Friday, September 05, 2025
 

محمود عباس جاسوس ہیں یا دہشت گرد؟

 



اقوامِ متحدہ کے ایک سو ترانوے رکن ممالک میں سے ایک سو سینتالیس فلسطین کی آزاد ریاست کا وجود باضابطہ تسلیم کر چکے ہیں۔فرانس ، ناروے ، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی اہم مغربی طاقتوں نے اس ماہ کے آخر تک فلسطین کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔اس نئی لہر کو دبانے میں ناکامی پر اسرائیل اور امریکا کی بوکھلاہٹ دیدنی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر مستقل تسلط کے لیے حتمی فوجی چڑھائی کر دی ہے اور اگلے چند دن میں مقبوضہ مغربی کنارے کو بھی اسرائیل میں باقاعدہ ضم کرنے کا اعلان متوقع ہے۔اسرائیلی پارلیمنٹ پہلے ہی گزشتہ ماہ اکثریتی ووٹ کے ذریعے نیتن یاہو حکومت سے مقبوضہ کنارے کی جداگانہ حیثیت کے خاتمے کا مطالبہ کر چکی ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے دو ریاستی حل کی بانسری۔ امریکا سے اور کچھ نہ بن سکا تو اس نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں فلسطین کے صدر محمود عباس کی قیادت میں اسی رکنی وفد کی شرکت روکنے کے لیے ویزہ نہ دینے کا اعلان کر دیا۔ صدر محمود عباس کو فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ دعوت پر بائیس ستمبر کو نیویارک میں بلائی گئی فلسطین کانفرنس میں بھی شرکت کرنا تھی۔ توقع ہے اس موقع پر کئی اہم ممالک فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کریں گے۔ فرانس کے صدر میخواں نے فلسطینی وفد کو ویزہ نہ دینے پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ اس کے باوجود فلسطین کانفرنس ہو کر رہے گی۔اقوامِ متحدہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ تنظیم کے ہر رکن کو اجلاسوں میں شرکت کا پورا پورا حق ہے۔او آئی سی اور عرب لیگ نے بھی حسبِ عادت خودکار مذمت کی ہے۔ انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ اور حکومتِ امریکا کے درمیان ایک باضابطہ معاہدہ ہوا۔اسے یو این ہیڈ کوارٹر ایگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ معاہدے کے باب گیارہ کے مطابق امریکا نیویارک مییں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں کسی رکن ملک کے کسی نمایندے ، اقوامِ متحدہ یا اس کی ملحقہ ذیلی تنظیموں کے کسی عہدیدار یا اقوامِ متحدہ میں مدعو کسی مہمان کا داخلہ نہیں روک سکتا اور نہ ہی اس میں کوئی رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔  فلسطینی اتھارٹی کو دو ہزار بارہ سے اقوامِ متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل ہے۔جب کہ اقوامِ متحدہ سے کیا گیا معاہدہ کسی امریکی حکومت سے نہیں بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکا سے کیا گیا اور دو ایوانی امریکی کانگریس سے بھی توثیق شدہ بھی ہے۔ امریکی آئین کے تحت کانگریس سے تصدیق شدہ بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد لازمی ہے۔ امریکا نے پہلی بار یہ حرکت نہیں کی۔نومبر انیس سو چوہتر میں اقوامِ متحدہ نے پی ایل او کے رہنما یاسرعرفات کو جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں بطور مہمان مدعو کیا۔اس موقع پر اپنے خطاب میں عرفات نے یہ شہرہِ آفاق جملہ کہا تھا کہ ’’ میرے دائیں ہاتھ میں شاخِ زیتون اور بائیں ہاتھ میں بندوق ہے۔میرے ہاتھ سے شاخِ زیتون گرنے نہ دیجیے ’’۔ مگر انھی یاسرعرفات کو جب جنرل اسمبلی کے انیس سو اٹھاسی کے سالانہ اجلاس میں دوبارہ مدعو کیا گیا تو امریکا نے قومی سلامتی کے قانون کے بہانے ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔اقوامِ متحدہ نے بھی جھکنے سے انکار کر دیا اور اپنا اجلاس نیویارک سے جنیوا منتقل کر دیا جہاں یاسر عرفات نے اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔  اس کے بعد ہی اسرائیل اور پی ایل او میں امن مذاکرات اسی امریکا کی نگرانی میں شروع ہوئے جس نے عرفات کو ویزہ دینے سے انکار کیا تھا۔مذاکرات کا یہ سلسلہ انیس سو ترانوے میں اوسلو امن سمجھوتے پر منتج ہوا۔اس کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی قائم ہوئی جسے سن دو ہزار تک ایک آزاد و خودمختار ریاست بننا تھا۔ اقوامِ متحدہ نے انیس سو اٹھاسی میں یاسر عرفات کو ویزہ نہ دینے کے معاملے پر بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا۔عدالت نے رولنگ دی کہ امریکا اقوامِ متحدہ سے کیے گئے سمجھوتوں پر مکمل عمل درآمد کا قانوناً پابند ہے۔تاہم عدالت نے اس بابت باضابطہ دوٹوک تحریری فیصلہ سنانے کے بجائے اس معاملے کو ثالثی کے سپرد کر دیا۔نتیجہ یہ ہے کہ حتمی فیصلے کا معاملہ آج تک لٹکا ہوا ہے۔ محمود عباس دو ہزار گیارہ سے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کے مخالفین اتھارٹی کو اسرائیل اور امریکا کی بی ٹیم کہتے ہیں۔محمود عباس جنوبی اسرائیل پر اکتوبر دو ہزار تئیس میں حماس کے حملے کی متعدد بار مذمت کر چکے ہیں۔ کئی مرتبہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ حماس کو غیر مسلح کرنے کے بھی حق میں ہیں اور بعد از جنگ غزہ کا عبوری انتظام سنبھالنے پر بھی آمادہ ہیں۔انھوں نے بطور صدر اب تک اقوامِ متحدہ کے ہر سالانہ اجلاس میں شرکت کی ہے۔مگر اتنی ساری اسرائیلی امریکی فرمائشیں پوری کرنے کے باوجود ایک ہفتے پہلے اچانک امریکی محکمہ خارجہ کو احساس ہوا کہ محمود عباس کی نیویارک آمد قومی سلامتی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ فلسطینی وفد کو ویزہ دینے سے انکار کے جواز کے طور پر دو ہزار چودہ کے فارن ریلشنز آتھرائزیشن ایکٹ کا سہارا لیا گیا۔اس قانون کے تحت وفاقی انتظامیہ ایسے کسی بھی غیر ملکی عہدیدار کو امریکا میں داخلے سے روک سکتی ہے جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہو یا امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے خلاف دھشت گردی یا جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث ہو یا اس بارے میں شبہہ ہو۔اس قانون کو سب سے پہلے اقوامِ متحدہ کے لیے ایرانی سفیر حامد ابوطالب کے خلاف استعمال کیا گیا۔ فلسطینی وفد کو ویزہ دینے سے انکار کا اشارہ امریکی محکمہ خارجہ نے جولائی میں ہی دے دیا تھا۔تب کہا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی جیلوں میں بند قیدیوں کے اہلِ خانہ کی مالی مدد کر کے دھشت گردی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔محمود عباس کی انتظامیہ نے یہ اعتراض رفع کرنے کے لیے ہزاروں قیدیوں کے خاندانوں کی مالی مدد روک دی۔ محکمہ خارجہ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ جس قانون کے تحت دہشت گردوں اور جاسوسوں کو امریکا میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی اس قانون کے کس خانے میں محمود عباس کو فٹ کیا گیا۔وہ جاسوس ہیں یا دہشت گرد ؟ البتہ بیان میں آگے چل کے کہا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی تنازعے کے تصفیے کے دو طرفہ مذاکراتی میکنزم سے انحراف کرتے ہوئے بین الاقوامی عدالتِ انصاف اور عالمی جرائم کی عدالت کو اس عمل کے بیچ نہ لائے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کروانے کی یکطرفہ کوششیں ترک کر دے۔ گویا بدنیتی کی بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔اب مضحکہ خیز تصویر یہ بن رہی ہے کہ جنگی جرائم کے سلسلے میں مطلوب اسرائیلی وزیرِ اعظم اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے اور ان جرائم کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانے والی فلسطینی اتھارٹی کا وفد گھر بیٹھ کر جنرل اسمبلی کی کاروائی دیکھے گا۔  یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی ، کہیے کیا بات دھیان میں آئی ؟ (وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل