Friday, August 01, 2025
 

کینیڈا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کردی

 



کینیڈا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے اسے چند اہم شرائط سے مشروط کردیا ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب کینیڈا کے وزیرِاعظم مارک کارنی نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ستمبر میں ہونے والے اجلاس کے دوران فلسطین کو باقاعدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مارک کارنی کے اس اعلان کو کینیڈا کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جسے وزیرِاعظم نے مشرقِ وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی جانب عملی پیش رفت کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کینیڈا کو توقع تھی کہ فلسطینی ریاست کا قیام باہمی مذاکرات سے ممکن ہوگا، تاہم موجودہ حالات نے اس راستے کو غیر مؤثر بنا دیا ہے۔ وزیرِاعظم نے بتایا کہ فلسطینی صدر محمود عباس سے ٹیلیفون پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہے اور اسی تناظر میں کینیڈا نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی ضروری اصلاحات کی ضمانت دے تو ستمبر میں جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا جائے گا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ کینیڈا کی حمایت فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے متوقع اصلاحاتی اقدامات سے مشروط ہے۔ ان اصلاحات میں سب سے نمایاں نکتہ 2026 میں حماس کے بغیر آزاد اور شفاف عام انتخابات کا انعقاد ہے، جسے کینیڈین حکومت فلسطینی جمہوریت کی جانب ایک مثبت قدم سمجھتی ہے۔ وزیرِاعظم کارنی نے اسرائیل کی پالیسیوں پر بھی کھل کر تنقید کی اور کہا کہ کینیڈا اس حقیقت کی مذمت کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں شدید تباہی کی راہ ہموار کی، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یاد رہے کہ کینیڈا سے قبل فرانس اور برطانیہ بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کی مشروط حمایت کرچکے ہیں۔ برطانوی وزیرِاعظم سر کئیر اسٹارمر نے چند روز قبل کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد اعلان کیا تھا کہ اگر اسرائیل غزہ میں جنگ بندی، مغربی کنارے پر قبضے سے باز رہنے اور دو ریاستی حل پر آمادگی ظاہر نہیں کرتا تو برطانیہ ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلے گا۔ اسی طرح فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ فرانس فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کرے گا۔ اس بین الاقوامی رجحان کو مشرقِ وسطیٰ میں تنازع کے حل کی جانب ایک ممکنہ سنگِ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل