Loading
پاکستان کا ایک بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا ہے۔دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ نئی نہیں ہے بلکہ پچھلی کئی دہائیوں سے ہمیں مختلف نوعیت کی دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔دہشت گردی سے جڑے مسائل کا تعلق ایک طرف ہماری داخلی سیاست سے ہے تو دوسری طرف ہمیں علاقائی اور عالمی سطح سے جڑے معاملات میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔ حالیہ کچھ برسوں میں پاکستان کو افغانستان سے دہشت گردوں کی در اندازی کے خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان بار بار افغانستان کو یہ باور کرا چکا ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ لیکن نہ تو عالمی دنیا نے اور نہ ہی افغانستان نے اس معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت کی ہے۔ افغانستان سے ہمارے معاملات میں کافی بداعتمادی پائی جاتی ہے۔ افغانستان وہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو پاکستان چاہتا ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت زیادہ شدت بھی آئی ہے اور تیزی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ عالمی دہشت گردی انڈیکس 2025 میں پاکستان دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی رپورٹ میں گزشتہ 17 سال کے دوران دہشت گردی کے رجحانات اور اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔2024 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2023 میں 517 حملے رپورٹ ہوئے جو 2024 میں بڑھ کر 1099 ہو گئے ہیں جو گزشتہ ایک دہائی میں سب سے بڑا سالانہ اضافہ ہے۔اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے جو 2024 میں پاکستان میں 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمے دار تھی۔گزشتہ برس ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے جو 2023 کی 293 ہلاکتوں کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہے۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد دہشت گردوں کو وہاں محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں اور اسی وجہ سے خیبر پختون خواہ دہشت گردی کا بڑا مرکز بنا ہوا ہے۔ پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گرد تواتر کے ساتھ متحرک ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف یہ جنگ جیتنے کے لیے پاکستان کو عالمی اور علاقائی تعاون درکار ہے۔ علاقائی سطح پر اس جنگ سے نمٹنے کے لیے جو عملی اقدامات درکار ہیں، ان کا فقدان تمام سطح پر غالب نظر آتا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اگر امریکا اپنے چھوڑے ہتھیار افغانستان سے واپس لے تو خطے میں امن بحال ہو سکتا ہے۔ادھر افغانستان الٹا پاکستان کے خلاف الزام تراشی کررہی ہے ۔ اصولی طور پر تو اہل مستحکم اور پرامن افغانستان ہی اس خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہو اور وہ افغانستان میں موجود مسلح گروہوں کا خاتمہ کرے ۔پاکستان نے کئی بار افغان طالبان حکومت کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ان کی مدد اور تعاون کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔لیکن افغان طالبان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو ہمارے تحفظات ہیں ان پر کوئی توجہ دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ یقینی طور پر ہمیں افغان طالبان پر دوحہ معاہدے کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے اور یہ کام بڑی طاقتوں کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم داخلی معاملات میں بہت برے طریقے سے پھنسے ہوئے ہیں اور سیاسی کھینچا تانی بھی واضح ہے۔خیبر پختون خوا میں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ مگر سیاسی کھینچا تانی بھی اس صوبے میں واضح طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمارے داخلی حقائق کافی تلخ ہیں۔ سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرتے نظر نہیں آتی۔یہ معاملات ہم نے مکمل طور پر سیکیورٹی اداروں تک محدود کر دیے ہیں۔اس عمل میں سیاسی قیادت ،سیاسی جماعتیں، ارکان پارلیمنٹ اور خود پارلیمنٹ کا کوئی کردار واضح اور شفاف نظر نہیں آتا۔اس لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ محض سیکیورٹی ادارے نہیں جیت سکتے۔ اس کے لیے سیاسی قیادت سمیت دیگر فریقین کو فرنٹ فٹ پر اس جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پہ ہمیں ایک بڑی جنگ لڑنی ہے۔کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جو پاکستانی ریاست کا بیانیہ ہے اس کی قبولیت عالمی اور علاقائی ممالک اور فورم تک قبول کروانا ہے۔اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان داخلی سطح پر مضبوط ہو اور یہ ہی مضبوطی ہمیں سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر کھڑا کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔اگر ہم نے محض سیاسی اسکورنگ کی بنیاد پر اس جنگ کی ناکامی خیبر پختون خواہ کی پی ٹی ٹی آئی حکومت پر ڈالنی ہے تو اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔خیبر پختون خواہ حکومت اور وفاقی حکومت کا آپس میں بیٹھنا اور مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا دہشت گردی کے خاتمے میں مدد دے سکتا ہے۔ ہمیں ایسی کوششوں کو آگے بڑھانا ہوگا کہ ہم علاقائی ممالک کی حکومتوں کی مدد کے ساتھ ساتھ داخلی عزم اور اتحاد سے افغانستان کو یہ باور کروائیں کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے معاملے میں پاکستان کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح جو ہم نے وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ایپکس کمیٹیاں بنائی ہیں ان کو زیادہ فعال بنانا ہوگا اور ان کمیٹیوں میں سیاسی قیادت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت میں خود کو پیش کرنا ہوگا۔اسی طرح دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہم نے جو بھی ادارے جن میں نیکٹا بھی شامل ہے بنائے ہیں ان کی فعالیت کو یقینی بنانا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو دہشت گردی کے خلاف ایک پیج پر آنا ہوگا۔ ایسے شواہد بھی ملے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں دہشت گردی کے واقعات میں داعش کا بھی ہاتھ ہے۔ہم نے مجموعی طور پر انتہا پسندی یا دہشت گردی کے معاملات میں بہت سے امور پر کمزوری دکھائی ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اس جنگ میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو ہماری پالیسیاں تھیں اس میں بھی کافی تضاد تھا اور انھی تضادات کی وجہ سے ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے تھے ۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر ہم عوامی اتفاق رائے دہشت گردی کے خلاف دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے پہلے سیاسی اتفاق کی رائے درکار ہے۔ 2014 میں جو نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اور جس کے 20 نکات تھے اس پر بھی ہم مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کر سکے۔آج بھی اگر ہم دیانتداری سے نیشنل ایکشن پلان کا تجزیہ کریں تو اس میں ہماری داخلی کمزوریوں کے پہلو نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔اس لیے جہاں ہمیں افغانستان سے شکایات ہیں اور جو بجا ہے لیکن ضروری ہے کہ ہم اپنا داخلی احتساب بھی کریں اور اپنے داخلی معاملات کو بھی درست کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ اس کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ممکن نہیں ہوگا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل