Sunday, October 05, 2025
 

بھارتی ہرزہ سرائی کا صائب جواب

 



پاکستان نے بھارت کی ہرزہ سرائی پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بیانات غیر ذمے دارانہ ہیں، جنوبی ایشیا میں امن واستحکام کو شدید خطرات لاحق اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اگر کوئی مہم جوئی کی گئی تو پاکستان بغیرکسی ہچکچاہٹ کے بھرپور اور فیصلہ کن اور تباہ کن جواب دے گا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے بھارتی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے گمراہ کن، اشتعال انگیز اور جنگجویانہ بیانات پر شدید تشویش کا اظہارکیا ہے اور بھارتی حکام کے غیر ذمے دارانہ بیانات کو جارحیت کے من گھڑت بہانے تراشنے کی نئی کوشش قرار دیا ہے۔ بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خطے میں خود کو ایک بالادست قوت کے طور پر منوانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے وہ سیاسی، سفارتی اور عسکری ہر محاذ پر زور آزمائی کرتا ہے۔ پاکستان چونکہ ایک خود مختار اور باوقار ریاست ہے، اس لیے وہ اس بھارتی عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصورکیا جاتا ہے۔ بھارتی حکام یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان اب دو ہزارکی دہائی کا پاکستان نہیں رہا۔ آج کا پاکستان ایک ایٹمی صلاحیت کا حامل، عسکری لحاظ سے مستحکم اور عوامی شعور سے مالا مال ملک ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے، جس نے ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھارا ہے۔ پاکستان کے عسکری ادارے صرف سرحدوں کی حفاظت نہیں کرتے بلکہ قوم کی امیدوں، امنگوں اور تحفظات کے نگہبان بھی ہیں۔ حالیہ بیانات صرف پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی نہیں بلکہ یہ بھارت کے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک چالاک کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ بھارت اس وقت شدید داخلی مسائل سے دوچار ہے، جن میں اقلیتوں پر مظالم، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں،کسان تحریکیں، معاشی سست روی اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔ ایسے میں دشمن کا ایک عام حربہ ہوتا ہے کہ بیرونی دشمن کی شکل میں عوام کی توجہ داخلی مسائل سے ہٹائی جائے، اور یہی حربہ بھارت کی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے استعمال کر رہی ہے۔ عالمی برادری کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جنگجویانہ بیانیہ نہ صرف خطے میں طاقت کے توازن کو خراب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان بارہا بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر مسئلہ کشمیر، بھارتی مداخلت اور جنگی جنون پر دنیا کو متوجہ کرتا رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے دنیا کا ضمیر اکثر طاقت کے کھیل میں خاموشی اختیار کر لیتا ہے، لیکن پاکستان کا مؤقف ہمیشہ اصولوں پر مبنی رہا ہے، اور یہ مؤقف وقت کی کسوٹی پر پورا اترا ہے۔ بھارت کے اندرونی سیاسی مسائل ، معاشی دشواریاں، سماجی کشیدگیاں اور انسانی حقوق کے حوالے سے اٹھنے والی آوازیں اکثر حکومتوں کو داخلی دباؤ کو بیرونی دشمن کی شکل میں تبدیل کرنے کی طرف مائل کر دیتی ہیں۔ اس حربے کا مقصد عوام کی توجہ ایک بیرونی خطرے کی طرف مبذول کروانا اور داخلی سیاسی چیلنجز سے نظر ہٹانا ہوتا ہے، مگر خطے کے امن کے نقطہ نظر سے یہ ایک خطرناک حکمتِ عملی ہے، جو وقتی فائدے کے لیے بڑے پیمانے پر عدم استحکام اور انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔  یہاں بین الاقوامی برادری کی ذمے داری بھی واضح طور پر عیاں ہوتی ہے۔ عالمی ادارے اور طاقتیں جو خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے کردار ادا کر سکتی ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے بیانات پر تشویش ظاہر کریں اور فریقین کو تحمل و مذاکرات کی طرف راغب کریں۔ کسی بھی مسلح ٹکراؤ کے معاشی، انسانی اور سیاسی نتائج تباہ کن ہوں گے، اس لیے سفارتی کوششوں کو تیز کیا جانا چاہیے۔ خطے میں کسی بڑے تنازعے کا پھیلاؤ نہ صرف علاقائی ممالک کو متاثر کرے گا بلکہ عالمی تجارت، توانائی کے راستے، پناہ گزینی کے مسائل اور دہشت گردی کے ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان نے ہمیشہ یہ پالیسی اختیار کی ہے کہ مسائل کو مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے حل کیا جائے مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا ہے کہ دفاعی تیاری اور قوم کا عزم کسی جرگے کے دروازے بند نہیں ہونے دیتا۔ آئی ایس پی آر کا بیان اسی حقیقت کا عکاس ہے کہ پاکستان ڈپلومیسی اور دفاع دونوں محاذوں پر متوازن حکمتِ عملی اپنائے گا۔ دفاعی استعداد کو بڑھانا اور واضح پیغام دینا محض جارحیت کی آمادگی نہیں، بلکہ دشمن کو قیمت چکا دینے کی صلاحیت کا اظہار بھی ہے، تا کہ کوئی بھی غلط حساب یا مہم جوئی کرنے سے پہلے بار بار سوچے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ایک خود مختار ریاست اپنے دفاع کے طریقہ کار کو مضبوط کرے، یہ اس کی بنیادی ذمے داری ہے۔ مزید یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ عسکری ردعمل اور سفارتی مکالمہ ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ پورے قومی مفاد کا حصہ ہیں۔ مضبوط دفاعی پوزیشن مذاکراتی طاقت کو بڑھاتی ہے، ایک ایسے میز پر جہاں فریقین خود کو برابر محسوس کریں، مسئلے کا حل ممکن ہوتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ علاقائی سلامتی کے لیے پرعزم رہے اور اسی کے ساتھ سفارتی محاذ پر بھی مستعدی دکھائے۔ چین، روس، ایران، اور دیگر بین الاقوامی پارٹنرز کے ساتھ استحکام اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات کو فروغ دینا بھی اس وقت لازمی حکمت عملی ہے تاکہ جو کسی بھی طرح کی کشیدگی ہو، اسے باہمی مشاورت اور ثالثی کے ذریعے کم کیا جائے۔ اگر ہم مستقبل کی سمت کا جائزہ لیں تو ایک حقیقت واضح ہے۔ جنگ کسی بھی طرح سے کسی بھی قوم کے لیے مسئلے کا حل نہیں۔ جیت اور ہار کے روایتی معنی آج کے دور میں ناقابلِ اعتبار ہیں کیونکہ جنگ کے اثرات لاکھوں انسانوں پر پڑتے ہیں، انفرااسٹرکچر تباہ ہوتا ہے، معیشتیں متاثر ہوتی ہیں اور ترقی کے دیرینہ راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بحرانوں کو حل کرنے کا واحد قابل قبول راستہ مذاکرات، اعتماد سازی کے اقدامات اور مشترکہ سیکیورٹی میکنزم کا قیام ہے۔ خطے میں طویل مدتی امن صرف اسی صورت ممکن ہے جب تمام فریقین عسکری حل کوِ قرونِ وسطیٰ سمجھ کر چھوڑ دیں اور جدید بین الاقوامی اصولوں کے مطابق امن کے راستے اختیار کریں۔ پاکستان کی طرف سے جو موقف اختیار کیا گیا ہے اس میں دعویٰ یہ بھی شامل ہے کہ بھارتی بیانات ’’ من گھڑت بہانے تراشنے‘‘ کی کوشش ہیں، لہذا اس حقیقت کو بے نقاب کرنا ضروری ہے، اس طرح کے بیانیے جب روشن کیے جاتے ہیں تو عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی ادارے بھی ان کا نوٹس لیتے ہیں۔ شفافیت، دستاویزات اور بین الاقوامی قانونی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کو اپنی بات عالمی فورمز پر مضبوط انداز میں پیش کرنا چاہیے تاکہ حقائق عوامی اور بین الاقوامی سطح پر واضح ہوں اور بھارت کی یک طرفہ مہم جوئی کے پیچھے چھپے سیاسی مقاصد عیاں ہو جائیں۔  اہم نکتہ یہ ہے کہ عوامی شعور اور ریاستی موقف کا تسلسل امن کی ضمانت کے لیے ضروری ہے۔ پاکستانی قوم میں اپنے دفاع کے جذبے کے ساتھ ساتھ امن کے لیے قوتِ ارادی بھی موجود ہے۔ اس قوت کا استعمال یوں کیا جائے کہ ہم اپنے خطے کو تباہی کے دہانے سے واپس لائیں۔ معاشی تعاون، تجارتی رابطے، عوامی تبادلے اور ثقافتی روابط خطے کو قریب لا سکتے ہیں اور جنگی جذبات کو کمزور کر سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کو پہچاننا چاہیے کہ باہمی انحصار نے دنیا کے کئی خطوں میں پائیدار امن قائم کیا ہے، اسی سوچ کو اپنانا ہم سب کا مشترکہ فائدہ ہوگا۔ آخر میں ایک بات قطعی اور لازمی طور پر کہنی ہوگی کہ پاکستان نے واضح انداز میں کہا ہے کہ کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں وہ جواب دینے سے نہیں ہچکچائے گا۔ یہ موقف دفاعی عزم کا آئینہ دار ہے، مگر ساتھ ہی پاکستان نے ہمیشہِ کہا ہے کہ وہ امن کا خواہاں ہے۔ امن اور دفاع کے اس توازن کو برقرار رکھنا، فریقین کے لیے مفید فہم و فراست اور بین الاقوامی برادری کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لے، جارحانہ زبان ترک کرے اور بات چیت کے ذریعے تنازعات کا حل تلاش کرے۔ ورنہ خطے کا سب سے بڑا نقصان اسی اشتعال انگیزی سے ہوگا جس کا آغاز آج کے بیانات میں واضح دکھائی دیتا ہے۔  امن صرف نعروں سے یا جارحیت کے جواب میں جارحیت سے قائم نہیں رہ سکتا۔ امن وہ راستہ ہے جو حکمت، بردباری، مضبوط دفاع اور دیانتدارانہ مذاکراتی عمل کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ پاکستان نے اپنی صفِ اول کی حفاظت کا عزم ظاہرکیا ہے، اب بین الاقوامی برادری، خطے کے دوسرے ممالک اور خصوصاً بھارت کی ذمے داری ہے کہ وہ اسی شعوری اور عملی سطح پر قدم بڑھائے، تا کہ جنوبی ایشیا کے عوام کو مزید ایک ایسے دور کا سامنا نہ کرنا پڑے جس میں ان کے بچوں کے مستقبل کے خواب تباہ ہو جائے۔ امن ممکن ہے، مگر اس کے لیے گروہِ حاکم اور عوامی شعور دونوں کو زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہوئے عمل کرنا ہوگا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل