Loading
وزیر اعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ جب تک سیاستدان آپس میں لڑتے رہیں گے ملک میں ہائبرڈ نظام ہی چلے گا۔ پتا نہیں کہ ملک کی اپوزیشن کو کب سمجھ آئے گی کہ سیاسی مسائل کا حل سیاستدانوں کی باہمی بات چیت ہی میں ہے اور سیاستدانوں کے آپس میں مل بیٹھنے سے ہی سیاسی اختلافات ختم ہو سکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ 2024 کا یہ پہلا الیکشن نہیں جس کو اپوزیشن متنازع بنا رہی ہے جب 2018 کے الیکشن کے نتیجے میں ہم اپوزیشن میں تھے تو ہم نے بھی الیکشن کو متنازع کہا تھا کیونکہ آر ٹی ایس کا معاملہ بڑا پیچیدہ تھا اور ہمارا مطالبہ تھا کہ ہماری 52 نشستیں پی ٹی آئی کو دی گئی ہیں۔ ملک میں ہر الیکشن کو متنازع قرار دیا گیا مگر انتخابات کے معاملے کو سیاستدانوں نے ہی ٹھیک کرنا ہے اس لیے سیاستدانوں کو آپس میں لڑنے کے بجائے آپس میں بیٹھ کر معاملات طے کرنے چاہئیں۔ سیاستدانوں نے اب بھی حقائق کا ادراک نہ کیا اور آپس میں یوں ہی لڑتے رہے تو ملک میں جاری ہائبرڈ نظام ہی برقرار رہے گا۔ سینئر سیاستدان رانا ثنا اللہ نے اپنے ایک انٹرویو میں جو حقائق بیان کیے ہیں وہ سو فی صد درست ہیں اور سیاستدان ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور شخص بھی اس حقیقت کو تسلیم کرے گا کہ ملک میں جو ہائبرڈ نظام چل رہا ہے اس کے برقرار رہنے کی واحد وجہ باہمی سیاسی اختلافات اور سیاستدانوں کا آپس میں لڑنا اور تقسیم رہنا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ملک کے دولخت ہونے کی ایک اہم وجہ بھی سیاستدانوں کا آپس میں لڑنا تھا جس کی وجہ سے جنرل یحییٰ کے کرائے گئے 1970 کے پاکستان میں کرائے گئے انتخابات تھے جو موجودہ انتخابات کی طرح انتہائی متنازع تو نہیں تھے مگر مشرقی پاکستان کے انتخابات کو مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے تسلیم نہیں کیا تھا کیونکہ عوامی لیگ نے مغربی پاکستان کے برعکس مشرقی پاکستان کے انتخابی نتائج کے باعث صرف دو نشستوں کے علاوہ مشرقی پاکستان سے تمام نشستیں جیت لی تھیں مگر شیخ مجیب کے مغربی پاکستان کے انتخابی دورے کے باوجود عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان کے علاوہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں سے کوئی نشست نہیں ملی تھی مگر ملک میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد وہ وفاقی حکومت بنانے کے حق دار تھے مگر مغربی پاکستان کے دو صوبوں سندھ و پنجاب میں واضح کامیابی حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی اور صدر جنرل یحییٰ کو عوامی لیگ کو اقتدار دینا قبول نہ تھا کیونکہ دونوں کے سیاسی مفادات تھے اور جنرل یحییٰ صدر رہنے کے خواہش مند تھے اور پی پی کے چیئرمین زیڈ اے بھٹو خود وزیر اعظم بننا چاہتے تھے جب کہ اکثریت کے باعث عوامی لیگ کو اقتدار ملنا چاہیے تھا۔ مغربی پاکستان کے سیاستدانوں میں صرف بھٹو صاحب عوامی لیگ کے اقتدار کے خلاف تھے جب کہ اس وقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اکثریت حاصل کرنے والی نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی کو کوئی اعتراض نہیں تھا جس کے نتیجے میں بھٹو صاحب اور شیخ مجیب کی اقتدار کی لڑائی تھی اور ملک کے سیاستدان پہلی بار لڑے اور تقسیم ہوئے تھے جس کا نتیجہ ملک کے تقسیم ہونے میں نکلا اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کا اقتدار ملا جنھوں نے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے اتفاق اور سیاستدانوں کے باہمی اتحاد سے 1973 کا متفقہ آئین منظور کرایا تھا۔ 1973 کے آئین کے تحت وزیر اعظم بھٹو نے اپنے مقصد کے لیے 1977 میں انتخابات کرائے اور پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت دلائی تھی مگر انتخابی نتائج کو بھٹو مخالف اپوزیشن اتحاد نے مسترد کر دیا تھا اور دوبارہ منصفانہ انتخابات کا مطالبہ کیا تھا جو بھٹو صاحب نے فوری طور تسلیم کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کی دوبارہ حکومت بنائی اور 5 جولائی 1977 میں ملک میں مارشل لا لگ گیا تھا اور سیاستدانوں کی آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں جس کا فائدہ غیر سول حکومت نے اٹھایا جس کو بعض سیاستدانوں کی حمایت حاصل تھی جس کے بعد سے سیاستدانوں کی لڑائیاں اب تک جاری ہیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی میں سربراہی بے نظیر بھٹو کو ملی اور جنرل ضیا الحق نے محمد خان جونیجو کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ بنوائی جو 1988 میں باہمی لڑائی اور تقسیم کا شکار ہوئی جس کے متعدد گروپ بنے۔ پیپلز پارٹی میں بھی بھٹو صاحب کے بعد متعدد گروپ بنے مگر 1988 میں جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد ملک میں دو بڑی سیاسی قوتیں پی پی کی بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف کی شکل میں ابھریں اور دونوں1999 تک چار بار باری باری وزیر اعظم بنے مگر مدت کوئی پوری نہ کر سکا اور دونوں کی حکومتیں کرپشن اور بیڈ گورننس کے باعث پہلے اپنے ہی صدور اور آخر میں جنرل پرویز کے ہاتھوں برطرف ہوئیں اور جنرل پرویز نے کوشش شروع کی کہ وہ دونوں پھر اقتدار میں نہ آ سکیں مگر بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ان کا منصوبہ ناکام رہا مگر ان کے اقتدار میں ہی لندن میں بے نظیر اور نواز شریف نے متحد ہو کر سیاسی معاہدہ کر لیا جس کے بعد دونوں کی پارٹیوں کو اقتدار ملا مگر 2011 میں تحریک انصاف اقتدار کی دوڑ میں شریک ہوئی ۔پی ٹی آئی کا اقتدار آئینی طور پر ختم ہوا جس کو پی ٹی آئی اب بھی غیر قانونی برطرفی قرار دیتی آئی ہے۔ پی ٹی آئی نے سیاستدانوں کی لڑائی کو عروج پر پہنچا رکھا ہے اور بانی پی ٹی آئی کی دوہری پالیسی اپنی رہائی کے لیے چل رہی ہے جو خود حکومت سے مذاکرات کے بجائے بالاتروں سے مذاکرات کی کوشش میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں سیاستدان پھر تقسیم ہو کر آپس میں سیاسی لڑائی لڑ رہے ہیں مگر بانی پی ٹی آئی دیگر حکومتی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں بلکہ مخالفین کو سیاسی مخالف کے بجائے ذاتی دشمن بنائے بیٹھے ہیں تو یہ لڑائی کیسے ختم ہو سکتی ہے؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل