Loading
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں حکومت کو ایک اور کامیابی ملی،جب سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو آئینی بنچ کیلئے نامزد کرنے کی تجویز 7 سے 6 کی اکثریت سے مسترد کر دی گئی۔ کمیشن کے عدالتی ارکان بشمول چیف جسٹس یحییٰ آفریدی چاہتے تھے تمام ججوں کو آئینی بنچوں کیلئے نامزد کیا جائے تاہم ان کی تجویز کو حکومتی نمائندوں نے قبول نہیں کیا ۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل چاہتے تھے تمام ججوں کو آئینی بنچ کیلئے نامزد کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر اور علی ظفر نے ان کے موقف کی حمایت کی تاہم جسٹس امین الدین خان نے تمام ججوں کو نامزد کرنے کی حمایت نہیں کی۔ اسی طرح، پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے بھی اس کی توثیق نہیں کی۔سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا نے کہا یہ افسوس ناک فیصلہ ہے، عدلیہ کی آزادی مکمل سلب ہو چکی ،پاکستان بار کونسل کے نمائندے ہمیشہ گروپ کی طرز پر ووٹ دیتے ہیں۔ موجودہ آئینی بنچ کی کارکردگی مایوس کن اور عدالتی طاقت سے محروم ہے۔بعد ازاں موجودہ آئینی بنچ کی توسیع پر ووٹنگ ہوئی۔ اکثریتی ارکان نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں موجودہ آئینی بنچ کی مدت میں 6ماہ کی توسیع کی توثیق کی تاہم ججوں کی نامزدگی کے حوالے سے قواعد وضع کرنے پر اتفاق نہیں کیا۔ اس سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے کمیشن کا رکن ہونے پر زور دیا تھاکہ مجوزہ قواعد میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے آئینی بنچوں کے لیے ججوں کی نامزدگی اور تعداد کے تعین کیلئے طریقہ کار اور معیار فراہم کرنا چاہیے۔ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر صلاح الدین احمد کہتے ہیں آخر کار حکومت کو اپنا راستہ مل گیا اور یہ خاص بنچ حکومت کے دل کے قریب تمام مقدمات کی سماعت کرے گا۔ حکومت اور عدلیہ کے درمیان علیحدگی کی تصوراتی علامت بھی ہوا میں اچھال دی گئی ۔ اب وقت آگیا ہے تمام جج عدلیہ کو حکومت کا ماتحت محکمہ بننے کی اجازت دینے میں اپنے کردار کا از سر نو جائزہ لیں۔ اسی طرح، پاکستان بار کونسل کو بھی حکومتی موقف پر وفاداری سے عمل کرنے کی بجائے آزاد عدلیہ سے وابستگی پر زور دینا چاہیے۔ منظور شدہ قواعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کل عام کئے جائیں گے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل