Loading
محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا 1500واں یوم ولادت نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ یہ دن صرف ایک مذہبی یا تہذیبی تقریب نہیں بلکہ انسانیت کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب کی یاد ہے۔ وہ انقلاب جس نے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی دنیا کو روشنی عطا کی، ظلم و جبر کی چکی میں پسنے والے انسانوں کو مساوات اور عدل کی نعمت بخشی، طبقاتی تقسیم کے شکار معاشرے کو اخوت، بھائی چارے اور ہمدردی کے رشتوں میں جوڑا، اور سب سے بڑھ کر انسان کو انسانیت کا احترام سکھایا۔ یہ ایک تاریخی اور ابدی حقیقت ہے کہ محسن انسانیت، ہادی اعظم حضرت محمد ﷺ کے ظہور قدسی سے عالم نو طلوع ہوا، انسانیت کی صبح سعادت کا آغاز ہوا، جب آپ نے اس جہان میں قدم رکھا، اس وقت سے تاریخ عالم نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ دنیا میں آپ کی تشریف آوری سے ایک تاریخ ساز اور مثالی دور کا آغاز ہوا۔ ایک ایسا انقلاب رونما ہوا جس نے انسانی عزت و وقار کو بحال کرکے دنیا میں امن و سلامتی اور احترام انسانیت کو عام کیا۔پیغمبر رحمت نے انسانیت کے ظلمت و جہالت کے اندھیروں اور تاریکیوں کو دور کیا ۔ انسان طبقاتی تقسیم اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ جنگ و جدل اور ظلم و سفاکی اس کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اس تاریک دور میں انسان اتنا پست اور گھٹا ہوا تھا کہ کائنات میں سانس لیتے ہوئے خوف محسوس کرتا تھا، ظلم و استحصال اور طبقاتی و نسلی منافرت میں اتنا جکڑا ہوا تھا کہ ہر نئی زنجیر کو اپنے لیے تقدیر سمجھتا تھا۔محسن انسانیت ﷺ نے دنیائے انسانیت کو اس کا حقیقی مقام عطا کیا، اس کی عزت و آبرو کو بحال کیا، اس کے شرف و منزلت اور تکریم کا اعلان کیا۔احترام انسانیت کا درس عام کیا۔ محسن انسانیتﷺ نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے۔ آپ ﷺ نے عرب و عجم کے سامنے ایسا ضابطہ اخلاق، مکمل دستور العمل اور شاندار نظام حیات رکھا جو تنگ نظری سے پاک تھا۔ اقوام عالم کے لیے ایسا قابل تقلید اور آئیڈیل نظام جس میں نسلی امتیازات و قبائلی تفاخر کا خاتمہ، مجبوروں، محکموں، خواتین، بچوں اور پسے ہوئے طبقات کے انسانی حقوق کی گارنٹی ہے۔ مدینہ منورہ آمد کے بعد آپ ﷺ نے یہود اور غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ میثاق مدینہ کیا جو دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور بھی تھا جس کو ریاست مدینہ میں نافذ کیا گیا۔ اس امن معاہدہ میں تمام مذاہب اور ثقافتوں کو یکجاکر کے ایک عالمی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ معاہدہ بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کی بہترین مثال تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے،اور اللہ کو اپنے کنبے میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بھلائی کرے۔‘‘ یہ فرمان آج بھی عالمی امن کے قیام کا سب سے بڑا ضابطہ اخلاق ہے۔ آج انسانیت شدید ابتلا اور مصیبتوں کا شکار ہے۔ ترقی یافتہ دور اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے باوجود بھوک، افلاس، غربت، بیماری اور ناانصافی انسان کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں طاقت کی ہوس نے جنگوں کو جنم دیا ہے تو دوسرے کونے میں مفادات کی سیاست نے لاکھوں انسانوں کو در بدر کردیا ہے۔ لاکھوں بچے بھوک سے بلک کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں، لاکھوں بیگناہ عورتیں اور مرد جنگوں کی نذر ہورہے ہیں، اور لاکھوں خاندان اپنے وطن، اپنے گھروں سے محروم ہوکر پناہ گزین کیمپوں میں زندگی کے دن پورے کررہے ہیں۔ فلسطین کی بربادی اور کشمیر کی محرومیاں ہمارے سامنے زندہ مثالیں ہیں۔ عراق، شام، یمن، لیبیا اور افغانستان کے کھنڈرات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ انسان اپنی حماقتوں سے خود ہی اپنی تباہی کا سامان کررہا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی نسخہ انسانیت کو امن اور سکون دے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسوہ رسول ﷺ ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: ’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔‘‘اس رحمت کا عملی مظاہرہ ہمیں رسول اکرم ﷺ کی پوری زندگی میں دکھائی دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے دشمنوں کے ساتھ بھی عفو و درگزر کا برتاؤ کیا۔ مکہ کی فتح کے موقع پر جب دشمن آپ کے سامنے بے بس کھڑے تھے، آپ نے عام معافی کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ’’جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘ یہ وہی اصول ہے جو آج کی دنیا میں انتقام اور خونریزی کی آگ کو بجھانے کے لیے سب سے زیادہ کارآمد ہوسکتا ہے، اگر عالمی طاقتیں اسوہ رسول ﷺ کو اپنا لیں تو وہ انتقام اور طاقت کے بجائے انصاف اور معافی کو اپنا شعار بنائیں گی، اور یہی رویہ دنیا کو پائیدار امن دے سکتا ہے۔ دوسری جانب افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ، جسے رسول اکرم ﷺ نے ’’ایک جسم‘‘ قرار دیا تھا کہ اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہوجاتا ہے، وہی امت آج نفاق، انتشار اور تقسیم کا شکار ہے۔ ہمارے باہمی جھگڑے اور گروہ بندی نہ صرف ہماری طاقت کو کمزور کررہے ہیں بلکہ دشمن قوتوں کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں مزید تقسیم کرکے ہمارے وسائل پر قبضہ جمائیں۔ ہم پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیا گیا ہے، ہمیں انتہا پسند بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسلام نے ایک بیگناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے، لیکن ہماری صفوں میں موجود چند عناصر کی شدت پسندی نے پوری امت کو بدنام کیا ہے۔ اس دھبے کو دھونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے کردار اور عمل سے دنیا کو دکھائیں کہ مسلمان دراصل امن پسند، روادار اور انسانیت کے خیر خواہ ہیں۔ دنیا ہمیں اس وقت سنجیدگی سے سنے گی جب ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہوگا۔ جب ہم عملی طور پر اپنی زندگیاں سیرتِ نبوی ﷺ کے مطابق ڈھالیں گے۔ جب ہماری معیشت میں انصاف ہوگا، ہماری سیاست میں دیانت ہوگی، ہمارے معاشرتی رویوں میں ہمدردی ہوگی اور ہمارے انفرادی کردار میں اخلاق کی بلندی ہوگی۔ اس وقت دنیا کو ماننا پڑے گا کہ اسلام واقعی امن اور سکون کا دین ہے۔ مسئلہ فلسطین آج بھی عالمی ضمیر پر ایک دھبہ ہے۔ پون صدی گزرنے کے باوجود فلسطینی عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ان پر ظلم و ستم کی انتہا کی جارہی ہے۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر بھی سات دہائیوں سے عالمی اداروں کی الماریوں میں فائلوں کی شکل میں بند ہے۔ لاکھوں کشمیری ظلم کا شکار ہیں لیکن عالمی طاقتیں محض تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہ دونوں مسائل صرف مسلم دنیا کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے مسائل ہیں، کیونکہ جب تک ایک خطہ ظلم اور جبر کی آگ میں جل رہا ہو، دنیا میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ان مسائل کے حل کے لیے امت مسلمہ کو یک زبان اور متحد ہونا ہوگا۔ اگر ہم باہمی نفاق کو ختم کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں، تو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ امتِ مسلمہ اپنے باہمی مفادات اور دشمنی میں اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اسے اپنی اصل ذمے داری بھول چکی ہے۔ آج کی سب سے بڑی ضرورت اتحاد امت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا باہمی انتشار ہی دشمن کی سب سے بڑی طاقت ہے، اگر ہم متحد ہوجائیں، اپنی صفوں سے منافقت، کرپشن اور ناانصافی کو ختم کردیں، تعلیمی اور سائنسی میدان میں ترقی کریں، تو کوئی طاقت ہمیں دنیا میں بدنام نہیں کرسکتی۔ یاد رکھیے کہ رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو اخوت اور بھائی چارے کی تلقین کی تھی۔آپﷺ نے فرمایا کہ ’’مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں‘‘یہ وہ بنیاد ہے جو امت کو دوبارہ زندہ کرسکتی ہے۔ محسن انسانیت ﷺ کی سیرت کی روشنی میں اگر عالمی امن کے قیام کی کاوشیں کی جائیں تو مظلوم اور دکھی انسانیت کے دکھوں میں کمی آسکتی ہے۔ دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ اسلام تلوار کا نہیں، امن کا دین ہے۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ اپنے تعلیمی اداروں، میڈیا اور سفارتی ذرایع کے ذریعے اس پیغام کو عام کرے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے عملی اقدامات کے ذریعے ثابت کریں کہ مسلمان جہاں بھی ہیں، وہاں امن، محبت اور خیر کا چراغ روشن ہوتا ہے۔ دنیا کو امن کی ضرورت ہے اور انسانیت کو رہنمائی کی تلاش ہے۔ یہ رہنمائی کسی فلسفی، کسی مفکر یا کسی عالمی طاقت سے نہیں بلکہ اس ہستی سے مل سکتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ’’رحمت اللعالمین‘‘بنا کر بھیجا، اگر دنیا اس رحمت کو اپنا لے تو بھوک اور غربت کے بادل چھٹ سکتے ہیں، جنگوں کی آگ بجھ سکتی ہے، دربدری اور ہجرت کے دکھ ختم ہوسکتے ہیں، اور انسانیت سکھ اور چین کا سانس لے سکتی ہے۔ محسن انسانیت ﷺ کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل