Loading
کراچی میں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں آنکھوں کی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔
اس بات کا انکشاف طبی ماہرین نے کیا اور بتایا کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں آنکھوں کی بیماری ریٹینوپیتھی آف پریمچوریٹی کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔
طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بروقت اسکریننگ نہ ہونے کی صورت میں یہ بیماری بچوں کو مستقل نابینا بنا سکتی ہے۔
اس حوالے سے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جناح اسپتال کراچی کے شعبہ امراض چشم کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اسرار احمد بھٹو نے بتایا کہ ریٹینوپیتھی آف پریمچوریٹی (آر او پی) ایک ایسی بیماری ہے جو قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ بچے جو 30 ہفتے سے پہلے پیدا اور ان کا وزن ڈیڑھ کلو سے کم ہو تو ان میں آر او پی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس مرض کی کوئی واضح علامات نہیں ہوتیں تاہم ایسے بچوں کی آنکھ کی خون کی نالیاں غیر معمولی طور پر بڑھتی ہیں اور یہ تبدیلیاں صرف ماہر ڈاکٹر ہی دیکھ سکتے ہیں۔
اُن کے مطابق آر او پی کے پانچ مراحل ہیں، جن میں چوتھا اور پانچواں اسٹیج سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ ان مراحل میں والدین کو بچے کی آنکھ میں بھینگا پن، آنکھ کا مسلسل حرکت کرنا یا سفید جھلی جیسا پردہ نظر آ سکتا ہے۔
ڈاکٹر اسرار کے مطابق 30 ہفتے سے پہلے اور ڈیڑھ کلو سے کم وزن والے ہر بچے کی اسکریننگ ضروری ہے، زیادہ تر ایسے بچے این آئی سی یو میں ہوتے ہیں، اسپتال میں موجود جدید ریڈ کیم کے ذریعے بچوں کی آنکھوں کی تصاویر لی جاتی ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ بیماری کس اسٹیج پر ہے اور بچے کو آپریشن، لیزر یا ہفتہ وار انجیکشنز (چار سے پانچ ڈوزز) کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر اسرار نے مزید کہا کہ اگر بچہ 24 سے 28 ہفتوں میں پیدا ہو تو اس کی عمر گنتے ہوئے 31 ہفتے پر اسکریننگ کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں ایسے علاج کی سہولیات کم تھیں لیکن آج بھی غربت اور غذائی قلت کے باعث قبل از وقت بچوں کی پیدائش بڑھ رہی ہے جس سے آر او پی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جناح اسپتال کراچی میں آر او پی کا مکمل پروگرام موجود ہے جس میں خصوصی کلینکس، ماہر ڈاکٹر اور تقریباً 4 کروڑ 70 لاکھ روپے مالیت کا ریڈ کیم شامل ہے۔ یہ پروگرام جناح اسپتال اور پیشنٹ ایڈ فاؤنڈیشن کے اشتراک سے چلایا جاتا ہے، جس کے تحت بچوں کو 90 ہزار روپے مالیت کا انجیکشن مفت لگایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اسرار کے مطابق کسی بچے کو چار تو کسی کو پانچ انجیکشنز ہفتہ وار لگائے جاتے ہیں۔ کراچی کے بڑے نجی اسپتالوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور کوئٹہ سے بھی بچے یہاں ریفر کیے جاتے ہیں کیونکہ پورے کراچی میں ریڈ کیم صرف جناح اسپتال میں موجود ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر بروقت علاج نہ ہو تو بچہ نابینا بھی ہوسکتا ہے۔
جناح اسپتال کی آر او پی اسپیشلسٹ ڈاکٹر عارفہ فاروق نے بتایا کہ وہ اسپتال میں آر او پی سے متاثرہ بچوں کی اسکریننگ اور علاج کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اب تک ڈھائی ہزار بچوں کی اسکریننگ کر چکی ہیں جن میں سے ساڑھے تین سو سے چار سو بچوں کا علاج مفت کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسپتال آنے والے بچوں میں 25 سے 28 فیصد بچے آر او پی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بیماری اکثر ان بچوں میں ہوتی ہے جنہیں پیدائش کے وقت آکسیجن دی جائے اور جن کا وزن دو کلو سے کم ہو، ایسے بچوں کی پیدائش کے 30 دن کے اندر اسکریننگ ضروری ہے تاکہ آنکھ کے پردے اور خون کی نالیوں کی نشونما کا جائزہ لیا جاسکے۔
انہوں نے ڈاکٹرز سے اپیل کی کہ وہ ایسے بچوں کو بروقت جناح اسپتال بھیجیں تاکہ ان کا وقت پر علاج ممکن ہو سکے۔
آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے انٹرم چیئر آف تھلمولوجی ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں ریٹینوپیتھی آف پریمیچیورٹی (آر او پی) کے کیسز بڑھ رہے ہیں اور بروقت اسکریننگ نہ ہونے کی صورت میں بچوں کی بینائی متاثر ہو سکتی ہے۔
ڈیپارٹمنٹ کے مطابق آر او پی اس وقت ہوتا ہے جب قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی ریٹینا کی نشوونما رک جاتی ہے یا غیر معمولی خون کی نالیاں بننا شروع ہو جاتی ہیں، زیادہ خطرے والے عوامل میں کم وزن، زیادہ آکسیجن کی فراہمی، خون کی کمی یا خون کی منتقلی اور سانس کی تکلیف شامل ہیں۔
ابتدائی مراحل میں اس بیماری کی کوئی واضح علامات نہیں ہوتیں،اس لیے والدین عام طور پر اس کو نہیں پہچان سکتے، بیماری کے بڑھنے پر ریٹینا کی خون کی نالیاں پھیلی ہوئی اور موڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں،جبکہ شدید کیسز میں ریٹینا الگ ہونے لگتا ہے۔
ماہرین کے مطابق علاج نہ ہونے کی صورت میں اندھے پن کا خطرہ رہتا ہے، محدود اسکریننگ پروگرام، عملے اور والدین میں آگاہی کی شامل ہیں علاج و تشخیص میں خلل پیدا کررہی ہیں،علاج کے لیے لیزر تھراپی، اینٹی وی جی ایف انجیکشنز اور شدید کیسز میں سرجری کے آپشن موجود ہے۔ بروقت علاج سے بینائی محفوظ ہو سکتی ہے، مگر بعض بچوں میں بینائی کی کمزوری کی شکایت دیکھی جاتی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل