Loading
پنجاب میں اسکلڈ ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت اب تک ایک ہزار سے زائد خواجہ سرا مختلف ہنر سیکھ کر ایک باعزت اور باوقار زندگی گزار رہے ہیں۔ ’’پہچان‘‘ کے نام سے شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ پنجاب اسکلز ڈویلپمنٹ فنڈ (پی ایس ڈی ایف) نے نومبر 2024 میں وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر متعارف کرایا تھا جس کے ذریعے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو پہلی مرتبہ منظم اور باضابطہ تربیت فراہم کی گئی۔ لاہور، فیصل آباد، ملتان، بہاولپور اور گوجرانوالہ میں شروع کیے گئے اس پروگرام کے تحت بیوٹی اینڈ گرومنگ، کُلنری آرٹس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، دستکاری، پرفارمنگ آرٹس اور ڈیجیٹل فری لانسنگ جیسے شعبوں میں جدید تربیت دی گئی۔ اب تک 1054 خواجہ سرا اس منصوبے سے مستفید ہوچکے ہیں جن میں سے 980 سے زائد مختلف اداروں میں ملازمت حاصل کر چکے ہیں جبکہ کئی نے چھوٹے کاروبار بھی قائم کیے ہیں۔ پروگرام کے دوران تربیت یافتہ افراد کو ماہانہ وظیفہ، سفری الاؤنس، پروفیشنل ٹول کٹس، نادرا اور پنجاب سوشل اکنامک رجسٹری میں اندراج کی سہولت بھی فراہم کی گئی تاکہ انہیں معاشی خود مختاری اور سماجی پہچان مل سکے۔ اس منصوبے میں ڈیپلیکس، خواجہ سرا سوسائٹی اور ایس ٹی ای پی سمیت 18 تربیتی ادارے شراکت دار ہیں۔ پی ایس ڈی ایف کے چیف ایگزیکٹو آفیسر احمد خان کے مطابق خواجہ سرا کمیونٹی کو ماضی میں وہ مواقع نہیں ملے جو دیگر شہریوں کو دستیاب رہے ہیں۔ ’’پہچان‘‘ پروگرام انہیں صرف ہنر ہی نہیں بلکہ روزگار، عزت اور معیشت میں شمولیت کے دروازے بھی فراہم کر رہا ہے۔ لاہور میں دی جینڈر گارڈین جو پاکستان کا پہلا ٹرانس جینڈر اسکول ہے، باضابطہ تعلیم کے ساتھ کوکنگ، سلائی، کمپیوٹر اور زیبائشی کورسز فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح کلنری اینڈ ہوٹل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان چھ ماہ کا مفت تربیتی پروگرام چلا رہا ہے۔ ادارے کی چیف ایگزیکٹو نادیہ شہزاد کے مطابق اس اقدام سے مقامی ہوٹلز اور ریستورانوں میں ملازمت کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں جبکہ بیرون ملک روزگار کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں۔ بازیافت نامی تنظیم نے ایک پروڈکشن ہاؤس قائم کیا ہے جہاں ٹرانس جینڈر اور خواتین مل کر سلائی، ڈیزائننگ، پینٹنگ اور ری سائیکل شدہ کپڑوں سے مختلف مصنوعات تیار کر رہی ہیں۔ تنظیم کی سی ای او بشری علی خان کہتی ہیں کہ یہ اقدام خواجہ سرا برادری کو مستقل اور باعزت روزگار فراہم کرنے کی ایک عملی کوشش ہے۔ تربیت مکمل کرنے والی خواجہ سرا بھی اس تبدیلی کو ایک نئے سفر سے تعبیر کر رہی ہیں۔ مایا ملک کا کہنا تھا کہ "بچپن سے میرا شوق سلائی اور بیگز بنانے کا تھا مگر کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا۔ اب پہچان پروگرام نے مجھے عزت سے روزگار کمانے کا موقع دیا ہے۔" خوشبو نے بتایا کہ "والدہ کے انتقال کے بعد میں سڑکوں پر آ گئی تھی اور زندگی اذیت ناک تھی، لیکن تربیت نے مجھے بھیک اور ناچ گانے سے نجات دے کر باعزت کام دیا۔" حنا نے کہا کہ "مجھے کچھ بھی نہیں آتا تھا، یہاں آکر میں نے سلائی اور ڈیزائننگ سیکھی، اب میں اپنے ہاتھ سے روزگار کما رہی ہوں۔" خواجہ سرا سوسائٹی کی نمائندہ ہیرعلوی کے مطابق اس پروگرام کے ذریعے کمیونٹی کو شناختی کارڈ، صحت کی سہولتوں اور روزگار کے مواقع تک رسائی دی جا رہی ہے تاکہ وہ معاشی اور سماجی سطح پر خود کو مضبوط بنا سکیں۔ تاہم خواندگی اور بڑی عمر کے باعث بعض افراد کو ان پروگراموں سے فائدہ اٹھانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کے مطابق سماجی رویوں میں تبدیلی اور باقاعدہ روزگار تک رسائی کے بغیر ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو مرکزی دھارے میں مکمل طور پر شامل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل