر دور مشرق اور شمال کی جانب ہے۔ یہ ایسا پوائنٹ ہے جہاں دریائے گلگت اور دریائے سندھ آ کر ملتے ہیں اور اس جگہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ مشاہدہ آپ ارضیاتی علوم سے ناواقفیت رکھتے ہوئے بھی کرسکتے ہیں۔ آپ اس جگہ پر کھڑے ہوکر جنوب کی طرف نگاہ دوڑائیں تو آپ کو کوہ ہمالیہ کی ہندوستانی پلیٹ کی ساخت کی ایک جیسی گہرے رنگ کی چٹانیں دکھائی دیں گی جو کہ مشرق و مغرب کی سمت میں پھیلی ہوئی ہیں اور جس چٹان پر یہ پوائنٹ بنا ہے اور دو دریاؤں کی درمیان سفید دھاری دار چٹانیں ایک جیسی ساخت اور بناوٹ رکھتی ہیں۔ اور یہ کوہ ہندوکش ہے، کوہ قراقرم یہاں نہیں ہے۔ اس لیے یہ جگہ ارضیاتی علوم کے لحاظ سے اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ یہاں کے ناظرین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان دونوں پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں ایک فالٹ لائن (رخنہ) بھی ہے جسے ارضیات میں مین مانٹل تھرسٹ (main mantle thrust)  کہا جاتا ہے۔ یہ فالٹ یہاں سے چلاس تک تقریباً شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ ہی چلتا لیکن اس جگہ پر یہ فالٹ کافی توانائی خارج کرتا رہتا ہے۔ اسی لیے یہاں پہاڑی تودوں کا سرکاؤ (land sliding) اور گرم پانی (تتہ پانی) کے چشمے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں سڑک بھی اسی وجہ سے ٹوٹی رہتی ہے۔ استور سے کچھ پہلے ہی توقیر نے کوسٹر رکوا دی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہرچو نامی ایک خوب صورت سی آب شار تھی۔ جتنا ممکن تھا، اس کے قریب گیا۔ دل تو بہت تھا کہ میں آب شار کے نیچے کھڑا ہوجاؤں۔ میں چند قدم آگے بڑھا بھی مگر پھر آنکھوں کے سامنے ابراہیم کا چہرہ آ گیا اور میں وہیں رک گیا۔ استور شہر کو ابھی بہت سی ترقی کی ضرورت ہے۔ کم از کم یہاں سڑک تو اچھی ہونی ہی چاہیے۔ باقی سب تو بہت بعد کی باتیں ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ یہاں کوئی ڈسٹرکٹ ہسپتال بھی ہو گا اور اگر ہوا بھی تو کم از کم اس معیار کا نہیں ہو گا جس معیار کا ہونا چاہیے۔ تعلیمی نظام کا تو آپ کچھ ہی مت پوچھیں۔ دریائے استور کا پانی لاتوبو جھیل کی وجہ سے گدلا ہے۔ اطراف سے آنے والے نالوں کا پانی اگرچہ کہ صاف ہوتا ہے مگر وہ تمام نالے بھی جب دریائے استور میں گرتے ہیں تو اسی کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ آپ اگر لاتوبو جھیل کی تصویر دیکھ لیں اور پھر یہاں تک پہنچنے کی مصیبتوں کا آپس میں موازنہ کریں تو ہر عقل مند شخص یہی کہے گا کہ اسے یہ ٹریک نہیں کرنا چاہیے مگر جب آپ یہ سنتے ہیں کہ لاتوبو جھیل تک پہنچنے کے لیے آپ کو ایک وسیع و عریض گلیشیئر پر سے گزرنا پڑے گا اور گلیشیئر کے بعد آپ ایک ایسی چڑھائی چڑھتے ہیں کہ اکثر آپ کو چار ٹانگوں پر چلنا پڑتا ہے مگر اس چڑھائی پر چڑھتے ہی آپ کی ساری تھکان دور ہو جاتی ہے۔ یہ اس وادی کا بلند ترین مقام ہے جہاں سے آپ اپنے اطراف کا نہ صرف خوب صورت جائزہ لے سکتے ہیں مگر اسی جگہ نانگا پربت کے سامنے آپ کی ایسی خوب صورت تصویر بھی بنتی ہے کہ ساری زندگی آپ ایک ہی تصویر کے ساتھ گزارا کر سکتے ہیں بشرطیکہ تصویر بنانے والا کوئی انسان کا بچہ ہو۔ لاتوبو جھیل کے پانی گدلے ہیں۔ یہ پانی چوں کہ براہ راست نانگا پربت کی برفوں سے آتے ہیں۔ اس لیے اپنے ساتھ دنیا کے اس عظیم پہاڑ کی دھول مٹی بھی ساتھ لاتے ہیں۔ لاتوبو کے یہی گدلے پانی استور نالے کو بھی گدلا کر دیتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ دریائے استور کو بنانے میں بڑا ہاتھ اسی لاتوبو جھیل کا ہی ہے۔  ہم استور میں تھے اور استور بازار میں حال ہی میں کھلنے والے کوئٹہ ہوٹل میں ناشتہ نوش فرما رہے تھے۔ ہمارے کچھ دوستوں کو استور کے گرم موسم کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ ان کے دماغوں میں یہی تھا کہ وہ چوں کہ شمال کی طرف جا رہے ہیں، اس لیے انھیں ٹھنڈ ہی ٹھنڈ ملے گی۔ ان کے جسم اگرچہ گرمی میں تھے مگر دماغوں میں تو ٹھنڈ ہی چل رہی تھے۔ ذات کے معلوم نہیں وہ کیا تھے مگر مجھے تو میراثی ہی لگتے تھے لہٰذا انھوں نے کچھ کچھ گرم چیزیں پہن لیں۔ توقیر کے بتایا کہ یہاں سے اب سب کو جیپ میں منتقل کردیا جائے گا اور ہمارا قافلہ اب راما میڈوز کو جائے گا۔ ہمارے پیکیج میں صاف لکھا تھا کہ یہ قافلہ راما میڈوز تک ہی رہے گا مگر راما میڈوز آ کر راما جھیل کو نہ دیکھا تو کیا دیکھا۔ اگرچہ کہ راما جھیل کوئی ایسی جھیل نہیں کہ اسے دیکھا جائے مگر پھر بھی ایک حاضری تو لگوانا ہی تھی۔ ناشتے کے بعد چار پانچ جیپیں قطار اندر قطار کھڑی ہوگئیں۔ میں نے انتہائی ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جیپ کی فرنٹ سیٹ پر ایک چھوٹا سا بیگ رکھ دیا۔ استور پہنچتے پہنچتے میری، ارسلان اور طارق صاحب کی اچھی علیک سلیک ہوچکی تھی۔ ہم تینوں یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ نہ صرف ایک ہی جیپ میں بیٹھیں گے بلکہ ٹور کی آخری سانسوں تک ایک ساتھ ہی رہیں گئے۔ فرنٹ سیٹ پر بیگ رکھنے کی میری ہوشیاری کام نہ آئی۔ توقیر نے یہ کہہ کر میرے ارمانوں پر پانی پھیر دیا کہ ہم سب مشٹنڈوں کے لیے ایک دوسری جیپ آئے گی بلکہ آ چکی ہے۔ میں نے فوراً اپنا بیگ نکالا اور دوسری جیپ کی طرف دوڑ لگا دی۔ یہ جیپ بھی مکمل حالی تھی۔ اب کی بار میں نے بیگ رکھنے کی بجائے خود کو فرنٹ سیٹ پر رکھنا زیادہ مناسب سمجھا اور ایسے بیٹھ گیا جیسے مجھے ایلفی لگ چکی ہو۔ یہاں معلوم ہوا کہ اسلام آباد سے آئی ہوئی دونوں خواتین مس فوزیہ اور مس سارہ اب ہمارے ساتھ ہی جیپ پر راما میڈوز تک جائیں گی اور یہیں توقیر نے یہ اعلان بھی کردیا کہ جیپ کے جو بھی مسافر ہیں اب ٹور کے آخر تک یہی لوگ ایک ساتھ رہیں گے۔ ہمارا قافلہ چل پڑا تو نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ سب ایک دوسرے کو بہت پہلے سے جانتے تھے۔ میں نے اپنی زنبیل سے سن بلاک نکالا تو آخری سیٹ پر ہونے کے باوجود طارق نے سن بلاک کی خوشبو محسوس کرلی اور پھر فوراً ہی مانگ بھی لیا۔ طارق نے سن بلاک کی اپنے منہ پر ایسے لیپا پوتی کی جیسے مفت کا مال ہو۔ کم از کم طارق کے لیے تو یہ مفت کا ہی تھا۔ طارق نے سن بلاک اس لئے زیادہ لگایا کہ دھوپ کی وجہ سے ان کی نرم ملائم کومل سی جلد جھلس نہ جائے حالاں کہ میرے خیال میں ان کو سن بلاک نہیں لگانا چاہیے تھا، کیا پتا اسی بہانے ان کے کچھ رنگ و روپ بدل جاتا اور نیچے سے ایک گورا چٹا طارق نکل آتا۔ ہم پانچ کے گروپ میں اب دو خواتین اور تین لڑکے  تھے، مگر ہم سب ہی اب اس سفر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم سب ہی ان  حدود سے واقف تھے جو ایک مرد اور عورت کے درمیان ہونی چاہیے۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم سب کی اولین ترجیح سیاحت تھی۔ سب عقل مند تھے اور جانتے تھے جتنے پیسے لگا کر ہم یہاں سنگلاخ  پہاڑوں میں آئے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ سیاحت پر ہی فوکس کیا جائے ورنہ ہمارے ہی ساتھ کچھ ایسے لوگ تھی جن کا بنیادی مقصد کم از کم سیاحت نہیں تھا۔ یہاں لوگ نئی نئی رشتے داریاں بنانے میں بھی سرگرم تھے اور وہ بھی خاص اپنی اماں جی کی نگرانی میں۔ کیا آپ نے کبھی چودھویں رات میں بھیڑیے کو چاند کی طرف رخ کر کے بولتے ہوئے دیکھا ہے؟ اب یہاں مجھے یہ نہیں معلوم کہ بھیڑیے کی آواز ہو کیا کہتے ہیں ورنہ میں اس کا درست تلفظ ہی یہاں لکھ دیتا۔ اگر اپ نے بھیڑیے کو نہ بھی دیکھا ہو تو کم از کم مختلف فلموں میں آپ نے چودھویں رات میں بھیڑیے کو چاند کی طرف اپنی بوتھی کر کے بولتے ہوئے ضرور دیکھا ہوگا۔ آپ وہی منظر ذرا اپنے ذہن میں لے کے آئیں اور بھیڑیے کی بوتھی کو تھوڑا مزید اوپر کر دیں۔ بس کچھ ایسا ہی حال ہماری جیپ کا تھا جو استور سے نکل کر نہ جانے کن مستیوں میں گم ہوگئی اور ایک دم سے ایسے چڑھائیاں چڑھنے لگی جیسے چودویں رات میں کوئی بھیڑیا چاند کی طرف رخ کر لے۔ ہم ذہنی طور پر اس یک دم آنے والی چڑھائی کے لیے بالکل بھی تیار نہ تھے۔ میں نے تو با ضابطہ طور پر ڈرائیور سے کہہ دیا کہ بھائی ہمیں یہیں اتار دے۔ یہ فاصلہ ہم پیدل ہی طے کرلیں گے۔ پیچھے بیٹھی ہوئی مس فوزیہ نے لقمہ دیا کہ یہ تو آؤٹ آف سلیبس سوال آ گیا ہے۔ کم از کم ہم میں سے کوئی بھی راما جھیل کے اس سوال کے لیے تیار نہ تھا۔ ہمارا قافلہ اب چلتا جاتا تھا کہ توقیر نے ایک جگہ بریک لگوا دی۔ لوگ ناچنے لگے کہ سامنے نانگا پربت نظر آ رہا تھا اور میں انتہائی سنجیدگی سے بے وقوفوں کے منہ دیکھ رہا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں توقیر کی شان میں کچھ کچھ گستاخیاں کیں کہ اس نے یہاں کیوں جیپ کو بریک لگوا دی مگر جگہ چوں کہ کچھ کچھ اچھی تھی، اس لیے گستاخیوں کا معیار ذرا کم رکھا۔ مطلب ایک پہاڑ اتنی دور سے صرف آپ کو اپنی چونچ دکھا رہا ہے تو اس میں اتنا پر جوش ہونے والی کیا بات تھی۔ شاید ان کے لیے ہو مگر میں تو پچھلے ہی برس اس بڑے پہاڑ کو انتہائی قریب سے دیکھ چکا تھا، اس لیے اپنی تصاویر سے زیادہ، دوسروں کی تصاویر بنانے میں مصروف رہا۔ خدا خدا کر کے یہ بھٹکا ہوا قافلہ پھر سے چلا اور اب کی بار یہ راما میڈوز میں ہی جا کر رکا۔ جگہ اچھی تھی مگر فی الحال میں اس کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ میری نظروں میں تو صرف راما جھیل تھی جس کی کوئی تصویر میں نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ راما جھیل کہاں تھی، کیسی تھی، کتنا دور تھی، میں ان سب باتوں مکمل انجان تھا۔ میں پیدل چلنے کے موڈ میں بالکل بھی نہیں تھا۔ ابھی تو ہمارے سفر کا آغاز تھا۔ اگرچہ کہ میں نے کسی کے سامنے بھی کوئی لمبے چوڑے دعوے تو ہرگز نہ کیے تھے مگر میں پھر بھی ایک چھوٹے موٹے ٹریکر ہونے کا بھرم کسی صورت بھی توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے شروع سے ہی طے کیا ہوا تھا کہ راما جیل تک ہم گھوڑے پر ہی جائیں گے۔ گھوڑے کا پتا کیا تو ایک طرف کا کرایہ ایک ہزار روپے تھا۔ ہم چھے افراد تھے تو اس طرح یہ چھے ہزار بن رہا تھا۔  پیسے کم کروانے کی بہت کوشش کی۔ توقیر سے بھی فاصلے کا پوچھا مگر توقیر چوںکہ ان گھوڑے والوں کا پیٹی بھائی تھا اس لیے اس نے بھی گھوڑے والوں کی ہاں میں ہاں ملائی اور ہمیں بتایا کہ راما میڈو سے راما جیل تک کا سفر کم از کم ڈیڑھ گھنٹے کا ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا سن کے میرے چہرے پر ہوائیاں ہی اڑ گئی۔ میں نے فوری طور پر گھوڑا لینے کا اعلان کر دیا۔ قصہ مختصر باقی سب تو پیدل ہی چل پڑے مگر میں، مس سارہ اور مس فوزیہ ہم تینوں ہی گھوڑے پر تھے ہاں البتہ میں نے یہ ضرور کیا کہ واپسی کے لیے گھوڑا بک نہیں کروایا۔ میری کوشش تھی کہ جاتے ہوئے تو بے شک گھوڑے پر چلے جائیں مگر واپسی کا سفر تو کم از کم پیدل ہی طے ہونا چاہیے۔ ہمیں رامہ جھیل تک پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ 20 یا 25 منٹ ہی لگے ہوں گے۔ راما جیل سے پہلے ایک گلیشیئر کی وجہ سے تھوڑی سی لمبی سی ایک جھیل بنی ہوئی تھی۔ میرے گھوڑے والا بتانے لگا کہ اس جھیل کا نام تلوار جھیل ہے اور واقع میں اس کی شکل بھی تقریباً تلوار جیسی ہی تھی۔ راما جھیل ایک مایوس کن جھیل ہے۔ یہ اس بڑی عمر کی عورت کی طرح ہے جس کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہونا چاہتا مگر ہر بڑی عمر کی عورت کے پاس تجربہ نام کی ایک ایسی شے ہوتی ہے جو مردوں کو اس کی جانب آنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ صرف ایک بڑی عمر کی عورت ہی جانتی ہے کہ مرد کی کون سی نبض پر ہاتھ رکھا جائے تو مرد تڑپ اٹھے گا اور یہ بھی کہ مرد کے کون کون درد کا علاج عورت کی کس کس انگڑائی میں پوشیدہ ہے۔ مرد کبھی نہیں بتاتا کہ وہ کہاں کہاں سے چھوا جانا چاہتا ہے۔ یہ صرف بڑی عمر کی عورت کا ہی کمال ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کے علاوہ اپنی زبان کا بھی مناسب استعمال کرتے ہوئے مرد کو ہر طرح سے رام کر لیتی ہے اور شاید اسی لیے راما کہلاتی ہے۔ راما جھیل بھی بس ایسی ہی ایک لمبوتری جھیل ہے جس کے پاس تجربے کے نام پر پسِ منظر میں نانگا پربت کے سلسلے کی چند برف سے ڈھکی ہوئی پہاڑیاں ہیں، خاموشی ہے اور تھوڑا سا بہتا ہوا شفاف پانی ہے۔ سب سے بڑی بات کہ راما جھیل بھی بڑی عمر کی عورت کی طرح شور شرابہ نہیں کرتی۔ مکمل خاموشی سے اپنے عاشق کا جی بہلاتی ہے اور اسے اگلی منزل کو روانہ کر دیتی ہے۔ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا کہ آپ راما جھیل مت دیکھیں۔ ضرور دیکھیں تاکہ آپ کو احساس ہوا کہ تجربہ کیا شے ہوتی ہے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ آپ صرف کسی جوان لڑکی کی محبت میں ہی گرفتار ہوں۔ بڑی عمر کی عورت کے عشق میں گرفتار ہونا بھی ایک الگ ہی تجربہ ہے اور یہ تجربہ آپ کو راما جھیل کے کنارے بہت آسانی سے ہو سکتا ہے۔ ہم کچھ ہی وقت راما جھیل کے کنارے رہے اور پھر واپسی کی راہ کی۔ دیوسائی کیا دیو سائی میں آج بھی ریچھ ہوتے ہیں؟  کوئی بھورا سا ہمالیائی ریچھ؟ معلوم نہیں ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔ اگر میں نے دیکھے ہوتے تو ضرور بتاتا کہ ہاں دیو سائی میں آج بھی ہمالیائی ریچھ ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے دیو سائی کے ریچھ دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ میں تو نکما تھا ہی مگر ارسلان ایک جوان سا لڑکا تھا۔ وہ توقیر سے نظریں چرا کر شیو سر کی ان پہاڑیوں پر چڑھا تھا جہاں جانے کی پابندی تھی، جن کے بارے گمان تھا کہ ان پہاڑیوں کے پار دیو سائی کے ریچھ آوارگی کرتے رہتے ہیں۔ نہ جانے اس قدر آوارہ گردی پر ان بھورے ریچھوں کی امی انھیں ڈانٹ کیوں نہیں پلاتی۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمیں بھورا ہمالیائی ریچھ نہیں ملا۔ عین ممکن ہے کہ وہ بھی گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنی نانی امی گھر گیا ہو۔ بھورے ریچھ کو تو آپ ایک طرف کریں، ہمیں تو دنیا کے بلند ترین وسیع میدان میں وہ خوب صورت پھول بھی نہیں ملے جن کا سارے عالم میں چرچا تھا کہ دیو سائی کے پھول دیکھے بنا آپ کو نہیں مرنا چاہیے۔ آپ پھولوں کو بھی ایک طرف کریں، نہ جانے دیوسائی کے بادلوں کو ہم سے کیا دشمنی تھی کہ اس روز جب ہم سب دیو سائی کی خوب صورت جھیل شیو سر کے کنارے بیٹھے تصاویر بنوا رہے تھے تو ایک بھی بادل سورج کے سامنے نہ آیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ دیوسائی کے بھورے ریچھ، پھولوں اور بادلوں کی یہ مشترکہ سازش تھی کہ ان کم بختوں کے سامنے نہیں آنا۔ دیو سائی کا دیو، براؤن بیئر ہم سے خواہ مخواہ کا بیر رکھے ہوئے تھا۔ اگرچہ کہ یہ ہمالیہ کا بادشاہ ہے، دنیا کا سب سے بڑا گوشت خور جانور ہے۔ مچھلیاں، مار موٹ، گھاس تک کھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ براؤن بیئر کو بہت کم دکھائی دیتا ہے مگر اس کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہے۔ شہد، مچھلی، مار موٹ الغرض جس چیز کی خواہش رکھتا ہے، اس کی خوشبو اسے دور سے آ جاتی ہے۔ قدرت کا نظام دیکھیں کہ سردیوں کے چھ ماہ یہ غاروں میں سویا رہتا ہے۔ اس کے اندر کی اپنی ہی چربی سست رفتاری سے پگھلتی رہتی ہے اور اسے زندہ رکھتی۔  مجھے گمان ہوتا ہے کہ دیو سائی کے پھول کوئی اتنے زیادہ دل نشین بھی نہیں ہوتے ہوں گئے۔ اب ہمیں کیا معلوم کہ وہ دل نشین ہیں بھی یا نہیں۔ ہم نے کون سا انھیں دیکھا ہے یا پھر عین ممکن ہے کہ دیوسائی کے پھول اب ناراض ہوچکے ہوں۔ انھوں نے سوچا ہو کہ آوارہ گردوں کے پیروں تلے اور ان کی گاڑیوں کے ٹائروں تلے کچلے جانے سے بہتر ہے کہ ہم یہاں سے دور کسی ایسی پہاڑی پر بسیرا کرلیں جہاں ان کم بخت سیاحوں کی گاڑیاں نہ آتی ہوں۔ چلو پھولوں کا تو پھر بھی سمجھ آتا ہے کہ شاید وہ ہم سے ناراض ہوں مگر نہ جانے یہ بادلوں کو کیا سوجھی جو ہمارے سامنے آنے سے کتراتے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سے زیادہ سورج سے ان بادلوں کی ناراضی چل رہی ہے جو اب یہ سورج کے سامنے نہیں آتے۔ دیوسائی کے بادلوں بارے مشہور تھا ایسے بادل دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں پائے جاتے۔ سنا تھا کہ دیو سائی کے بادلوں کی شکل، بناوٹ، رنگ سب کچھ جدا ہے۔ یہ بادل جب دیو سائی پر چھاتے تھے تو ایک جادوئی ماحول ترتیب پا جاتا تھا۔ مگر اب وہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ دیوسائی میں دنیا کے بلند ترین میدان کی خوب صورت جھیل شیو سر کے کنارے جب ہم سب سبز ہلالی پرچم کے سائے میں تصاویر بنوا رہے تھے تو یقین مانیں وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ نہ دیوسائی کا ہمالیائی ریچھ، نہ پھول اور نہ دیو سائی کے فریبی بادل۔ مجھے تو لگتا تھا کہ ہم دیو سائی میں نہ تھے اور اگر تھے تو کم از کم یہ وہ دیوسائی نہیں تھا جس کا تذکرہ ہم نے کتب میں پڑھا ہے۔ یہ کوئی اور ہی دیو سائی تھا۔  سنا ہے چھتیس کلومیٹر طویل اور چوبیس کلو میٹر کلو چوڑے دیو سائی میں ایک بُرجی لا کا ٹریک بھی ہے۔ جس کے راستے میں ٹیلے ہیں، ندیاں ہیں، چھوٹی چھوٹی جھیلیں بھی ہیں مگر میں یہ بُرجی لا کا ٹریک نہیں کر سکتا۔ کروں بھی تو کس کے ساتھ؟ میرے پاس دن بھی تو صرف جون جولائی کے ہوتے ہیں اور دیوسائی اپنے جوبن پر شاید اگست میں ہی آتا ہے۔ میں کیسا بد قسمت ہوں کہ اگر میں آواز لگاؤں کہ چلو چلو بُر جی لا چلو تو یقین مانیں کوئی بھی میرے ساتھ نہیں چلے گا اور زندگی کی بے پناہ بہاریں دیکھنے کے باوجود بھی میرے پاس ابھی اتنا حوصلہ اور پیسہ نہیں آیا کہ میں تنہا بُر جی لا کے ٹریک پر قدم رکھ سکوں۔ تو اس خوب صورت مگر تپتے ہوئے دن ہم دیو سائی کی سب سے بڑی جھیل شیو سر کے کنارے سبز ہلالی پرچم کے نیچے تصاویر بنوا رہے تھے اور خواہش کے باوجود ہمارے اوپر کوئی ایک چھوٹا سا بادل بھی سایہ نہ کر سکا۔  معاملہ کچھ یوں تھا کہ اپنے ٹور کے دوسرے دن ہمیں دیوسائی کی جھیل شِیو سر کی طرف جانا تھا۔ میں نے توقیر کا چناؤ صرف اسی لیے کیا تھا کہ صرف توقیر ہی تھا جس نے منی مرگ دومیل کے ٹور کے ساتھ شیو سر کو بھی شامل کیا تھا۔ باقی جتنے بھی ٹور آپریٹر میں نے دیکھے تھے، وہ یا تو شیو سر کو چھوڑ رہے تھے یا پھر ترشنگ کو۔ میں اگرچہ پچھلے سال ترشنگ سمیت بہت کچھ دیکھ چکا تھا مگر پھر بھی دوبارہ سے ہرلنگ کوفل جانے میں حرج ہی کیا تھا۔ ہم سب نے اپنا اپنا چھوٹا سا بیگ پکڑا اور جیپ میں سوار ہوگئے۔ آگے والی سیٹ طارق بھائی نے سنبھال رکھی تھی۔ پیچھے مس فوزیہ اور مس سارہ تھیں اور ہم تینوں یعنی میں، ارسلان اور ایک غیرضروری شخص جس کا میں نام بھول چکا ہوں تیسری سیٹ پر بیٹھے تھے۔ ہم سب کی اچھی بات یہ تھی کہ سبھی کو نوے کی دہائی کے بولی وڈ کے گانے بہت پسند ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اچھی بات یہ تھی کہ صرف نوے کی دہائی ہی نہیں بلکہ ہم سب ہی اس موسیقی کو پسند کرتے تھے جس کی شاعری اچھی ہوتی تھی۔  ہم شیو سر کو چلتے جاتے تھے کہ توقیر نے جیپ رکوا دی۔ یہاں دریائے استور کے گزرنے کا منظر واقعی بہت دل کش تھا مگر جگہ جتنی خوب صورت تھی، اتنی ہی بدبو دار تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ خوب صورت جگہ مقامیوں کے لیے کھلے واش روم کی حثیت رکھتی ہے۔ کچھ دیر یہاں تصاویر بنوائیں اور پھر ’’آئے گا‘‘ آ گیا۔ آئے گا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جہاں مجھے ایک میمنا ملا۔ میمنا  اتنا پیارا تھا کہ اسے دیکھ کر میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اسے فوراً گود میں اٹھا۔  مزید آگے بڑھے تو ایک ایسی جگہ آئی جو کسی لاری اڈے سے کم معلوم نہیں ہوتی تھی۔ یہ چلم چوکی تھی۔ چلم چوکی کا نام بہت سنا تھا مگر دیکھا آج تھا۔ چلم چوکی میں دور دور تک ہریالی ہی ہریالی ہے۔ چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں۔ چند دکانیں بھی ہیں اور ایک گندا سا ہوٹل ہے جس کا کھانا بہت لذیز ہے۔ چلم چوکی میں جیپوں کی پوری مارکیٹ ہے۔ منی مرگ اور دومیل کو راستے یہیں سے جاتے ہیں۔ چلم چوکی پہنچے تو آگے سڑک دو حصوں میں تقسیم ہورہی تھی۔ دائیں جانب والی سڑک منی مرگ جا رہی تھی جب کہ بائیں جانب والی دیوسائی۔ ہم دیوسائی جانے والی سڑک پر مڑ گئے۔ کچھ ہی آگے گئے تو دیوسائی نیشنل پارک کا ایک بڑا سا بورڈ تھا جہاں ایک بورے ریچھ کی تصویر بھی تھی۔ وہ ہمارا واحد بورا ریچھ تھا جس کے ساتھ ہم نے نہ صرف تصویر بنائی بلکہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے اس پر ہاتھ بھی پھیرا۔ یہاں ہماری جیپ کو روک دیا گیا۔ حکم نامہ جاری ہوا کہ تین ہزار دو تب جا کر دیوسائی میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ شادی بیاہ کے موقع پر بھی اکثر سالیاں برات کا راستہ روک لیتی ہیں اور پھر لڑکے والوں سے نیگ لے کر برات کو جانے دیا جاتا ہے۔ برات تو سالیاں روک ہی لیتی ہیں مگر یہ نہ جانے کون سے سالے تھے جنھوں نے ہمیں دیو سائی جانے سے روک دیا تھا اور پورے تین ہزار کا مطالبہ ہمارے سامنے رکھ دیا۔ طارق بھائی چوں کہ فرسٹ سیٹ پر بیٹھے تھے، اس لئے وہ دولہن کے جیٹھ کی حیثیت سے باہر نکلے، سالوں کو تین ہزار روپے دئیے اور پھر برات کو دیو سائی میں جانے کی اجازت ملی۔  ہماری جیپ چلتی جاتی تھی، سڑک قدرے بہتر تھی مگر اتنی بھی بہتر نہیں تھی۔ راستے میں کئی بچے ملے جو سکول کی چھٹی کے بعد اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ کئی خوب صورت چشمے تھے۔ جیپ بس چلتی جاتی تھی کہ یک دم سے ایک منظر کھلا اور جھیل ہمارے سامنے آ گئی۔ کہتے ہیں جہاں جھیل پر پہلی نظر پڑے، آپ کو وہیں رک جانا چاہیے۔ جھیل کی سب سے خوب صورت تصویر وہیں سے بنتی ہے۔ ہم وہیں رک گئے۔ جھیل کی چند تصاویر بنائیں اور پھر آگے چل پڑے۔  میں شیو سر کو دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ ہم غلط وقت پر اسے دیکھ رہے ہیں۔ عورت کی طرح جھیلوں کے ہی کہیں رنگ ہوتے ہیں۔ صبح کے وقت کچھ اور، شام میں کچھ اور۔ میرے خیال میں جھیل اپنی بدصورتی کی انتہا پر اس وقت پہنچتی ہے جب سورج عین اس کے اوپر ہوتا ہے۔ جب ہم شیو سر پہنچے تھے تو سورج بھی ہمارے سروں پر تھا۔ اگر آپ جھیل کو اس کے اصل رنگوں کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں تو صبح کے وقت جھیل پر آئیں یا پھر شام کے وقت۔ دوپہر کے وقت تو سیف الملوک بھی بہت بھدی اور معمولی سی لگتی ہے۔ ہم شیو سر کی کیمپ سائیٹ پر پہنچے تو مس فوزیہ کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ یقیناً یہ بلندی کا ہی اثر تھا۔ فوری پر چائے کا حکم صادر کیا گیا۔ ارسلان کے پاس کسی اچھی نسل کے بسکٹ تھے اور مس سارہ کے پاس دیسی نمکو والا پیکٹ۔ حالاں کہ نمکو کے ساتھ جوڑ کسی اور چیز کا تھا مگر مجبوری میں ہم نے چائے پر ہی گزارہ کیا۔ مس فوزیہ کی طبعیت کچھ بہتر ہوئی اور جھیل کنارے جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم جھیل کنارے چلتے چلتے بہت دور تک چلے گئے۔ اتنا دور کہ جہاں کوئی بھی نہ تھا۔ میں حسبِ عادت گھر سے سبز ہلالی پرچم لایا تھا۔ ہم سب اسی پرچم کے ساتھ تصاویر بنوانے لگے۔ ارسلان ذرا جوان سا لڑکا تھا، وہ براؤن بیئر کی تلاش میں قریبی پہاڑی پر چڑھ گیا۔ بعد میں خبر ہوئی کہ ان پہاڑیوں پر جانا ممنوع ہے اور جس ٹور آپریٹر کا کوئی سیاح ان پہاڑیوں پر چڑھے تو اس ٹور آپریٹر کا لائسنس منسوخ کردیا جاتا ہے۔ نہ جانے یہ بات سچ تھی یا توقیر نے ہم بے وقوفوں کو مزید بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ میں جھیل کی کوئی اچھی سی تصویر بنانے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھا کہ ایک چھوٹا سا بنا ننگا بچہ بھاگتا ہوا آیا اور میرے قریب کھڑا ہوگیا۔ میں نے اسے فوری طور پر سبز پرچم میں لپیٹا اور تصویر بنالی۔ میرے لیے تو شیو سر کی سب سے خوب صورت تصویر اب یہی تھی۔ ہم سب بھی پرچم کے ساتھ ماڈلنگ کرنے لگے۔ ہوا زیادہ تیز تو نہیں تھی مگر اتنی ضرور تھی کہ پرچم لہرا جائے۔ ہماری طرف ہی شیو سر کنارے ایک بڑا سا پتھر تھا جہاں مس فوزیہ اپنا سر پکڑے بیٹھی تھیں۔ میں نے اور مس سارہ نے خود غرضی کا کمال مظاہرہ کرتے ہوئے مس فوزیہ کو وہاں سے اٹھایا اور اس پتھر سے ہوا میں چھلانگ لگاتے ہوئے تصاویر بنوانے لگے۔ اتنے میں ارسلان بھی واپس آ گیا اور توقیر نے ہم سب کی واپسی کا پیام سرِعام سنا دیا۔ ’’اگر میں پھر کبھی شیو سر آیا تو دور اس کنارے پر اپنا کیمپ لگاؤں گا۔ جہاں کوئی نہیں ہو گا، کوئی مجھے نہیں پکارے گا۔ کوئی بھی مجھ سے آشنا نہیں ہو گا۔‘‘ میں نے شیو سر کے دوسرے کنارے کو دیکھتے ہوئے ارسلان سے کہا۔ ’’ہاں اور رات کو پہاڑیوں سے براؤن بیئر آئے گا، وہ نہ تو تم سے تمھارا نام پوچھے گا اور نہ کوئی بات کرے گا، بس چپ چاپ اپنا کام کرے گا اور پھر واپس ان ہی پہاڑیوں کے پار چلا جائے گا۔‘‘ ارسلان نے ہنستے ہوئے مجھے کہا۔ واضح رہے کہ اِس جھیل کا نام ہندو مذہب کے بھگوان شیو کے نام سے منسوب ہے یہ سنسکرت زبان کا نام ہے اور  سر سنسکرت زبان میں جھیل کو کہا جاتا ہے یعنی بھگوان شیو کی جھیل۔ قدیم ادوار میں لوگ یہاں پوجا کے لیے جاتے تھے، یہاں نہاتے بھی تھے۔ یہ نام اپنی قدیمی نام کے ساتھ آج تک بلکل محفوظ ہے۔ اسی طرح استور جانے والے شنکر گڑھ سے بھی گزرتے ہیں۔ یہ بھی ہندو بھگوان کے نام سے بھی منسوب ہے۔ ای طرح گُریز اور سونا مرگ کے درمیان کرشنا سر اور وشنا سر بھی ہندو بھگوان کے نام سے منسوب ہیں۔ یہ بھی قدیم سنسکرت نام ہیں۔  سورج رفتہ رفتہ ڈھل رہا تھا اور ہماری جیپ ایک بار پھر سے واپس چلم چوکی کی طرف جا رہی تھی۔ میں نے شیو سر کو تو دیکھا تھا مگر دیوسائی کے اصل رنگ ابھی دیکھنا باقی تھے۔ ابھی تو میں نے برجی لا بھی کرنا ہے۔ کالے پانیوں تک بھی جانا ہے۔ بڑے پانی کو بھی چھونا ہے۔ علی ملک چوکی پر کھڑے ہوکر تصویر بھی بنانی ہے اور صد پارہ جھیل کو بھی اس کے اصل رنگوں کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کرنی ہے۔  تو ہم سب واپس ہنستے گاتے، خوشی خوشی چلم چوکی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اچھی بات تو یہ تھی کہ جوں جوں ہم اترائی اتر رہے تھے توتوں توں مس فوزیہ کی طبعیت بھی بہتر ہو رہی تھی۔ سچ پوچھیں تو ہم نے ابھی دیوسائی دیکھا ہی نہیں تھا۔ دیو سائی کی ستاروں بھری رات نہ دیکھی تو کیا دیکھا۔ شیو سر پر ٹوٹتا ہوا تارہ نہ دیکھا تو پھر کیا دیکھا۔ رات کہ آخری پہر یہاں اترتی ہوئی پریاں نہ دیکھیں تو کیا خاک دیو سائی دیکھا۔ تو قسم ہے اُس کی جس نے  دیوسائی کو اس قدر بلند بنایا ہے۔ اے دیوسائی میں ایک بار پھر سے آؤں گا اور برجی لا پر قدم رکھوں گا۔ تمھاری وسعتوں کو دیکھوں گا۔ تمھارے پھولوں کو مَسلے بنا، ان کی خوشبو پاؤں گا۔ اگر زندگی مجھ سے دغا نہ کرے اور میرے دل کی دھڑکن بے ترتیب نہ ہو تو اے دیو سائی کے بادلوں تم گواہ رہنا کہ میں تمھیں تمھاری خوب صورت ترین صورت میں دیکھوں گا۔  اے خدا تو نے مجھے دودھی پت سر دکھائی میرے کرومبر جانے کے اسباب پیدا کیے مجھے میری بے ترتیب ہوتی دھڑکن کے ساتھ مکڑا پہاڑ پر چڑھا دیا اے خدا تو نے مجھے رتی گلی کے پانیوں کو چھونے کی توفیق دی تو نے ہی مجھے نرسنگھ پھوار مندر کے خوب صورت پانیوں دیکھنے کا موقع دیا تو نے ہی تو مجھے نانگا پربت کی لاتوبو جھیل کے کنارے سجدہ ریز ہونے اور اس عظیم پہاڑ کو چھونے کی ہمت دی اے خدا میری عرضی ایک بار پھر سن لے دیو سائی کے پھولوں کو اس کے بادلوں کو اور صرف ایک بھورے ہمالیائی ریچھ کو  چند لمحوں کے لیے ہی سہی میرا تابع بنا دے۔ آمین چلم چوکی کیا ہے؟ چلم بنیادی طور پر ایک جنکشن ہے اور چلم کے مقام پر ہی جو فوجی چوکی بنی ہے اسے چلم چوکی کہا جاتا ہے۔ اگر آپ استور کی طرف سے چلم چوکی کی جانب جائیں اور ارادہ سکردو یا دیو سائی جانے کا ہو تو چپ چاپ بائیں جانب چلے جائیں۔ ہمارے پیارے فوجی آپ سے کوئی کلام نہیں کریں گے بلکہ آپ کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے بشرطے کہ آپ بھی ان کی طرف نہ دیکھیں اور چپ چاپ بائیں جانب مڑ کر دیو سائی یا سکردو چلے جائیں۔ اگر آپ ذرا دائیں جانب مڑنا چاہیں تو آپ کو یہاں کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔ قطار میں لگنا پڑے گا، اپنے پاکستانی ہونے کی شناخت کروانا پڑے گی اور پھر آپ کو حقیقت میں جنت نظیر خطہ میں جانے کی اجازت ملے گی جسے آج کل ہم منی مرگ اور دومیل کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ منی مرگ ایک الگ علاقہ ہے اور دومیل الگ اور دونوں کے درمیان کم از کم ایک گھنٹے کی مسافت تو ضرور ہے۔  دیوسائی کو دنیا کا اونچا اور خوب صورت ترین میدان کہا جاتا ہے۔ جہاں میلوں پھیلے سرسبز میدان، دریا اور جھیلیں واقع ہیں۔  دیوسائی میں بہت سارے خوبصورت ٹریک بھی ہیں۔ دیوسائی کو 1943 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔ اسے بورے ریچھ کا گھر بھی کہتے ہیں۔ یہاں مارموٹ، تبتی بھیڑیا، لال لومڑی، اڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ ہجرتی پرندے جن میں گولڈن ایگل، داڑھی والے عقاب اور فلیلکن پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں تقریباً 150 اقسام کی قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ دیوسائی پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک اسکردو سے ہے جب کہ دوسرا استور سے۔ اسکردو سے دیوسائی 35 کلومیٹر اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے میں صدپارہ جھیل اور صد پارہ گاؤں سے ہوتے ہوئے آپ دیوسائی پہنچ سکتے ہیں۔  دیوسائی شینا زبان کا لفظ ہے جو کہ اصل میں ’’دیوسے‘‘ تھا۔ دیو سے مراد دیوتا یا جن ہے اور ’’سے‘‘ سے مراد آبادی ہے۔ یعنی دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے جب کہ بلتی زبان میں اسے یہاں کثیر تعداد میں موجود پھولوں کی وجہ سے بھیئر سر یعنی پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ دیوسائی میں 10 مختلف ٹریکس، 9 پاس اور تین جھیلیں ہیں۔ دیوسائی کے 10 ٹریکس یہ ہیں۔ برجی لا ٹریک، شیلا پاس، بانک لا، الامپی لا، دری لا، ناقپونم سل لا، اسکویو ٹریک، ٹرانگو پیر پاس، ہرپو لا اور کاٹی چو کا ٹریک۔ دیوسائی کی تین جھیلیں شیو سر، کالا پانی اور بڑا پانی ہیں۔  یہاں گلگت بلتستان کے بارے میں آپ کو واضح طور پر بتاتا چلوں کہ گلگت بلتستان آزاد خودمختار علاقہ ہے جو کہ پاکستان کی مرکزی حکومت کے تحت صدر مملکت کے اختیار میں آتا ہے۔ پہلے اسے شمالی علاقہ جاتا ہے۔ پھر 2009 میں نیم صوبائی خودمختاری دیکھ کر اسے گلگت بلتستان کا نام دے دیا گیا۔ اس وقت گلگت بلتستان کی تاریخ کو موضوع بحث لانا میرے مضمون کا حصہ نہیں مگر اتنا بتاتا چلوں کہ بلتستان پر 1840 سے 1947 تک ڈوگرہ راجا کی حکومت رہی۔ آزادی ہند 1947 کے وقت بلتستان کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کے تحت تھا۔ جب انگریزوں نے کشمیر کو تقسیم کی بجائے ہری سنگھ کو بیچ دیا تو بلتستان کے لوگوں نے اس ناانصافی کو ماننے سے انکار کردیا اور آزادی کا اعلان کر کے آزادی کی جنگ شروع کر دی۔ گلگت سے مجاہدین بلتستان تک آ پہنچے۔ اسکردو کا محاصرہ کرلیا ڈوگرہ فوج کے کمانڈروں نے مقابلے کی کوشش کی۔ لمبے محاصرے کے بعد مجاہدین، جو آزاد فوج کا درجہ رکھتے تھے، اسکردو کو فتح کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ مجاہدین نے 26 اگست 1948 کو اسکردو کے پولو گراؤنڈ میں پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا۔  ہم چوں کہ یہاں دیوسائی نیشنل پارک کی بات کر رہے ہیں تو یہ بھی واضح رہے کہ نیشنل پارک یا قومی باغ وہ علاقہ ہوتا ہے جہاں ہر قسم کے جانور کا شکار کرنا اور نباتات کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا جرم ہوتا ہے، بلکہ یہاں کم یا معدوم ہونے والے جانوروں کو قدرتی ماحول میں رکھ کر ان کی افزائش بھی کی جاتی ہے۔ کسی بھی نیشنل پارک کے لیے کم سے کم علاقہ چار مربع کلومیٹر تک ہونا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں 29 نیشنل پارک ہیں جن میں 20 حکومتی جب کہ 9 نجی تحویل میں ہیں۔ ان میں 10 بڑے اور 19 چھوٹے نیشنل پارک ہیں۔ 7 پارک آزاد کشمیر، 6 گلگت بلتستان، 6 خیبر پختونخوا، 6 پنجاب، 2 بلوچستان، 1 سندھ اور 1 اسلام آباد میں ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل