Loading
طالبان کے سینئر اور اہم وزیر کو ملک میں لڑکیوں تعلیم پر عائد پابندی ختم کرکے تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے بیان کے بعد انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور افغانستان چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ گارجین کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے سینئر رہنما اور نائب وزیرخارجہ محمد عباس استنکزئی نے 20 جنوری کو صوبہ خوست میں منعقدہ گریجویشن کی تقریب میں تقریر کے دوران حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم پر عائد پابندی پر تنقید کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس حوالے سے نہ تو اس وقت اور نہ ہی مستقبل میں کوئی بہانہ ہو سکتا ہے، ہم دو کروڑ شہریوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔ افغانستان کے سینئر وزیر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ پیغمر محمدﷺ کے دوران میں مرد اور خواتین دونوں کے لیے تعلیم کے دروازے کھلے ہوئے تھے، کئی عظیم خواتین تھیں جنہوں نے شان دار خدمات انجام دیں اور اگر میں بیان کرنے لگ جاؤں تو بڑا وقت لگے گا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس تقریر کے بعد طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ نے مبینہ طور پر نائب وزیرخارجہ کی گرفتاری کا حکم دیا اور بیرون ملک جانے پر پابندی کے احکامات جاری کردیے۔ مزید بتایا گیا کہ سپریم لیڈر کے ان احکامات کی وجہ سے محمد عباس استنکزئی کو افغانستان چھوڑ کر متحدہ عرب امارات منتقل ہونا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق محمد عباس استنکزئی نے مقامی میڈیا کو تصدیق کی ہے کہ وہ دوبئی جاچکے ہیں لیکن بتایا کہ وہ طبی مسائل کی وجہ سے یہاں منتقل ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب طالبان حکومت یا کسی عہدیدار کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ خیال رہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان میں حکومت بنائی تھی اور اس کے بعد ملک میں لڑکیوں کی تعلیم اور نوکری پر پابندی عائد کردی ہے اور عوامی مقامات پر اکیلے سفر کرنے سمیت دیگر پابندیاں لگائی ہیں۔ عالمی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے اسی پالیسی کی بنیاد پر گزشتہ ماہ مطالبہ کیا تھا کہ طالبان کے سپریم لیڈر اور افغانستان کے چیف جسٹس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے جائیں کیونکہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے والا سلوک انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل