Loading
غزل بے سبب آوارگی سے دل کو بہلاتا تھا میں شام ہو جاتی تو گھر واپس پلٹ جاتا تھا میں اب کئی لوگوں میں ہو کر بھی بہت تنہا ہے وہ کیسے اس کی اک صدا پر دوڑتا آتا تھا میں جس جگہ بھی پاؤں دھرتا روشنی ہو جاتی تھی جن دنوں اس کی گلی میں ناچتا گاتا تھا میں دو دنوں میں اسکا اصلی رنگ ظاہر ہوگیا دھوکہ کھاتا تھا پر اتنی جلدی کب کھاتا تھا میں گھر کے پہلو سے گزرتی زندگی کی روڈ پر شور تو ہوتا تھا لیکن سن نہیں پاتا تھا میں اب وفاداری کے دعووں پر ہنسی آجاتی ہے پہلے پہلے تو خوشی سے جھوم ہی جاتا تھا میں ان دنوں مجھ میں ذرا سی بھی کشش ہوتی نہ تھی پھر بھی آئے دن نئے تاروں سے ٹکراتا تھا میں نیند سے کچھ دور ہوتا ہے علاقہ خواب کا روز اٹھ کے اپنے گھر والوں کو سمجھاتا تھا میں (احمد اویس ۔فیصل آباد) غزل ہم ان کے پاس سے گزرے ہیں مسکراتے ہوئے کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے خدا کے نام پہ فی الفور مانگ لیتے ہیں ترے فقیر تجھے حالِ دل سناتے ہوئے اگرچہ آس نہیں ہے مگر نکالیں گے تمھارے خواب کی تعبیر گنگناتے ہوئے نئی نئی ہے محبت سو احتیاط کے ساتھ گلی سے تیری میں گزرا ہوں سر جھکاتے ہوئے میں نامراد محبت کو خرچ کر ڈالوں اگر وہ پاس بلا لیں مجھے ہنساتے ہوئے ندیمؔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس کے سوا کوئی ملا ہی نہیں تجھکو جی جلاتے ہوئے (ندیم ملک ۔نارووال ،کنجروڑ) غزل ہم دہرِ بے ثبات سے اکتا گئے ہیں دوست رشتوں سے ذات پات سے اکتا گئے ہیں دوست ممکن نہیں تو کس سے کریں دردِ دل بیاں کاغذ قلم دوات سے اکتا گئے ہیں دوست اک حادثے کے بعد نیا ایک حادثہ انبارِ حادثات سے اکتا گئے ہیں دوست دل میں ہے خواہشات کا تانتا بندھا ہوا ہم اپنی خواہشات سے اکتا گئے ہیں دوست جن کی ہر ایک بات پہ آمین کہتے تھے ان کی ہر ایک بات سے اکتا گئے ہیں دوست (اے آرنازش۔ فیصل آباد) غزل سینے میں چھپا لاتا ہوں ہر بار محبت فی الحال زمانے کو ہے درکار محبت اجسام اگر صدق و مروت سے جُڑے ہوں کر دیتی ہے ارواح کو سرشار محبت جب گردشِ آلام نے مجبور کیا تو کر لوں گا کوئی تازہ و دم دار محبت وہ قافلے وہ شوق کے رہرو نہیں ملتے اب ڈھونڈیے اس دشت میں سرکار محبت دکھ یہ ہے کہ دنیا میں کسی کام نہ آئی جامی ؔیہ میری مونس و خوددار محبت (مستحسن جامی۔خوشاب) غزل میں نقشِ پا سہی، مری اپنی سڑک تو ہے مرکز سے چاہے دور ہوں، مجھ میں چمک تو ہے سورج کی دوسری طرف آباد ہوتے ہم رنگِ دگر سہی وہاں امکانِ حق تو ہے ہئیت سے ماورا ہے لسانی جمالیات پانی کا اصل ذائقہ زیرِ نمک تو ہے منھ زور بد تمیز بلا کی حسین ہے لہجے میں گر نہیں ہے بدن میں لچک تو ہے تو کیا؟ اگر میں سیکھ لوں تسلیم کا عمل چہرے پہ میرے کثرتِ رد کی جھلک تو ہے پہلے تو بادبان تھے کارِ ہوس میں ہم اب دونوں کی زبان پہ تھوڑی جھجھک تو ہے آب و ہوا سے بڑھ کے ہے تاثیرِ بندگی تخلیقِ دو جہاں میں اِسی کی چمک تو ہے (توحید زیب ۔رحیم یار خان) غزل مجھ کوتمھارے جیسا مقدر نہیں ملا رہنے کو دَر ملا تھا مگر، گھر نہیں ملا دل نے دماغ سے ہے کری جب بھی گفت گو روتے ہوئے ملا اُسے ہنس کر نہیں ملا صدیاں گزر گئی ہیں اِسی انتظار میں لیکن مرے مزاج کا پیکر نہیںملا رشتوں میں پیار بھاؤ کی صورت ملا مگر میں چاہتی تھی جس کو وہ آ کر نہیں ملا کوشش تو کی بہت کے رکھیں رابطہ مگر سگنل نہیں ملا کبھی نمبر نہیں ملا ملَّت کو جو سنوار سکے ایسا آج تک اچّھا ہمارے ملک کو لیڈر نہیں ملا جب بھی ملا ہے جھک کے ملا ہے مجھے عمودؔ سایہ بھی میرے قد کے برابر نہیں ملا (عمود ابرار احمد۔ کراچی) غزل جشن کے گیت سے فریاد نہیں ملتی ہے اُس کہانی سے یہ روداد نہیں ملتی ہے ایسا لگتا ہے کہ مزدور کو اُجرت نہ ملی اچھے اشعار پہ جب داد نہیں ملتی ہے کیا کروں سانس بھی لینا ہوا دشوار بہت دل کو تسکین تِرے بعد نہیں ملتی ہے کیسے کرلوں تِری یادوں کے محل کو مسمار اس عمارت کی تو بنیاد نہیں ملتی ہے جو خوشی اپنے مقدر میں نہ لکھی ہو کبھی مان لے اے دلِ ناشاد! نہیں ملتی ہے ہوں وہ دہقان جسے بیج میسّر ہی نہیں بیج مل جائے تو پھر کھاد نہیں ملتی ہے ان وباؤں کو خبر ہے کہ مرے شہر کے لوگ جب نہ مرجائیں تو امداد نہیں ملتی ہے ننگِ اسلاف بنے ہیں سو بہ ہر طور ہمیں دولتِ ورثۂ اجداد نہیں ملتی ہے دشتِ فرقت کا وہ پیاسا ہوں کہ مجھ کو صادقؔ بوند پانی کی بھی اِک آدھ نہیں ملتی ہے (محمد ولی صادق۔کوہستان لوئر) غزل ہم سخن گو ایک دن سب رایگاں رہ جائیں گے بس ہمارے حرف ہیں جو جاوداں رہ جائیں گے سائے تک جسموں کے وہ لے جائے گا دے کر صدا دھوپ میں تنہا جھلستے سائباں رہ جائیں گے تم محبت میں اناڑی ہو اسی سے دیکھ لو جیسے تم نے مجھ کو چوما ہے نشاں رہ جائیں گے سر کسی سے بھی نہ ہو پائے گا وہ دشتِ وجود خاک اڑاتے کارواں کے کارواں رہ جائیں گے وہ حسیں بانہیں ہمارے جسم کو ٹھکرا نہ دیں یوں ہوا تو کس قدر ہم بے اَماں رہ جائیں گے آئنے میں بال آ جائے تو جا سکتا نہیں بد گماں رہنا ہے جن کو بدگماں رہ جائیں گے میں سمندر کی رعونت چھین لوں اس سے اگر ہر طرف پھیلے ہوئے کوہِ گراں رہ جائیں گے وقت آ بیٹھے گا اس میں اور آخر پر یہاں ناؤ رہ جائے گی ٹوٹے بادباں رہ جائیں گے شاہ زادی عشق کر بیٹھے گی دشمن سے مقیمؔ میرے ہاتھوں میں فقط تیر و کماں رہ جائیں گے (رضوان مقیم۔ فیصل آباد) غزل اس جہانِ فانی کا ہر نشاں بدلتا ہے وقت کے گزرنے پر سائباں بدلتا ہے ظلم کرنے والے نے یہ کبھی نہیں سوچا ظلم حد سے بڑھنے پر حکمراں بدلتا ہے حوصلہ نہ کھو دینا مشکلوں سے گھبراکر آدمی کی تقدیریں امتحاں بدلتا ہے سب کی ہی نگاہیں اب ناخدا پہ ہیں لیکن ہر سفینے کی قسمت بادباں بدلتا ہے خاک میں نہ مل جائے حسرتیں لئے اپنی دل میں آرزو لے کر آستاں بدلتا ہے عمر بھر نہیں ملتی پھر اسے کوئی منزل کچھ ہی دور چل کر جو کارواں بدلتا ہے اس لئے بھی کرتا ہوں اس کو میں نظر انداز ہر کسی سے ملتے ہی داستاں بدلتا ہے کتنی حسرتوں سے وہ تکتا ہے در و دیوار جب کسی کا دنیا میں آشیاں بدلتا ہے اس کا غم نہیں کرنا اپنی زندگانی میں وقت پڑنے پر منظر ہم زباں بدلتا ہے (منظر اعظمی۔بھارت) غزل الفت اسی کے زور سے یکسر ہے مر چکی نفرت جہاں میں جب سے بسیرا ہے کرچکی ہوتے ہیں اپنے قول سے کیوں لوگ منحرف یہ بات میرے دل میں نہ اب تک اتر چکی صادق ہوں، نہ عابد ہوں، نہ اخلاق کا پیکر بن ان کے بتا کس کی ہے عقبیٰ سنور چکی؟ اب تک کسی کے کام نہ آئے، نہ خود کے کام یہ کیسی زندگی تھی جو ایسے گزر چکی غربت تو ہے پہلے سے اسی حال کا مارا تیور سے گرانی کے امارت بھی ڈر چکی (محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات) غزل الٹی سیدھی پڑی بساط کا خوف دشتِ امکاں میں حادثات کا خوف مرض سے یہ نکلنے دے گا نہیں بے ضروری سی احتیاط کا خوف دنیا داروں سے بھی زیادہ ہے دین داروں کی دینیات کا خوف سامنے سے مجھے رقیب کا ڈر پیچھے سے دوستوں کی گھات کا خوف دل میں انبارِ خواہشاتِ حیات اور دوائی میں نمکیات کا خوف (جام جمیل احمد۔رحیم یارخان) غزل تیری چوکھٹ پہ آ کے نکلے گی سانس میری وہ آخری ہو گی میرے پہلو میں تم نہیں ہو گے کتنی پہلو میں بے کلی ہو گی جاں کی بازی نہیں لگاتے تم زندگی بھیک میں ملی ہو گی جان پائے نہ تیری مکاری سادہ لوگوں کی سادگی ہو گی سارے دریا کا پی گیا پانی کیا کہوں کتنی تشنگی ہو گی آج ساگر ؔکا دل ہے افسردہ بات بھاری وہ کہہ گئی ہو گی (رجب علی ساگر ۔ڈیرہ اسماعیل خان) سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘ روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل