Loading
گزشتہ مضمون میں ہم نے فلسطینی مسلح مزاحمت کے پہلے ہیرو عزالدین القسام کی شخصیت اور مستقبل کی مزاحمتی تحریکوں پر ان کے اثرات کی تصویر کشی کی۔القسام نے جس طرح لڑتے ہوئے جان دی اس کے بعد فلسطین میں مسلسل غصے کے بارود کو محض ایک تیلی دکھانے کی ضرورت تھی۔اور یہ تیلی القسام کی موت کے پانچ ماہ بعد پندرہ اپریل انیس سو چھتیس کو دکھا دی گئی جب مغربی کنارے کے شہر تلکرم اور انباتا کے درمیان دو یہودی آبادکاروں کا قتل ہوا۔ گزشتہ روز جوابی کارروائی میں تل ابیب کے مضافات میں دو عرب مزدور قتل کر دیے گئے۔یوں اگلے تین برس چار ماہ ایک ہفتے کے لیے فلسطین سہہ طرفہ جنگ ( برطانوی انتظامیہ ، یہودی اقلیت ، عرب اکثریت ) کی لپیٹ میں آ گیا۔اس دور کو کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔بغاوتِ عظیم ، انقلابِ فلسطین ، شورشِ عظمی ، پہلا عظیم انتفادہ وغیرہ وغیرہ ۔ عرب ہائر کمیٹی کی قیادت نے برطانوی صیہونی گٹھ جوڑ کے خلاف قومی ہڑتال کی اپیل کی اور یہ ہڑتال چھ ماہ تک جاری رہی۔بیسیوں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔سولہ مئی انیس سو چھتیس کو یومِ فلسطین قرار دیا گیا۔اکتوبر تک جب عدم تشدد کا سیاسی راستہ اختیار کرنے پر بھی سنجیدہ فلسطینی شنوائی کی دال نہ گلی اور نہتے مظاہروں کا جواب طاقت سے دیا گیا اور عرب دیہی آبادی کی بے چینی دبانے کے لیے بندوق مسلسل استعمال ہوئی تو عرب اکثریت نے بھی اپنی شہری بورژوا قیادت کی احتیاطی حکمتِ عملی کو پرے رکھ دیا اور پھر جس فریق کا جہاں بس چلا اس نے وہی کیا جو اس کے خیال میں درست تھا۔ عرب بورژوا قیادت میں بھی پھوٹ پڑ گئی۔ایک دھڑا برطانوی انتظامیہ کا ہم خیال ہو گیا اور دوسرے دھڑے نے فاشسٹ اٹلی اور نازی جرمنی سے مدد کی خاطر رابطے سے بھی دریغ نہیں کیا۔یہودی آبادکاروں نے شورش کچلنے میں برطانوی انتظامیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ یوں فلسطینیوں کی پہلی بڑی مزاحمتِ آزادی حسبِ خواہش ہدف حاصل کیے بغیر سختی سے دبا دی گئی۔مگر ان سوا تین برسوں نے جو چنگاری لگائی وہ آنے والی عرب نسلوں کو آج تک حوصلہ دے رہی ہے۔ فلسطینی مورخ ولید خالدی کے مطابق لگ بھگ پچاس ہزار برطانوی فوجی نفری ، تین ہزار پولیس فورس ، صیہونی ہگانہ ملیشیا اور ارگون ملیشیا کی علی الترتیب پندرہ ہزار اور دو ہزار نفری کے استعمال کے نتیجے میں ساڑھے تین برس کے دوران پانچ ہزار بتیس عرب شہید اور چودہ ہزار سات سو ساٹھ زخمی ہوئے۔لگ بھگ تیرہ ہزار عرب گرفتار ہوئے۔ایک سو آٹھ عربوں کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ جاں بحق ہونے والے عربوں میں سے تین ہزار آٹھ سو بتیس برطانوی پولیس اور فوج کا نشانہ بنے۔جب کہ بارہ سو کے لگ بھگ دھشت گرد کارروائیوں میں مار دیے گئے۔پانچ سو سے زائد یہودی اور دو سو باسٹھ برطانوی فوجی یا پولیس والے یا اہل کار مارے گئے۔ایک تخمینہ کے مطابق یہ شورش اتنی وسیع تھی کہ بیس تا ساٹھ برس تک کا ہر دسواں فلسطینی ہلاک ، زخمی ، گرفتار یا جلاوطن ہوا۔ فلسطینیوں کی طرف سے عرب ہائر کمیٹی ، فسیل عرب ملیشیا ، نیشنل جہاد کمیٹی ، بیورو آف عرب ریوولٹ ، سوسائٹی فار ڈیفنس آف فلسطین اور ہمسایہ ریاستوں کے رضاکار اس شورش کا حصہ بنے۔ ہر سیاسی بغاوت و شورش کی تہہ میں بالٓاخر معیشت نکلے گی۔پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں جہاں بڑی بڑی معیشتوں کا باجا بج گیا وہاں چھوٹی سی فلسطینی زرعی معیشت کس گنتی شمار میں تھی۔ فلاحین ( کسان ) پہلے ہی عثمانیوں اور پھر برطانویوں کے عائد کردہ ٹیکسوں تلے دبے ہوئے تھے۔اوپر سے خشک سالی ، زرعی اجناس کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی اور پھر انیس سو تیس کی عالمی کساد بازاری کا عذاب الگ سے درپیش تھا۔اور سب سے بڑا مسئلہ زمین کے بھوکے صیہونی آبادکاروں کی جانب سے اراضی کی منصوبہ بند خریداری مہم تھی۔اس بحران کا اندازہ یوں لگا لیں کہ انیس سو اکتیس تک لگ بھگ چھ لاکھ فلسطینی کسانوں کے پاس ایک لاکھ چھ ہزار چار سو دونم ( تقریباً چھبیس ہزار تین سو ایکڑ ) قابلِ کاشت زمین تھی۔جب کہ پچاس ہزار یہودی آبادکار ایک لاکھ دو ہزار دونم ( پچیس ہزار آٹھ سو ایکڑ ) زرعی اراضی کے مالک بن چکے تھے۔( دونم اراضی کے سائز کا قدیم ترک پیمانہ ہے۔ ایک دونم لگ بھگ ایک چوتھائی ایکڑ کے برابر ہے )۔ مزید یہ کہ یہودی جو بھی زمین خریدتے۔ان کی کوشش ہوتی کہ عرب ہاریوں کو بے دخل کر کے تارکینِ وطن یہودیوں کو بطور مزدور ترجیح دیں۔ سرکاری سطح پر بھی عربوں کا بنیادی دھاڑی معاوضہ یہودی کارکنوں سے کم رکھا گیا۔یوں عرب مزدوروں کے معاشی استحصال کا ایک اور در کھل گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو تہائی فلسطینی کہ جن کا رزق ہی زمین سے جڑا ہوا تھا۔ جوق در جوق معاشی مہاجر بنتے چلے گئے اور دیگر علاقوں سے مزدوری کی تلاش میں آنے والے زمین سے اکھڑے عربوں کی کچی آبادیوں کا حیفہ اور جافا کے اردگرد حجم بڑھتا چلا گیا۔یہی لاکھوں بے روزگار و نیم روزگار آنے والی مزاحمتی تحریکوں کا بنیادی خام مال بنے۔ ان کے پاس کھونے کو بھی کچھ نہ بچا تھا۔عز الدین القسام کی مسلح جدوجہد میں انھی محروموں نے ہراول کردار ادا کیا۔ دوسری جانب یہودی آبادی کو صیہونی قیادت دھڑا دھڑ یورپ سے فلسطین منتقل کرنے میں جٹی ہوئی تھی۔انیس سو انتیس کے عرب یہود فسادات میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان نے صیہونی قیادت کو سختی سے قائل کر دیا کہ جب تک آبادی کا توازن حق میں نہیں ہوتا تب تک اس سرزمین میں بھی یہودی غیر محفوظ رہیں گے۔ جب برطانیہ نے انیس سو اٹھارہ میں فلسطین ترکوں سے چھینا تو یہودیوں کی تعداد ستاون ہزار تھی۔انیس سو تینتیس تا چھتیس کے تین برس میں ایک لاکھ چونسٹھ ہزار یہودی نووارد فلسطین پہنچائے گا۔انیس سو اکتیس تا چھتیس کے چار برس میں یہودی آبادی پونے دو لاکھ سے بڑھ کے تین لاکھ ستر ہزار تک بڑھ گئی۔یعنی ان چار برس میں یہودی آبادی فلسطین کی کل آبادی کے سترہ فیصد سے بڑھ کے ستائیس فیصد تک پہنچ گئی۔ انیس سو چھتیس کے صرف ایک برس میں ساٹھ ہزار نئے یہودی فلسطینی ساحل پر قانونی و غیر قانونی طریقوں اور راستوں سے پہنچائے گئے۔جب بلی کو بھی چاروں طرف سے گھیرا محسوس ہو تو وہ راستہ لینے کے لیے گھیرا کرنے والوں کے گلے پر جھپٹ پڑتی ہے۔فلسطینی تو پھر انسان تھے۔وہ آخر خود کو نیم انسان کے درجے پر دھکیلنے والوں کو کتنا اور کہاں تک برداشت کرتے؟ (جاری ہے) (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل