Loading
بے شمار و اَن گنت درود و سلام خاتم النبیین رحمت اللعالمینؐ کی بابرکت اور باکمال ذات اقدس پر کہ جن کے دنیا میں تشریف لانے سے انسان اور انسانیت کو بام عروج ملا۔ آپؐ کی ذات باکمال کو اللہ تعالیٰ نے صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے لیے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا اور ایسے اخلاق سے سنوار کربھیجا کہ آپؐ کی ساری زندگی قرآن مجید کی عملی تفسیر ہے جس میں انسان کی ہر عمر اور ہر رشتے کے لیے عملی نمونہ موجود ہے جس کے تحت زندگی گزارنے والا ہر انسان نہ صرف دنیا میں کامیاب ہو سکتا ہے بلکہ آخرت میں کامیابی کے لیے درکار اعمال کا ذخیرہ بھی آسانی سے کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فلاح اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں بھیجے جن سب پر ہمارا یقین کامل ہے لیکن ان میں سے ہر کوئی اپنے علاقے، مخصوص زمانے یا قوم کے لیے بھیجا گیا تھا۔ سب نے اس وقت کے لوگوں کو حق، سچ اور توحید کی تعلیم دی اور ہر نبی اپنا کام مکمل کرکے اس دنیا سے چلا گیا اور آہستہ آہستہ ان کے بعد ان کے پیروکاروں نے ان کی تعلیمات میں تبدیلی کردی۔ اسی طرح نبی رحمتؐ پر اترنے والی آسمانی کتاب قران مجید سے پہلے اترنے والی آسمانی کتابیں اور صحیفے بھی بعد میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث اپنی اصل شکل میں قائم نہ رہ سکے، اس کے علاوہ ان کی تعلیمات مخصوص زمانے اور قوموں کے لیے قابل عمل تھیں۔ لیکن قربان جائیں خاتم النبیین رحمت اللعالمینؐ کے مقام اور رتبے پر کہ جو نہ صرف ایک زمانے کےلیے نبی بن کر آئے، نہ کسی مخصوص قوم کےلیے اور نہ ہی ایک مخلوق کےلیے بلکہ آپؐ رحمت اللعالمین بن کر آئے تو قیامت تک کےلیے اور اس کائنات میں موجود ہر مخلوق کےلیے ایک محسن بن کر مبعوث ہوئے۔ آپؐ کی ذات سے جن و انس، حیوان، چرند پرند، درخت، زمینی، ہوائی، سمندری، خلائی اور اس کے علاوہ بھی اس کائنات میں چھپی وہ مخلوق جس کے اجسام اور معمولات ہماری عقل سے ماورا ہیں، سب ہی یکساں طور پر ہدایت پانے اور مستفید ہونے کے اہل ہیں اور آپؐ کی تعلیمات اور سنت پر عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہماری زندگی کا کون سا ایسا طبقہ یا شعبہ ہے کہ جس کے بارے میں حضورؐ کی مثالی تعلیمات موجود نہ ہوں اور معاشرے کا کون سا ایسا رشتہ ہے جس کے بارے میں حضورؐ کی زندگی ہمارے لیے کھلی کتاب نہ ہو، کیوں کہ آپؐ کائنات کی واحد ہستی ہیں جن کی جلوت کے علاوہ خلوت بھی ہمارے سامنے ہے۔ آپؐ محسن کائنات ہیں اور وجہ تخلیق کائنات ہیں تو ایسی ہستی کی آمد پر جس قدر بھی خوشی منائی جائے وہ کم ہے۔ اس لیے جیسے ہی ریبع الاول کے ماہ مبارک کا آغاز ہوتا ہے تو ہمارے پورے ملک کے شہر شہر اور گاؤں گاؤں جشن کا سماں پیدا کر دیتے ہیں۔ گلیاں اور بازار جھنڈیوں اور آرائشی دروازوں سے سجا دیے جاتے ہیں اور رات کو گھروں اور دیگر عمارتوں پر چراغاں کا بندوبست کیا جاتا ہے، جب کہ ہر طرف سیرت نبویؐ پر کانفرنسیں اور پروگرام پیش کیے جارہے ہوتے ہیں اور مساجد اور گھروں میں محافل میلاد، نعت خوانی سے حضورؐ کی ذات اقدس میں محبت اور عقیدت کے پھول نچھاور کیے جاتے ہیں۔ اس سارے سلسلے کا عروج 12 ربیع الاول کا دن ہوتا ہے جس دن آپؐ کی میلاد کا دن منایا جاتا ہے۔ جس دن یہ ساری سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ ہر شہر، ہر گاؤں اور محلے میں نعت خوانی کے جلوس نکالے جاتے ہیں جن کا سلسلہ رات تک چلتا رہتا ہے۔ راستوں میں سادہ اور میٹھے پانی کی سبیلوں کا انتظام ہوتا ہے اور ساتھ طعام کا بندوبست بھی ہوتا ہے اور یوں یہ سارا سلسلہ ریبع الاول کے پورے ماہ مبارک میں چلتا رہتا ہے۔ حضورؐ سے محبت کے اظہار کےلیے صرف ایک طریقہ نہیں ہے، چونکہ ہمارے ہاں ایک سے زیادہ مسالک موجود ہیں اور ہر ایک بلاشبہ حضورؐ کو محسن کائنات اور خاتم النبیین مانتا ہے، لہٰذا سب کے نزدیک آپؐ کی آمد سے زیادہ کوئی خوشی نہیں ہے۔ اس لیے ہر کوئی اپنے طریقہ اور عقیدہ کے مطابق حضورؐ کی میلاد کی خوشی مناتا ہے۔ یہاں ہمارا مقصد بین المسالک اختلافات پر بحث کرنا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ اس بات کا مقصد یہ ہے کہ حضورؐ کے میلاد پر خوشی سے کسی کو انکار نہیں، بس اس کے منانے کےلیے ہر ایک کا اپنا طریقہ کار ہے۔ جیسے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غم منانے میں کسی کو اختلاف نہیں لیکن محرم الحرام کے مہینے میں ان کا غم منانے کا ہر ایک کا اپنا طریقہ ہے، جس میں کسی کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ آپؐ کی آمد پر خوشی تو صرف انسان نہیں بلکہ ہر مخلوق پر فرض ہے کیوں کہ آپؐ کی ذات سب کےلیے رحمت اللعالمین ہے۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ حضورؐ سے محبت کے اور آپؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کےتقاضے کیا محض ربیع الاول کے مہینے میں جلسے جلوس نکالنے، جھنڈیاں اور آرائشی گیٹ لگانے اور نعت خوانی کی محافل سجانے سے پورے ہوجاتے ہیں؟ محض زبانی کلامی دعووں سے کیا ہم اس کامیابی کا دعویٰ کرسکتے ہیں جو حقیقی معنوں میں صرف حضورؐ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی بدولت ہی حاصل کی جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلاشبہ میلاد کی خوشی کے رائج طریقہ سے محبت کا اظہار بھی کامیابی کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن محض معاشرے میں رائج رسم و رواج میں شرکت کرنے اور ان کا حصہ بننے سے کلی کامیابی کی دلیل نکالنا کسی دیوانے کے خواب سے زیادہ نہیں ہے۔ 12 ربیع الاول کی پہلی دوسری اور تیسری رات مردوں اور عورتوں کی ٹولیاں آرائشی گیٹ دیکھنے کی مہم پر روانہ ہوتے ہیں اور اس مخلوط رش میں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کون سا اور کتنا ثواب ملتا ہے۔ ان سارے حالات و واقعات میں کبھی ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جب روز آخرت اس ذات سے سامنا ہوگا تو ہم کیا منہ لے کر ان کے پاس جائیں گے؟ کیا ہم سارا کچھ وہی کر رہے ہیں جس کا حکم آپؐ نے دیا ہے اور اس چیز سے ہم نے منہ موڑا ہوا ہے جس سے آپؐ نے منع کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ اگر ہم آج اپنے معاشرے کی تصویر کھلی آنکھ سے دیکھ لیں تو ہم خود ہی سمجھ جائیں گے کہ رحمت اللعالمینؐ سے محبت کے تقاضے ہم کس قدر پورے کررہے ہیں۔ ہم اپنے کاروباری اور لین دین کے معاملات دیکھ لیں یا شادی بیاہ کے رسم و رواج دیکھ لیں، اپنوں سے بڑوں اور چھوٹوں سے اپنا برتاؤ دیکھ لیں، اپنے ہمسائے سے اپنی غم خواری اور خبر گیر ی دیکھ لیں۔ اولاد اپنے والدین کی اطاعت و فرماں برداری سے نکل گئی، شاگرد کے نزدیک اپنے استاد کی عزت نہ رہی، عفو و درگزر میں ہم کہاں کھڑے ہیں، ہم کس قدر صادق و امین ہیں، یہ بھی ہم سب جانتے ہیں۔ حضورؐ کو اپنے ماں باپ، اولاد، بہن بھائیوں، ساری دنیا حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی محبوب سمجھنے کا مطلب صرف اس بات کا دعویٰ کرنا نہیں بلکہ اپنے ہر معاملے میں آپؐ کی ہر بات کو حرف آخر سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے۔ جب کہ ہمارے معاشرے میں کون سی اخلاقی، معاشرتی اور سماجی برائی نہیں ہے جو بدرجہ اتم نہ پائی جاتی ہو۔ چاہے قول و فعل میں تضا د کا معاملہ ہو، رشوت، سفارش، اقربا پروری اور جھوٹ کی بات ہو تو ان سارے معاملات میں ہم خود کفیل ہوچکے ہیں اور دنیاوی ترقی میں بھی ہم دن بدن تنزلی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ تو ان ساری برائیوں کے ہوتے ہوئے کیا ہم رحمت اللعالمینؐ سے سچی محبت کا دعوٰی کرسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ آئیے! ہم اپنے آپ کو پہچانیں کہ ہم کس ذات بابرکتؐ کے امتی ہیں، ان کے پیغام کو سمجھیں کہ وہ ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے۔ یہ بات جان لیں کہ رحمت اللعالمینؐ سے محبت کا تقاضا ہم سے زبانی بڑھکیں نہیں عملی ثبوت مانگتا ہے۔ ہمیں صحیح معنوں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہونا پڑے گا، دنیاوی رسم و رواج کے بجائے ان تعلیمات پر عمل کرنا پڑے گا جن کا حکم رحمت اللعالمینؐ نے دیا ہے اور ہر اس چیز سے خود کو روکنا ہوگا جس سے آپؐ نے روکا ہے یا ناپسند کیا ہے۔ آئیے اپنی زندگی میں رسم رواج کم اور عملی کام زیادہ کریں اور وہ عملی کام جن کی بدولت ہم اس قابل ہوسکیں کہ روزِ آخرت رحمت اللعالمینؐ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل