Friday, September 05, 2025
 

بیادِ غضنفر

 



اردو ادب کے دو اساتذہ ڈاکٹر ایوب قادری اور پروفیسر حبیب اللہ غضنفر کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ڈاکٹر ایوب قادری کے صاحبزادے اردو کے استاد پروفیسر سعید قادری نے پروفیسر حبیب اللہ غضنفر کی نایاب کتاب ’’ بیادِ غضنفر‘‘ کو شایع کیا ہے۔ پروفیسر سعید قادری نے پروفیسر حبیب اللہ غضنفر کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے۔ ’’حبیب اللہ غضنفر 31 جولائی 1902میں روہیل کھنڈ ضلع مراد آباد کی مشہور تاریخی مردم خیز بستی امروہہ میں لودھی پٹھانوں کے ایک قدیم خاندان میں پیدا ہوئے۔ نام حبیب اﷲ رکھا گیا۔ ان کے والد کا نام احمد سعید خان ابن عبد الرحمن خان، ابن مولوی نصر اﷲ خان ابن مینڈھو خان تھا۔ غضنفر صاحب کے پردادا مولوی نصر اﷲ خان باقاعدہ عالم تھے، جب وہ تحصیلِ علم مکمل کر کے آئے تو انھوں نے اپنے خاندان اور قبیلہ میں بعض غیر اسلامی اور مشرکانہ رسوم کا خاتمہ کیا۔ ان کے خاندان میں کاشت کاری اور زمینداری کا مشغلہ تھا۔ بچپن ہی سے غضنفر صاحب نے ان مشاغل میں حصہ لیا۔ ابتدائی تعلیم تو حسبِ رواج گھر پر ہوئی، اس کے بعد وہ اسکول میں داخل ہوگئے۔ پرائیوٹ طور پر عربی و فارسی کی تحصیل کرتے رہے ۔ انھوں نے عربی کی تحصیل کی 1921 میں گورنمنٹ ہائی اسکول امروہہ میں میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ انٹر کالج مراد آباد میں داخلہ لیا۔ دو سال تک مراد آباد میں رہے۔ 1925میں انھوں نے انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ ان کی کامیابی پر مراد آباد میں ان کی شہرت ہوگئی۔ فنون (آرٹس) کے پچیس طلبہ شریکِ امتحان ہوئے تھے۔ ان میں دس مسلمان طلبہ تھے۔ مسلمان طلبہ میں صرف غضنفر صاحب ہی کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد وہ الہٰ آباد گئے اور الہٰ آباد یونیورسٹی سے انھوں نے بی اے پاس کیا، مسلم بورڈنگ ہاؤس میں قیام رہتا تھا۔ غضنفر صاحب وہاں کی علمی و ادبی تحریکوں میں خاص طور پر شریک ہوتے تھے۔ ایم اے کے لیے 1927 میں میرٹھ کالج میں داخلہ لیا مگر وہاں جی نہیں لگا، اس لیے علی گڑھ چلے گئے اور 1929 میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے عربی میں ایم اے کیا۔ علامہ عبدالعزیز میمن ان کے اسی زمانے کے استاد تھے۔ 1929سے 1931 تک دو سال غضنفر صاحب الہٰ آباد یونیورسٹی میں عبدالستار صدیقی مرحوم کے زیرِ نگرانی ریسرچ اسکالر رہے۔ اس زمانے میں انھوں نے معانی البہم (منسوب جنید بغدادی) اور فرہنگ جہانگیری پرکام کیا۔ غضنفر صاحب نے ناگ پور کی ملازمت کے زمانے میں 1926 میں فارسی ایم اے اور ایم اے اردو 1938میں پرائیوٹ طور پر پاس کیا۔ غضنفر صاحب علم و ادب کے شیدائی تھے۔ ہندی اور سنسکرت زبانیں ہندی پنڈتوں سے پڑھیں۔ ہندی ادب کا خاص مطالعہ کیا۔ انگریزی کا یہ حال تھا کہ براہِ راست عربی زبان سے انگریزی میں ضخیم مجلات ترجمہ کیں۔ رمل، نجوم، جفر، توقیت اور طب کے بھی ماہر تھے۔ معمہ چیستاں مسبحع زائچہ کسی چیز میں بند نہیں تھے۔ اپنا سجع کہا۔ تاریخ گوئی کا بھی ذوق تھا۔ نہایت موزوں اور وہ مناسب مادئہ تاریخ نکالتے تھے۔ غرض اکثر کلام میں ماہر اور جامع الصفات بزرگ تھے۔ امروہہ علم و فضل اور تہذیب و ثقافت کا زمانہ قدیم سے مرکز رہا ہے، ہر زمانہ میں یہاں نامور علماء، صوفیاء و شعر و ادباء کا چرچا رہا ہے۔ سعادت امروہوی مصحفی کا وطن ہے۔ غضنفر صاحب ابھی اسکول میں تھے کہ ان کو شاعری کا چسکا لگ گیا تھا اور وہ وہاں کے شعری ماحول سے متاثر ہوئے۔ حبیب اﷲ غضنفر کہتے ہیں کہ ’’ مصحفی کے وطن امروہہ میں ہمیشہ شعر و سخن کا چرچا رہا۔ شمیم صفی، سخص وغیرہ اپنے زمانہ کے نامور سخنور تھے۔ میں جب سنِ شعور کو پہنچا تو عمدہ شعرکہنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان میں مولوی قدرت اللہ حباب، سید حبیب احمد افق، وقار علی تاج، منظور احمد، افسر امروہوی اور ینوی شبیر خان شبیر اور مولوی عبدالقیوم شفق نمایاں تھے۔ ابتداء میں انھوں نے جلیل القدر نواب صاحب جنگ حافظ جلیل مانگ پوری سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ وہ شفق مرحوم کا ذکر ہمیشہ بڑی محبت سے کرتے تھے۔ غضنفر صاحب نے پہلے غیرت تخلص اختیارکیا۔استاد نے کہا ’’ غیرت کو او بے غیرت کہہ کر بھی بلایا جاسکتا ہے‘‘ پھر انھوں نے غضنفر کا تخلص اختیار کیا: اے غضنفر دیکھ لی احباب کی فکرِ رسا بس اسی پر ادعائے فہم استادانہ تھا جب غضنفر صاحب ناگپور میں ذریعہ معاش کے زمانے میں مقیم تھے تو اس زمانے میں ان کی شاعری کا شباب تھا اور وہاں مشاعروں میں ان کی دھوم تھی۔ حبیب اللہ خان غضنفر نے تحصیل علوم کے بعد درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیا۔ 1932سے 1938 تک وہ ناگپور انجمن ہائی اسکول میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1938سے 1943 تک حبیب ہائی اسکول بمبئی میں رہے۔1948 میں کراچی کے مشہور تعلیمی ادارے ایس ایم کالج سے وابستہ ہوئے۔ اس زمانے میں کالج کے پرنسپل ڈاکٹر امیر حسن صدیقی تھے۔ 1948تک ایس ایم کالج سے ان کا تعلق رہا۔ جب ڈاکٹر امیر حسن صدیقی اسلامیہ کالج میں آگئے تو غضنفر صاحب اسی کالج میں چلے آئے اور 1948 سے 1950 تک اسلامیہ کالج میں رہے۔ 1950 سے 1967 تک اردو کالج اور کچھ دن معاون پروفیسرکی حیثیت سے جامعہ کراچی میں بھی پڑھایا۔ جب اسلامیہ کالج میں ایم اے کا ٹیوشن سینٹر قائم ہوا تو ڈاکٹر امیر حسین صدیقی کی تحریک پر وہاں بھی تدریس کے فرائض انجام دیے۔ والد محترم نے 1953 میں اردو کالج میں بی اے (سہ سالہ نصاب) میں داخلہ لیا ان کا اختیاری مضمون اردو تھا جس کو پروفیسر حبیب اللہ خان غضنفر صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ غضنفر صاحب کا رہن سہن نہایت سادہ تھا۔ تکلف و تصنع سے انھیں کوئی واسطہ نہ تھا۔ اوسط درجہ کی معاشرت تھی، دل کے بہت صاف تھے بلکہ صاف گوئی ان کا مزاج تھا۔ چاپلوسی، ابن الوقتی اور زمانہ شناسی سے وہ کوسوں دور تھے۔ اردو کالج سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ عثمانیہ کالج کے پرنسپل ہوگئے۔ انھوں نے اپنے کام سے کام رکھا۔ غضنفر صاحب کا کام مختلف جہتوں میں بکھرا ہوا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر رانا خالد محبوب نے حبیب اللہ غضنفر کی کتاب پر یہ تبصرہ کیا ہے۔’’ پروفیسر حبیب اﷲ خان غضنفر کا تعلق ایک ایسے روایت پسند قبیلہ سے ہے جس نے اساتذہ کا ادب اور ادبی سفرکا احترام برقرار رکھا۔ میرا پہلا تعارف غضنفر اکیڈمی، اردو بازار، کراچی، دوسرا محترم ڈاکٹر ایوب قادری صاحب اور عصرِ موجود میں پروفیسر سعید حسن قادری کی محفل میں ہوا۔ محترم پروفیسر سعید حسن قادری کی محنت رنگ لائی اور اب پروفیسر حبیب اللہ غضنفر کا شعری خزانہ ایک شعری مجموعے کی شکل میں تدوین و تالیف کے بعد شایع ہوگیا ہے۔ پروفیسر حبیب اللہ خان غضنفر کی شاعری روایت سے جڑی ہوئی ہے۔ سماجی تبدیلی اور شعوری ادراک کے امتزاج ادب اور فن کے شاہکار کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ ان کی شاعری زندہ شاعری ہے جس میں غزل، نعت، حمد، منقبت اور نظم کے ساتھ قطعات و رباعیات بھی قابلِ ذکر ہیں۔ پروفیسر حبیب اللہ خان غضنفر کا شمار روایت کے اکابرین میں ہوتا ہے۔ کلاسیکی روایت سے بھرپور شاعری ان کا خاصہ ہے۔ معاملاتِ حسن و عشق کے ساتھ ساتھ تصوف آمیز خیالات ان کے شعری وجدان کا نمونہ ہیں۔ شعری تخیل کی وسعت اور وارداتِ قلبی، مضمون آفرینی اور نازک خیالی پر خاص توجہ رہی۔ جذبات، احساسات اور عصری مشاہدات کسی مبالغہ آرائی اور تصنع سے پاک ہیں۔ ادبی نزاکتیں، رنگینئ بیان، تصنع، ہجر و وصال، سوزوگداز اور رومانیت اردو شاعری کا حسن ہیں۔ غضنفر کی اردو شاعری میں بے پایاں روانی نے شوخی اور بیباکی کی سرحدوں میں توازن رکھا ہے۔ اظہاریے کی طہارت، حسنِ خیال، جوش و سرمستی، تشبیہات و استعارات کے دروبست میں اعتدال غضنفر کو ان کے ہم عصر شعراء میں ممتازکرتا ہے۔ پروفیسر حبیب اللہ خان غضنفر کا دریافت شدہ شعری سرمایہ یقیناً اردو شاعری میں ایک معتبر اضافہ ہے۔ پروفیسر سعید قادری نے اپنے والد ڈاکٹر ایوب قادری کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے والد کے دوست پروفیسر غضنفر کی نایاب کتاب شایع کر کے اردو ادب کی خدمت کی ہے۔ یہ کتاب اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے ایک اچھا تحفہ ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل