Loading
مشرق وسطیٰ میں کاش کہ برطانیہ نے یہودیوں کو سر چھپانے کی جگہ فراہم نہ کی ہوتی تو آج جو المناک دہشت ناک اور خون آلودہ حالات فلسطین میں روز ہی رونما ہو رہے ہیں وہ نہ ہوتے مگر شاید یہ برطانیہ کی مجبوری تھی کہ اسے بے وطن اور پریشان حال یہودیوں کی مشکلات کو دور کرنے اور انھیں آباد ہونے کے لیے اپنی مفتوحہ سرزمین فلسطین کا ایک قطعہ فراہم کرنا پڑا۔ دنیا جانتی ہے کہ برطانیہ کو اس کے بدلے میں یہودیوں نے ان کے سب سے بڑے دشمن ہٹلر کو ہرانے کے لیے جاسوسی کا گھناؤنا جال پھیلایا تھا پھر اس کی پاداش میں یہودیوں کو اپنی نسل کشی جیسی آفت سے گزرنا پڑا تھا۔ شاید ہٹلر سے زیادہ یہودیوں کی نفسیات سے کوئی واقف نہیں تھا اس نے ان کی غداری کے صلے میں انھیں چن چن کر ہلاک کیا تھا۔ اس نے انھیں ہلاک کرنے کے لیے گولیوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ بڑے بڑے گڑھے کھدوا کر ان میں یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو ڈال دیا جاتا اور اوپر سے مٹی برابر کر دی جاتی۔ یہودیوں کے اس قتل عام کو ہولوکاسٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ آخر ہٹلر نے چند بڑے رہنماؤں کے بجائے جرمنی میں آباد تمام یہودیوں کو درگور کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ وجہ یہ تھی کہ یہودی جرمنی کے شہری ہوتے ہوئے جرمنی سے غداری کے مرتکب ہوئے تھے۔ وہ جرمنی کے دشمنوں کو جو برطانیہ، فرانس، امریکا و دیگر ممالک تھے انھیں عین دوسری جنگ عظیم کے وقت جرمنی کی خفیہ خبریں پہنچا رہے تھے۔ اس طرح وہ جرمنی کو مشکلات کا شکار کر رہے تھے۔ مگر اب کیا یہودی ہولوکاسٹ کا بدلہ فلسطینیوں سے لے رہے ہیں تو فلسطینیوں نے تو یہودیوں پر کوئی ظلم نہیں ڈھایا اور نہ ہی وہ یہودیوں کے خلاف کسی سازش میں شامل رہے ہیں پھر ان کی آج کل نسل کشی کرکے وہ انھیں کس جرم کی سزا دے رہے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی ہے۔ اب تک اسی ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ سے اوپر زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں کا کوئی نہ کوئی فرد نیتن یاہو کی درندگی کا شکار نہ بنا ہو۔ مسلسل بمباری سے بے شمار گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ ایک طرف بھیانک بمباری سے غزہ کی آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو دوسری جانب غذائی قلت پیدا کرکے فلسطینیوں کو دانستہ طور پر موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ پڑوسی ممالک اور انسانی خدمت کے اداروں کی طرف سے بھیجی جانے والی غذا کی ترسیل میں جان بوجھ کر رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ بمباری کے وقفوں کے دوران جو ناکافی غذا بھی فلسطینیوں تک پہنچ رہی ہے اس کی تقسیم کے مقام پر پہنچنے والے فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کی جا رہی ہے چنانچہ غذا کے بجائے انھیں موت مل رہی ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ وہاں موجود صحافیوں اور اقوام متحدہ کے امدادی اہلکاروں کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ بھی فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کی درخواست کر رہی ہے مگر اس کی بھی کوئی نہیں سن رہا۔ امریکا جو حقوق انسانی کا چیمپئن خود کو کہتا ہے اس نے بھی چپ سادھ رکھی ہے یورپی ممالک اگرچہ اس قتل عام پر ناراض ہیں مگر یہ شاید دکھاوا ہی ہے۔ فلسطینی مسئلے کا واحد دیرپا حل فلسطینی ریاست کا قیام ہے مگر اس حل تک پہنچنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے کیونکہ اسرائیل اس کے خلاف ہے اور وہ شاید ہی آزاد فلسطینی ریاست کو قائم ہونے دے۔ امریکی صدر ٹرمپ کا یہ حال ہے کہ وہ کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی غزہ کا علاقہ خالی کر دیں بس یہی تو نیتن یاہو بھی چاہتا ہے تاکہ وہ اسرائیل کی سرحدوں کو آگے وسعت دے سکے۔ فلسطینی بھی امریکی اور اسرائیلی سازش سے باخبر معلوم ہوتے ہیں جب ہی انھوں نے غزہ کو خالی کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ مر تو سکتے ہیں مگر اپنی جگہ نہیں چھوڑ سکتے۔ یہودیوں کے ظلم و ستم کوئی نئے نہیں ہیں وہ تو ماضی میں اپنے پیغمبروں کو بھی شہید کرتے رہے ہیں۔ وہ دولت کی لالچ میں کسی بھی برے کام کو کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ انسان کش قوم ہے۔ یہ اپنے مفاد کے حصول کے لیے کسی بھی انسان کش کام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ انسانوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت کا سبب بننے والا ایٹم بم بھی انھی کی ایجاد ہے۔ انھوں نے ہی امریکا اور برطانیہ کو ایٹمی قوت بنایا ہے اور امریکا نے ان کے ہی بنائے ہوئے ایٹم بموں سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملے کرکے ان شہروں کے لاکھوں شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ امریکا اور برطانیہ آج بھی یہودیوں کے سب سے بڑے طرف دار ہیں اور ان کی دنیا میں واحد ریاست اسرائیل کے نگہبان ہیں۔ یہ تو حقیقت ہے کہ ایٹم بم کو ایجاد کرنے والا آئین اسٹائن تھا جو یہودی تھا اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کے پہلے ایٹم بم کا بلیو پرنٹ 1940 میں برمنگھم برطانیہ میں دو یہودیوں نے تیار کیا تھا۔ انھوں نے ہی برطانیہ کو خبر دی تھی کہ ایک ایٹم بم ایک پورے شہر کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں جب جرمنی اور جاپان اتحادی افواج پر بھاری پڑ رہے تھے تو ایسے میں امریکا ان دونوں ممالک کو ایک بڑا سبق سکھانا چاہتا تھا کیوں کہ جس رفتار سے اس وقت جنگ چل رہی تھی اس سے امریکا نہ سہی مگر برطانیہ ضرور تباہی کے دہانے پر تھا۔ ایسے میں برطانیہ نے یہودی سائنس دانوں کا ایٹم بم کا بلیو پرنٹ امریکا کو مہیا کر دیا۔ امریکا میں اسی بلیو پرنٹ کے تحت وہاں موجود یہودی سائنس دانوں نے ایٹم بم تیار کیے اور پھر امریکا نے انھیں جاپان کے خلاف استعمال کر ڈالا۔ امریکا نے ایک نہیں دو ایٹم بم جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے۔ ان سے وہاں کے لاکھوں شہری موت کی نیند سو گئے اور درجنوں ہی شہر تباہ و برباد ہو کر کھنڈر بن گئے۔ امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرانے کی غلطی کی تھی مگر اس میں برطانیہ کا بھی عمل دخل شامل تھا۔ اسی طرح عربوں کی سرزمین پر یہودیوں کو بسانے میں امریکا ضرور پیش پیش تھا مگر یہودیوں کو آباد کرنے کے لیے برطانیہ نے اپنی مفتوحہ فلسطین کی سرزمین مہیا کی تھی جو اس نے سلطنت عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم میں شکست دے کر حاصل کی تھی۔ آج امریکا اور برطانیہ کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل کی ہمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ جمانے کا پلان بنا چکا ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم و ستم کو روکنے کے لیے امریکا اور برطانیہ سے کوئی امید لگانا عبث ہے اب تمام مسلم ممالک کو اسرائیل کو سبق سکھانے کے لیے اپنی مصلحتوں سے باہر نکل کر عملی اقدام اٹھانا ہوں گے۔ جس طرح گزشتہ دنوں ایران اسرائیل کو جارحیت کا مزہ چکھا چکا ہے جس سے اسرائیل کی کمزوری سامنے آ چکی ہے، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اگر مسلم ممالک اسرائیل کو مجبور کرنے کے لیے اس پر حملہ نہیں کرسکتے تو کم سے کم تمام سفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات ہی منقطع کر لیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل