Loading
دنیا میں دو بڑے تنازعات کشمیر اور فلسطین نے عالمی امن اور انسانی حقوق کے احترام کے آگے بڑے سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا لیکن مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا کوئی قابل قبول حل آج تک تلاش نہ کیا جا سکا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ جیسے عالمی امن کے ضامن ادارے کا قیام عمل میں آیا جس کا بنیادی مقصد عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا، اقوام عالم کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا، انسانی مسائل کے حل کے لیے بین الاقوامی تعاون کو یقینی بنانا اور انسانی حقوق و بنیادی آزادیوں کا احترام اور ان کی پاس داری کو فروغ دینا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 1 میں مذکورہ مقاصد بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے اپنے قیام 24 اکتوبر 1945 کے بعد سے آج پون صدی گزرنے تک اقوام متحدہ نے دنیا کے دو بڑے اور حساس تنازعات مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے اپنی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں کیا کردار ادا کیا؟ عالمی امن کے بڑے ممالک جنھیں ویٹو کا اختیار حاصل ہے امریکا، برطانیہ، چین، روس اور فرانس نے مذکورہ تنازعات کے حل میں کیا کردار ادا کیا؟ افسوس کہ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے نے جنوبی ایشیا کے امن کو داؤ پر لگا رکھا ہے تو دوسری جانب اسرائیل نے فلسطین پر اپنی جبری حاکمیت سے مشرق وسطیٰ کے امن کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ ان دونوں بڑی ریاستوں کے آگے یکسر مجبور و بے بس نظر آتا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے ریاستی جبر و ستم سے نہتے کشمیریوں پر ظلم و استبداد کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جب کہ اسرائیل اپنے آقا و سرپرست امریکا کی آشیرباد سے فلسطین کے معصوم و بے گناہ مردوں، عورتوں، بچوں اور نوجوانوں پر آتش و آہن کی برسات کر رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے تھے تو انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق دنیا میں جاری جنگوں کو روکیں گے اور تنازعات کو حل کروا کے امن قائم کریں گے، بجا کہ انھوں نے پاک بھارت اور ایران اسرائیل جنگ رکوا کر خطے کو ایک بڑی اور خوفناک جنگی تباہی سے بچانے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے اور وہ بجا طور پر اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کا اعلانیہ اظہار بھی کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر پاکستان نے صدر ٹرمپ کو اس بنیاد پر نوبل پرائز کے لیے نامزد بھی کیا ہے۔ لیکن دوسری جانب مسئلہ فلسطین کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا کردار ان کی دہری پالیسی کا عکاس ہے۔ اسرائیل فلسطین میں دو سال سے جنگی بربریت اور ننگی جارحیت کا مسلسل مظاہرہ کر رہا ہے اور صدر ٹرمپ اسے روکنے پر آمادہ نہیں۔ ایران اسرائیل جنگ کے دوران آخری دن ایران پر حملے کے لیے اڑنے والے اسرائیلی طیاروں کو نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کے ایک حکم پر فوراً واپس بلوا لیا تھا۔ ابھی چار روز پیش تر صدر ٹرمپ کے کہنے پر اسرائیلی وزیر اعظم نے قطر کے وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر معافی مانگی اور آیندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اگر صدر ٹرمپ حکم دیں تو غزہ میں جنگ بندی پر فوری عمل درآمد ہو سکتا ہے۔ لیکن امریکا اور اسرائیل کی خواہش یہ ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو کسی صورت بے دخل کرکے یہودی آبادکاری کو توسیع دی جائے۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ شہر کا مرکزی راستہ بند کر دیا ہے اور اسرائیل نے فلسطینیوں کو غزہ شہر سے انخلا کے لیے آخری وارننگ بھی دے دی ہے۔ غزہ کے فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مر جائیں گے لیکن غزہ سے نہیں جائیں گے۔ سلامتی کونسل میں جنگ بندی اور انسانی امداد سے متعلق قرار داد کو امریکا نے ویٹو کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے میں غیر سنجیدہ ہے۔ غزہ میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی پر اس نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ وہاں بھوک اور قحط سے جنم لینے والے انسانی المیے پر دنیا بھر میں احتجاج ہو رہا ہے لیکن امریکا و اسرائیل دونوں غزہ میں امدادی سامان پہنچنے میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں جس کی تازہ مثال اسپین سے روانہ ہونے والے امدادی سامان کے بحری قافلے ’’صمود فلوٹیلا‘‘ کی کشتیوں پر اسرائیلی ’’بحری قزاقوں‘‘ نے حملہ کرکے امدادی کارکنوں کو یرغمال بنا لیا جس پر عالمی سطح پر سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے اور امدادی کارکنوں کی رہائی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں لیکن اسرائیل نے کارکنوں کو رہا نہیں کیا۔ ادھر صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی فلسطینی امن منصوبے پر بھی مختلف النوع سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور اسے فلسطینیوں کے مفادات و حقوق غصب کرنے، حماس کو غیر موثر کرنے اور اسرائیل کو فلسطین میں راہداری دینے کی خفیہ منصوبہ بندی قرار دیا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کی نمایندہ تنظیم حماس نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جب کہ ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دی ہے کہ وہ معاہدہ قبول کرے ورنہ سنگین نتائج بھگتنے کو تیار رہے۔ حکومت پاکستان نے بھی ٹرمپ کے 20 نکات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ قطر نے بھی امن منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں فلسطینیوں کے دیرینہ مطالبات کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ دیگر اسلامی ملکوں کا ایسا ہی موقف بھی جلد سامنے آ جائے گا۔ گویا ٹرمپ کا امن منصوبہ فلسطینیوں، حماس اور اسلامی دنیا کو قبول نہیں ہے جو ٹرمپ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل