Monday, March 10, 2025
 

’’ معافیاں ‘‘

 



پاکستان کی سیاست نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ہم نے ایسے سیاستدان بھی دیکھے ہیں جنھوں نے ملک سے وفا میں اپنی سیاست قربان کی ہے۔ ایسے سیاستدان بھی دیکھے ہیں جنھوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے ملک سے بے وفائی بھی کی ہے۔ ایسے سیاستدان بھی دیکھے ہیں جنھوں نے ملک کی خاطر اقتدار قربان کیا ہے۔ ایسے سیاستدان بھی دیکھے جنھوں نے اقتدار کی خاطر ملک بھی قربان کیا ہے۔ ملک توڑنے والے سیاستدان بھی دیکھے ہیں، ملک جوڑنے والے سیاستدان بھی دیکھے ہیں۔دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے والے سیاستدان بھی دیکھے ہیں۔ دشمن کے ہم نوا بننے والے سیاستدان بھی دیکھے ہیں۔ہم نے غیرمقبول سیاستدان کو مقبول بنتے اور مقبول سیاستدان کو غیر مقبول بنتے بھی دیکھا ہے۔ سیاست عجیب کھیل ہیں یہاں ہیرو سے بندہ زیرو بھی ہو جاتا ہے اور پھر زیرو سے ہیرو بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاستدان جب تک نہیں مرتا تب تک اس کی سیاست بھی نہیں مرتی۔ سیاستدان کے پاس سیاسی غلطیاں سدھارنے کا موقع رہتا ہے۔ وہ عوام سے اپنی غلطیوں کی معافیاں بھی مانگتا ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی معافی مشکل ہوتی ہے۔ معافی مانگ کر بھی ان کو معافی نہیں ملتی ہے۔  سیاسی غلطیوں کی تو معافی ہوتی ہے۔ لیکن جب آپ اپنے ملک کے خلاف سیاست کریں تو اس کی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ ریاست کو بھی معاف نہیں کرنا چاہیے اور عوام کو بھی معاف نہیں کرنا چاہیے۔ ملک پہلے‘ سیاست بعد میں، یہ ہم سب کو سمجھنا چاہیے۔ اس اصول کو سامنے رکھ کر ہی عام آدمی کو بھی سیاسی فیصلے کرنے چاہیے۔ آج کل بانی ایم کیو ایم بار بار معافیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی معافیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ دیگر اداروں کے سربراہوں سے بھی معافیاں مانگ رہے ہیں۔ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں پر بھی معافی مانگ رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جب کوئی جماعت مشکل میں ہوتی ہے یا کوئی لیڈر مشکل میں ہوتا ہے تو اس سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، وہ غلط باتیں بھی کر لیتا ہے لیکن پھر جب حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں تو پھر وہ غلط باتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ ریاست کو بھی غلط باتوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ بانی ایم کیو ایم اب ذہنی طور پر شکست کھا گئے ہیں۔ وہ اب ایک ہارے ہوئے سیاستدان کی طرح سرنڈر کر رہے ہیں۔ انھیں اندازہ ہوگیا ہے کہ پاکستان کے خلاف نعرہ لگا کر انھوں نے ایک فاش غلطی کر دی تھی اور اس غلطی کی وجہ سے ان کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ وہ بندہ جو کل تک خود کو کراچی کا مالک کہتا تھا۔ اب اس کا کراچی میں کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہے۔ اس کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ اس کی دہشت ختم ہو گئی ہے۔ جس نیٹ ورک پر اس کو بہت مان تھا وہ ختم ہو گیا ہے ۔ کبھی اس کے ٹکٹ پر لوگ لاکھوں ووٹ لیتے تھے۔ آج اس کے نام پر کوئی الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ اس کی جماعت کے جو لیڈر اس سے ڈرتے تھے آج انھوں نے اس کی جگہ کمان سنبھال لی ہے۔ اس کی صرف سیاست ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کا خوف بھی ختم ہو گیا ہے۔ اس کے لوگ ہی اس کو اب چھوڑ گئے ہیں۔ یہ سب کیوں ہوا کیونکہ اس نے پاکستان کے خلاف نعرہ لگایا۔ اس ایک نعرہ نے اس کی سیاست ختم کر دی ہے۔ آج وہ اس غلطی پر معافیاں مانگ رہا ہے۔ توجیحات پیش کر رہا ہے۔ لیکن کوئی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ان کا باب ختم ہوگیا۔ ان کی زندگی میں ان کی سیاست ختم ہوگئی۔ بلا شبہ وہ پاکستان کی سیاست میں نشان عبرت بن گئے۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر بانی ایم کیو ایم معافیاں کیوں مانگ رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے پاکستان کے جو دشمن بانی ایم کیو ایم کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے تھے جنھوں نے پاکستان کے خلاف نعرہ لگوایا‘ انھوں نے بھی بانی ایم کیو ایم کی سیاست سے منہ موڑ لیا ہے۔ وہ اب ان کے لیے بھی ناکارہ ہو گئے ہیں۔ اسی لیے اب ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ انھیں یہ سمجھ نہیں آئی دشمن بھی انھیں ان کی سیاسی اہمیت کی وجہ سے لفٹ کروا رہا تھا۔ جب ان کی سیاست ہی ختم ہو گئی تو وہ بھی دشمن کے لیے کسی کام کے نہ رہے۔ وہ سب کے لیے بے فائدہ ہو گئے ۔لگتا ہے بانی ایم کیو ایم کو لڑ ائی کے سواکچھ نہیں آتا۔ا سی لیے وہ آرمی چیف کو بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر انھیں موقع دیا جائے تو وہ ملک سے لڑنے کے لیے ایک لاکھ نوجوانوں کادستہ تیار کر کے دیں گے۔ شاید انھیں اس کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا۔ پہلے وہ یہ کام دشمن کے لیے کرتے تھے اب جب دشمن نے لفٹ ختم کر دی ہے تو آرمی چیف کو اپنی دستیابی سے آگاہ کر رہے ہیں۔ لیکن شاید انھیں علم نہیں کہ پاکستان کے نوجوان ملک پر جان دینے پر فخر کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے قوم کو ان کی یا کسی اور باغی سیاستدان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ان کی دکان ختم ہو گئی۔ بانی ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں باقی سیاستدانوں کے لیے ایک سبق ہیں کہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے بعد پاکستان میں کوئی سیاست ممکن نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ پاکستان کے خلاف بات بھی کریں اور پھر پاکستان میں سیاست بھی کریں۔ آج مجھے بانی ایم کیو ایم کے علاوہ بھی کچھ ایسے نام نظر آتے ہیں جو پاکستان کے خلاف سیاست کر رہے ہیں۔ ان کے عزائم بھی ٹھیک نہیں۔لیکن بانی ایم کیو ایم کے انجام نے ان کو روک دیا ہے۔ وہ گفتگو میں احتیاط برت رہے ہیں، وہ سیاسی کارروائیوں میں احتیاط کر رہے ہیں۔ ہمیں اب یہ واضح کرنا ہوگا کہ اب نہ تو کسی کو بانی ایم کیو ایم بننے دیں گے اور نہ ہی کسی کو پاکستان کے خلاف سازش کرنے دیں گے۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت بانی ایم کیو ایم کا انداز اپنانے کی بہت کوشش کر رہی ہے۔ نو مئی کو بھی ایسی کوشش کی گئی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے جیسے بانی ایم کیو ایم کو کوئی معافی نہیں ایسے ہی نو مئی والوں کو بھی کوئی معافی نہیں ملنی چاہیے۔ وہ بھی پاکستان پر حملہ تھا‘اس پر بھی کوئی رعائت نہیں ہو سکتی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل