Loading
یہ ہم نہیں بلکہ علامہ اقبال نے پوچھا تھا کہ کوئی سمجھائے یہ کیا رنگ ہے میخانے کا آنکھ ساقی کی گرے نام ہو پیمانے کا اپنے ایک’’ جہاں دیدہ ‘‘ سب کچھ پوشیدہ اور بہت شنیدہ ملازم کے بارے میں تو ہم آپ کو بتاچکے ہیں کہ وقت نے اس کا سب کچھ چھین کر کہاوتوں حکایتوں اور اقوال زرین کا گنج بے بہا بنادیا تھا۔ چنانچہ جب وہ ایک بات کرتا تھا اور بیچ میں کوئی اور بات یاد آجاتی تھی تو پوپلے سے مسکرا کرکہتا، ایک کر رہا ہوں دوسری دُم ہلا رہی ہے۔اس کی یہ بیماری کچھ کچھ ہمارے اندر بھی سرایت کرچکی ہے کہ ایک سوال پر ابھی سوچ رہے ہوتے کہ دوسرا سوال’’دُم‘‘ ہلانے لگتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہم نے ایک سوال پر سوچا تھا اور جواب میں ناکام ہوکر اپنے قارئین کی طرف لڑھکا دیا تھا۔ سونے کی چڑیا اور جنت پر روئے زمین سے لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں لیکن اس کا جواب ابھی نہیں ملا تھا کہ دوسرے سوال نے دُم ہلانا شروع کردی ہے، یہ دوسرا سوال یہ ہے کہ چراغ تلے اندھیرا کیوں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس ملک میں مسجدوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے ان میں نمازیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ باہر سڑکوں اور گلیوں میں صفیں بچائی جاتی ہیں ، حج وعمرہ پر جانے والوں کی تعداد بھی ہرسال بڑھ رہی ہے، داڑھیاں اتنی کہ حجاموں کی دکانیں بند ہورہی ہیں۔ مدرسوں کی تعداد مسجدوں سے بھی زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ ہر مدرسے کے ساتھ گھروں میں للبنات کے مدرسے بھی قائم ہوچکے ہیں ، تعلیمات نشر کی جا رہی ہیں، مطلب یہ عبادتیں،ثواب ہی ثواب تبلیغ ہی تبلیغ۔ لیکن دوسری طرف دیکھیے تو اچھائی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں حرام ہی حرام، ناجائز ہی ناجائز، ناروا ہی ناروا، معاملات سے دین کو مکمل طور پر خارج کیا چکا ہے۔ حرام ہی حرام، کرپشن ہی کرپشن،جرائم ہی جرائم اور ہمیں اسی کا جواب ڈھونڈنا ہے کیوں؟ آخر کیوں یہ آگ اور پانی یوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک کا دوسرے پر اثرکیوں نہیں ہو رہا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا وطیرہ یہ ہے کہ لوگوں کے گلے بھی کاٹتے رہو اور نیک کاموں میں چندے بھی دیا کرو۔حالانکہ ہم انھی لوگوں سے سنتے آئے ہیں کہ برائیوں سے بچنے کے لیے نیکی کا رستہ اختیار کرو۔ لیکن یہاں یہی نام نہاد نیکوکار ہی برائیوں کے سرچشمے ہیں۔ انھی سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’حقوق اللہ‘‘ یعنی اپنے حقوق تو بخش سکتا ہے لیکن حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق نہیں بخشے گا۔ مگر ان عبادتوں اور حقوق کے سائے میں حقوق العباد کا جو حال ہے وہ کس کو معلوم نہیں کہ سب کچھ انھی کا کیا دھرا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ علامہ اقبال جب وکالت کرتے تھے تو ان کے پاس ایک بزرگ آکر بیٹھے تھے جو اپنی بہنوں کو باپ کی وراثت میں حصہ نہیں دے رہے تھے اور اسی مسئلے پر مقدمہ لڑرہے تھے۔ وہ علامہ کو ہمیشہ داڑھی رکھنے اور نماز پڑھنے کی تلقین کرتے تھے۔ ایک دن علامہ نے کہا چلیے ہم آپس میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں ، آپ اپنی بہنوں کو حصہ دیجیے اور میں داڑھی رکھ لیتا ہوں۔لیکن بزرگ نے یہ شرط قبول نہیں کی، کہ ہم نے جو دین کے نام پر رویہ اپنا رکھا ہے وہ صرف عبادات تک محدود ہے ، دنیاوی معاملات کے لیے ہمارے رویے الگ ہیں وہاں قوانین، کورٹ کچہری اور وکیل جو ہیں۔ایک چشم دید واقعہ سنیے۔ہمارے گاؤں کے نہایت دیندار تین بھائی تھے ان کے ٹریکٹر ٹرالی سے افغان مہاجرین کا ایک بچہ مرگیا تو ان بھائیوں نے ایک جرگہ مرتب کیا جس میں ہم بھی تھے، مہاجرکیمپ میں ہمیں ایک مسجد میں بٹھایا گیا، ہم بھی بیٹھے تھے دوسرے مہاجر فریق کے بزرگ بھی بیٹھے تھے۔ اب بات شروع کرنا تھی لیکن دیکھا کہ وہ تین بھائی مسجد کے ایک کونے میں نماز پڑھ رہے تھے حالانکہ دن کے دس بجے تھے، بعد میں ہم نے پوچھا کہ ادھر جرگہ میں بات چلانا تھا اور تم وہاں نماز پڑھ رہے تھے یہ کس وقت کی نماز تھی۔ بولے کسی بھی مسجد میں پہلی بار جاؤ تو دو رکعت نفل اس مسجد کا حق ہیں اور یہیں پر ہم نے انھیں یاد دلایا کہ کچھ عرصے پہلے تمہاری بہن نے تم سے وراثت میں سے دس مرلے زمین دکان کے لیے مانگی تھی۔ تو تم نے کہا تھا کہ ہم ایک انچ بھی نہیں دیں گے اور ساری پدری جائداد کو ہڑپ کر لیا اور بہن کو اس کے حق کے دس مرلے نہیں دیے اور اب مسجد کا حق دے رہے ہو کہ اس میں کوئی مالی نقصان تو نہیں۔بعد میں بڑے بھائی نے پوری زندگی دین کے لیے وقف کی تھی اب آپ سے پوچھنا ہے کہ ’’یہ کیا رنگ ہے میخانے کا‘‘؟
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل