Loading
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی بقا کی جنگ ہے، نجی شعبے کو ساتھ دینا، حکومت تنہا کچھ نہیں کر سکتی۔ پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں دو خطرات، بڑھتی آبادی اور دوسرا موسمیاتی تبدیلی کا سامنا کررہے ہیں ۔ ورلڈ بینک کے ساتھ ایک فریم ورک کی بات ہوئی ہے، جس کی 6 جہتیں ہیں، جن میں سے 2 موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہے ۔ یہ وقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں نجی شعبے کو حکومت کا ساتھ دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی بقا کی جنگ ہے جس میں اکیلی حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹاک ایکس چینج سابقہ ریکارڈز توڑ رہی ہے۔ اجارہ سکوک کا آغاز سست ہے، تاہم ہماری سمت درست ہے۔ 3 گلوبل ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کے بارے میں مثبت رائے دی ہے۔ گیلپ سروے بھی پاکستان کے بارے میں مثبت رپورٹ کررہا ہے۔ اصلاحاتی ایجنڈے پر کام جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیرف ریفارمز، کسٹمز ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹیز میں آئندہ 4 سے 5سال میں اصلاحات ہوں گی، جس سے پاکستان کی برآمداتی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ ٹیرف اصلاحات حکومت کا ترجیحی ایجنڈا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے بھی ٹیرف اصلاحات کو سراہا ہے۔ کیش لیس اکانومی پر کام کر رہے ہیں۔ کیپٹل مارکیٹس ڈیولپمنٹ کونسل بنانے جا رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک و دیگر ادارے کونسل کے شراکت دار ہوں گے۔ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کا آئندہ مالی سال کا بجٹ ٹیکس پالیسی آفس کی جانب سے مرتب ہوگا۔ ایف بی آر کا آئندہ مالی سال کے بجٹ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ نجی شعبے کو اس ملک کی قیادت کرنی ہے ۔ حکومت کا کام محض سازگار کاروباری ماحول مہیا کرنا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ دو تین مہینوں میں ٹیرف پالیسی، الیکٹرانک گاڑیوں، ڈیجیٹل پالیسی پر کام ہوا ہے۔ ہارون اختر صنعتی پالیسی پر کام کررہے ہیں۔ آبادی اور کلائمنٹ بڑے چیلنجز ہیں۔ مالیاتی شعبے کے لیے یہ حقیقی وقت ہے کہ آگے بڑھیں۔ نجی شعبے اور حکومت کو سرمایہ کاری کے بینک ایبل منصوبے دیں۔ قلیل مدتی سوچ سے نکل کر لمبے عرصے کی خوشحالی پر توجہ دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیش لیس معیشت کی سربراہی وزیراعظم خود کررہے ہیں۔ اب سب مل کر بیٹھے ہیں، آپ بہتری دیکھیں گے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اکانومک ویلیو سے ٹیکس پالیسی بنے گی۔ ہمیں اگر ورکنگ کیپٹل کو فروغ دینا ہے تو محض بینک نہیں کیپٹل مارکیٹس کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ قرضوں کی کیپٹل مارکیٹ کو بھی پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے طریقہ کار پر منتقل کرنا ہوگا۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ نیچے جا رہا ہے، 3 ڈسکوز کی نجکاری ہونے جا رہی ہے۔ گیس کے گردشی قرضے کو بھی حل کرنے جا رہے ہیں۔ حکومت کی شرحِ سود پر کوئی حکمت عملی نہیں، یہ اسٹیٹ بینک کا کام ہے۔ مارکیٹ کے مطابق شرحِ مبادلہ کا تعین کیا جائے گا۔ ہمارے پاس فنڈنگ دستیاب ہے اب اسے بروئے کار لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصطفیٰ کمال آبادی کنٹرول کرنے کے حوالے سے اچھا کام کر رہے ہیں۔ خواتین کی معاشی شراکت داری سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ ورلڈ بینک کے ساتھ اس حوالے سے فنڈنگ کی بات ہوچکی ہے۔ آئی ایم ایف کی جائزہ ٹیم عنقریب پاکستان پہنچے گی۔ 37 ماہ کا آئی ایم ایف پروگرام ہے، ہم ان کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ 2047ء تک پاکستان کی معاشی صورتحال ترقی یافتہ ہوگی۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اینٹی منی لانڈرنگ قوانین سنہری ہیں۔ انہی قوانین کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر ہوا اور باہر ہی رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ کے پی کے میں بارشوں سے نقصانات کے حوالے سے وزیر خزانہ کے پی کے سے بات ہوئی ہے ۔ پہلا کام لوگوں کی مدد اور بحالی ہے۔ تخمینہ کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔ معاشی استحکام اور نمو بڑھ رہی ہے، گورنر اسٹیٹ بینک قبل ازیں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک معاشی استحکام کی جانب جا رہا ہے اور اور نمو بڑھ رہی ہے ۔ معاشی چیلنجز میں مقامی بچتوں کی کم شرح شامل ہے جو صرف 7.4فیصد ہے۔ ہم کم بچاتے ہیں اسی لیے سرمایہ کاری بھی کم ہوتی ہے اور ہمیں بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی قرضے ہمارے بیلنس آف پیمنٹ اور مہنگائی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ملک میں دو دہائیوں سے اوسطاً نمو کی شرح 4فیصد کی رہی ہے۔ کیپٹل مارکیٹ کے انفرادی کھاتے 4لاکھ ہیں، بینکوں اور کیپٹل مارکیٹ کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ حکومت کی توجہ صنعتکاری کے فروغ پر ہے، چیئرمین ایس ای سی پی چیئرمین ایس ای سی پی عاکف سعید نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی توجہ ملک میں صنعتکاری کے فروغ پر مرکوز ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں بینکوں کی کیپٹلائزیشن 25فیصد اور انڈیکس میں 34فیصد حصہ ہے ۔ بینکوں کے بروکریج ہاوسز کی تعداد انتہائی کم ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ 88فیصد ایسیٹ منیجمنٹ کمپنیاں ہیں جو فکسڈ انکم میں کام کرتی ہیں ۔ اس ورکشاپ کا مقصد ایس ای سی پی کے اقدامات سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے ۔ ڈیجیٹلائزیشن اور کنسلٹیشن پر توجہ ہے۔ آئی پی او اور سرمایہ کاری کے حجم میں اضافے کے لیے بھی کام کیا جارہا ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل