Friday, September 05, 2025
 

دریا اور آبی جارحیت

 



جب میں نے یہ منظر خبروں میں دیکھا کہ پاکستان تک پہنچتے پہنچتے یہ پانی کسی دریا کا نہیں بلکہ ہمالیہ سے نکلنے والا دھاڑتا ہوا چیختا ہوا شیرکا روپ اختیار کر لیتا ہے اور یہ سیلابی پانی ہمالیائی تیندوے کی طرح غریب کسانوں کے گھروں، چھتوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو سب کچھ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ گھروں کو یہ جھنجھوڑتا ہے، بھنبھوڑتا ہے اور یوں اٹھا کر پٹختا ہے کہ سب کچھ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر مال مویشی ڈرکے مارے خوفزدہ ہو کر رسی تڑا بیٹھتے ہیں اور دوڑ لگاتے لگاتے بھاگتے بھاگتے سیلابی پانی میں گھر جاتے ہیں اور پھر وہیں گر جاتے ہیں اور گر کر ڈھیر ہو جاتے ہیں یا پھر بہہ کر چلے جاتے ہیں اور کسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ اپنا مال و اسباب بچاتے ہوئے ہزار سے زائد جانیں چلی گئیں۔ فی الحال صرف پنجاب میں 40 لاکھ سے زائد افراد کو امداد یا بچانے کی تگ و دو کر لی گئی۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے، سرکاری رپورٹوں کے مطابق سیلاب کے اعداد و شمار محض ہندسوں کی صورت میں لکھے جاتے ہیں مگر ان کے پیچھے کسان کا اجڑا ہوا گھر، ماؤں کے وہ لال جو پانی میں بہہ گئے، گھر والوں کا پورے سال کا راشن آٹا، چاول، دیسی گھی، گڑ، پہننے کے کپڑے، جوتے سب بہہ گئے اور غریب کسان کی جوان بچی کا زیور بھی بہہ کر چلا گیا جس کے لیے بوڑھی ماں دہائی دے رہی تھی کہ پیٹ کاٹ کر بچی کا جہیز جمع کیا تھا۔ وہ سب اچانک سیلاب اچک کر لے گیا۔اس سیلاب نے ہمیں جھنجھوڑ کر بتایا کہ ہم صنعتی دنیا کو کوس رہے ہیں کہ انھوں نے فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی، موسموں کو بگاڑا، کاربن کا بوجھ آسمان پر لٹکا دیا اور جب وہ پاکستان میں آ کر کلاؤڈ برسٹ کی صورت میں برسا تو ہمیں کہیں پناہ نہ ملی اور پھر ہمارے اشرافیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ صوبہ کے پی کے میں دریاؤں کے ساتھ ساتھ ہوٹلز، بلڈنگز کھڑی کر دی گئیں اور دریاؤں کے کنارے پر مہنگی مہنگی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو بنا کر دریا کا قدرتی راستہ روک لیا گیا۔  دراصل ہمالیہ کی چوٹی پر جب برف دھیرے دھیرے پگھلتی ہے تو پانی کی بوند بوند میں ایک سکون ہوتا ہے، یہ وہی سکون ہے جو لاکھوں سال سے دریا اپنی موجوں میں سنبھال کر لاتا ہے۔ زمینوں کو بخشتا ہے، اسی امن و سکون کو کہتے ہیں پانی زندگی کا نام ہے، لیکن بھارت موسمیاتی تبدیلی کی آڑ لے کر اس کی سرزمین پر اترنے والی ندیوں کے پانی کو اپنے ڈیموں کے قلعوں میں قید کر لیتا ہے۔ یہ پانی شانت، زندگی، امن، زرخیزی لاتا تھا۔ انجینئرنگ کن دیواروں کے پیچھے اندر بے چینی ارتعاش اور ہیجان کے ساتھ قید رہتا ہے اور پھر جب بھارت ایک ساتھ بلا اطلاع بارہ کے بارہ اسپیلز کھول دیتا ہے تو یہی پانی جو کبھی رحمت ہوتا تھا غصے سے دھاڑتا ہوا شیر کی طرح خونخوار ہو کر پاکستان کے پنجاب میں تباہی مچا دیتا ہے۔ اس طرح یہ ایک قدرتی آفت نہیں رہتی بلکہ ایک منظم آبی جارحیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ پنجاب کے دریا پرامن تھے، بھارتی ڈیمز کی قید میں رہ کر بپھر گئے۔ حکومت کو ان ناجائز ڈیموں کے خلاف احتجاج کرنا ہوگا۔کسانوں کے لاکھوں مویشی بہہ جانے کے سبب آیندہ بقر عید تک ان جانوروں کی خدمت کر کے پال پوس کر قربانی کے لیے فروخت کرکے اچھی خاصی رقم کما لیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ قربانی کی معیشت کا حصہ 7 سے 8 سو ارب روپے ہوتا ہے۔ آخر میں جب تخمینہ لگایا جائے گا تو اصل رقم کا اندازہ ہو سکے گا۔ پھر کھڑی فصلوں کا نقصان وہ الگ، اس کے علاوہ گھروں میں خوراک کے ذخائر تلف ہو گئے۔ ملک کی جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 24 فی صد سے قریب ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے کہ 12 فی صد فی الحال ملکی جی ڈی پی سے منہا ہو جائے لیکن حکومت چاہتی ہے کہ زراعت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرے۔ دنیا میں کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں قدرتی آفات کے بعد حکومت نے کسانوں کو بھرپور سہارا دیا۔ نقد امداد دی گئی، گھروں کو تعمیر کر کے دیا گیا، اس سلسلے میں سندھ حکومت کی مثال دی جا سکتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب سندھ کی سرزمین میں سیلاب آیا اور گھر بار سب کچھ ملیا میٹ کر گیا تو ایسے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہزاروں متاثرہ خاندانوں کے لیے چھت فراہم کرنے کا عزم کیا۔ کیونکہ چھت انسان کے وجود کو معنی دیتی ہے اور انھوں نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ پنجاب حکومت بھی ان بے گھروں کو جلدازجلد چھت فراہم کرے، اسی طرح کے پی کے اور گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں ہر طرح کی مدد و امداد کی ضرورت ہے جس کے لیے ملک بھر کی انتظامیہ کو فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل