Monday, October 06, 2025
 

زیرِزمین خزانہ

 



صدی کی دریافت نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ زمین اپنی تہوں میں کبھی خاموش نہیں رہتی۔ وہ ہمیشہ ایسے راز سنبھالے رکھتی ہے جو ایک نہ ایک دن انسان کی آنکھوں کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ یوروگوئے کے دارالحکومت مونٹیویڈیو میں بھی یہی ہوا۔ محض ایک معمولی تعمیراتی منصوبہ، یعنی میوزیو ہسٹوریکو کابیلدو میں لفٹ لگانے کا کام، اچانک اس قدر بڑی دریافت کا سبب بن جائے گا، یہ کسی نے سوچا نہ تھا۔ لیکن مزدوروں کے اوزار زمین کی ان گہری تہوں کو چھو گئے جہاں صدیوں پرانی تہذیب اپنی خاموش گواہیاں سنبھالے بیٹھی تھی۔ یہ دریافت محض نوآبادیاتی اینٹوں یا چند ٹوٹی پھوٹی اشیاء کا انبار نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی تاریخ ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسانی زندگی پانی کے گرد کس طرح گھومتی رہی ہے۔ آثارقدیمہ کی ماہر نیکول دے لیون اور ان کی ٹیم نے جو ڈھانچے اور نوادرات برآمد کیے، ان سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ نوآبادیاتی دور سے لے کر یوروگوئے کی آزادی کے ابتدائی برسوں تک پانی ہی اصل محور تھا۔ مونٹیویڈیو چوںکہ قلعہ بند شہر تھا، اس لیے جب کبھی دشمن کا حملہ ہوتا یا محاصرہ کیا جاتا تو شہر کا بیرونی دنیا سے رشتہ منقطع ہوجاتا۔ ایسے وقتوں میں بقا کا دارومدار صرف داخلی آبی ذخائر پر ہوتا تھا۔ یہاں دریافت ہونے والا قدیم آبی ماخذ، جسے ’’فاؤنٹین آف لائف‘‘ کہا گیا، اپنی نوعیت کا منفرد سرمایہ ہے۔ یوروگوئے کی نائب وزیرِتعلیم و ثقافت انا ریبیرو کے مطابق، اُس وقت ہر چشمہ اور ہر کنواں ایک حکمتِ عملی کی لکیر تھا۔ وہ محض سہولت نہیں بلکہ شہری دفاع کا ستون تھے، جس شہر کے پاس پانی تھا، وہ زندہ رہتا، اور جس شہر سے پانی چھن جاتا، وہ شکست کھا جاتا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ مونٹیویڈیو کے مختلف چشموں کے بارے میں مقامی لوگوں کے الگ الگ عقائد تھے۔ مغربی چشمے زیادہ صاف اور میٹھے پانی کے سبب اعلیٰ سمجھے جاتے تھے۔ انہی سے متعلق ایسی داستانیں جنم لیتی تھیں کہ کچھ پانی معجزاتی تاثیر رکھتا ہے۔ لوئیس ماسکاریناس، جو ابتدائی آبادکاروں میں شامل تھے، کا چشمہ اس حوالے سے سب سے زیادہ شہرت یافتہ تھا۔ کہا جاتا تھا کہ اس کا پانی بیماریوں کو دور کرتا اور انسان کی توانائی بحال کرتا ہے۔ آج جب ماہرین اس نئی دریافت کو اُس مشہور چشمے کے ساتھ جوڑتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ وہی چشمہ ہے جس کی داستانیں صدیوں سے زبان زدِعام ہیں؟ اگر یہ درست نکلے تو یہ دریافت صرف آثارِقدیمہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی وراثت کی بازیافت ہوگی۔ لیکن یہ معاملہ صرف پانی کی فراہمی یا معجزاتی کہانیوں تک محدود نہیں رہتا۔ برآمد شدہ ڈھانچے ہمیں اُس وقت کے معاشرتی فرق، صفائی کے طریقوں، خوراک کے ذرائع اور طبقاتی امتیازات کی جھلک بھی دکھاتے ہیں۔ پانی کی تقسیم ہمیشہ طاقت کا کھیل رہا ہے۔ جس کے پاس پانی کا اختیار ہوتا، وہ سماج پر حکم رانی کرتا۔ آج بھی یہی حقیقت دنیا کے بیشتر خطوں میں نظر آتی ہے۔ اگر ہم وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو لاطینی امریکا کی نوآبادیاتی سیاست بھی پانی اور قدرتی وسائل کے گرد گھومتی رہی۔ یورپی نوآبادکار جب نئی دنیا میں آئے تو ان کی پہلی ترجیح ہمیشہ پانی کے قریب بستیاں بسانا تھی۔ اسپین، پرتگال اور بعد ازاں برطانیہ و فرانس نے جب لاطینی امریکہ میں اپنے قدم جمائے تو وہ جانتے تھے کہ پانی کے بغیر ان کے قلعے اور تجارتی مراکز زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ریو دے لا پلاٹا جیسے خطے میں پانی کے ذرائع کو سنبھالنے کے لیے شدید مسابقت رہی۔ مقامی باشندوں کی زمینیں ہتھیائی گئیں، چشمے اور دریا ان کے ہاتھ سے چھین لیے گئے، اور نوآبادیاتی قوتوں نے اپنی بالادستی کے لیے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ یوروگوئے کی حالیہ دریافت اسی نوآبادیاتی تناظر کو پھر سے زندہ کرتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ پانی محض ایک قدرتی نعمت نہیں بلکہ ایک تاریخی وسیلۂ طاقت ہے، جس معاشرے نے اسے بہتر طور پر منظم کیا، وہ ترقی کرگیا۔ جس نے اسے ضائع کیا یا اس کی ناانصافی سے تقسیم کی، وہ زوال پذیر ہوا۔ اگر ہم ماضی سے حال کی طرف پلٹیں تو یہ دریافت ایک اور بڑی حقیقت کو بھی عیاں کرتی ہے۔ آج اکیسویں صدی میں جب ہم سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی اور جدید شہروں کے قصے سناتے ہیں، تب بھی صاف پانی تک رسائی ایک عالمی بحران ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق دنیا کی ایک بڑی آبادی اب بھی محفوظ پانی سے محروم ہے۔ افریقہ کے صحراؤں سے لے کر ایشیا کے شہروں تک، پانی کا مسئلہ بدستور انسانیت کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ مونٹیویڈیو کا یہ چشمہ ہمیں بتاتا ہے کہ ماضی کے لوگ بھی انہی چیلینجوں سے دوچار تھے۔ وہ اپنے قلعے کے اندر پانی کے ذخائر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ اور آج کے انسان کے لیے بھی صورت حال زیادہ مختلف نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت محاصرہ دشمن فوج کرتی تھی اور آج کا محاصرہ ماحولیاتی تبدیلی، آلودگی اور غیرمساوی تقسیم نے کر رکھا ہے۔ یہ دریافت ایک اور نکتہ بھی اجاگر کرتی ہے کہ انسان ہمیشہ پانی کو محض حیاتیاتی ضرورت نہیں سمجھتا رہا۔ اُس نے اسے روحانی اور تہذیبی معنی بھی دیے۔ کسی چشمے کو معجزاتی کہا گیا، کسی کو تقدس بخشا گیا، اور کسی کو زندگی کا سرچشمہ قرار دیا گیا۔ آج کے دور میں بھی پانی کی یہی حیثیت برقرار ہے۔ ہم اسے محض ایک سائنسی کیمیکل H2O نہیں کہہ سکتے، یہ ایک تہذیبی علامت ہے، ایک بقا کا استعارہ ہے۔ اس دریافت کی روشنی میں ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ مستقبل کے شہروں کی منصوبہ بندی کس بنیاد پر کی جائے۔ کیا ہم پانی کے ماخذوں کو محفوظ بنا رہے ہیں؟ کیا ہم دریاؤں، جھیلوں اور زیرِزمین ذخائر کو بچا پا رہے ہیں؟ یا ہم بھی اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا بحران چھوڑ رہے ہیں جس کا حل شاید اُن کے پاس بھی نہ ہو؟ مونٹیویڈیو کے زیرِزمین دفن یہ کنویں اور چشمے ہمیں خاموش زبان میں یہی سبق دیتے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ مٹی میں چھپی رہتی ہے لیکن وقتاً فوقتاً ہمیں آئینہ دکھانے کے لیے سامنے آ جاتی ہے۔ یہ آئینہ محض ماضی کا نہیں بلکہ حال اور مستقبل کا بھی ہے۔ یوروگوئے کی اس دریافت نے ایک بار پھر انسان کو یاد دلایا ہے کہ زندگی کا اصل محور پانی ہے۔ تہذیبیں اسی کے گرد ابھرتی اور ڈوبتی ہیں۔ چاہے وہ نوآبادیاتی مونٹیویڈیو ہو یا آج کا جدید شہر، انسان کی کہانی ہمیشہ پانی کے ساتھ جڑی رہے گی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل