Sunday, September 07, 2025
 

سیلاب اور کلاوڈبرسٹ سے تباہی‘ ایک بڑا انسانی المیہ

 



پاکستان میں حالیہ بارشوں اور کلاوڈ برسٹ کی تباہ کاریوں سے ہونے والا نقصان غیر معمولی ہے۔ خیبر پختونخوا کے بونیر، مالاکنڈ، دیر بالا اور گلگت بلتستان کے کئی علاقوں میں اتنی شدید تباہی آئی ہے جو کسی انسانی المیے سے کم نہیں۔ مسلسل زوردار بارشوں نے پانی کے بہاو کو بے قابو کر دیا ہے۔ جا بجا کلاوڈ برسٹ کے ریلوں نے پہاڑی دیہاتوں کو تہس نہس کر رکھ دیا ہے ، جس کے نتیجے میں نہ صرف علاقوں کے علاقے مٹ گئے اور مکانات تباہ ہوئے بلکہ سینکڑوں جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔ بونیر میں اس قدرتی آفت نے 274 سے زائد جانیں لے لی ہیں اور سینکڑوں افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ زندگی اور موت کے درمیان معصوم لوگ پھنس گئے، ریسکیو آٓپریشنز کی راہیں بند ہو گئیں۔ زرعی زمینیں تباہ ہو گئی ہیں، فصلیں پانی میں غرق، اور مقامی معیشت زمینی تباہی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ہر شجر، ہر کھیت، ہر مزدور کی روزی جو ان فصلوں سے جڑی تھی، اب مٹی میں مل گئی ہے۔ سڑکیں، پُل، اسکول اور ہسپتال بھی اس تباہی کی زد میں آئے ہیں جس سے متاثرین کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے۔ متاثرہ علاقوں کے جو کاروباری لوگ کل تک ’’ لکھ پتی تھے آج خود امداد کے محتاج ہیں۔جو کل دوسروں کیلئے دستر خوان بچھایا کرتے تھے آج خود مدد کے منتظر ہیں۔ محلات میں رہنے والے فٹ پاتھوں پر آگئے ہیں۔ کھانے کیلئے کچھ نہیں رہا اور سر چھپانے کیلئے سائبان نہیں رہا۔ہزاروں لوگ گھر سے بے گھر اور در سے بے در ہو چکے ہیں۔ سردیوں کی آمد آمد ہے تو ایسے میں جن کے پاس چھت نہیں اُن کے لئے صورتحال مزید خراب ہے کیونکہ کچھ عرصہ بعد مکان کے بغیر گذارا ناممکن ہو جائے گا۔ اگر چہ حکومت اور امدادی تنظیمیں کوششوں میں مصروف ہیں مگر رکاوٹیں زیادہ ہیں۔ راستے بند ہیں، بستیوں کی بستیاں مٹ گئی ہیں۔ بہت کچھ تہہ وبالا ہوگیا ہے۔ مٹی کے پھسلنے کی وجہ سے ریسکیو ٹیموں کا پہنچنا مشکل ہو رہا ہے۔ متاثرین سراتا پا مسائل ومصائب میں ڈوبے ہوئے ہیں ، خصوصاً کھانے، پینے، اور رہنے کی بنیادی ضرورتیں بالکل ہی ناپید ہیں۔ مالی نقصان اربوں روپے میں ہے، لاکھوں خاندانوں کا سب کچھ اس تباہی میں ختم ہو گیا ہے۔ یہ تباہ کُن سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدرت کے آگے ہم سب بے بس ہیں۔ ہماری کوئی حیثیت اور اوقات نہیں۔ پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے یہ تباہی پہلی دفعہ نہیں آئی بلکہ ہر سال ہمیں کسی نہ کسی شکل میں موسمی آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہر سال ہم تباہی کا شکار ہوتے ہیں۔ سیلاب آتے ہیں اور گھروں کے گھر اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔ ہزاروں ایکٹر زرعی زمینیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ مگر ہم اپنے حال میں مست ہیں کہ کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ، ہمارے دلوں میں احساس ذمہ داری اور احساس ندامت نہیں پیدا ہوتا۔ہر سیلاب کے بعد حکمرانوں کے بیانات آتے ہیں کہ ہم متاثرین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اکثر اوقات یہ صرف بیانات ہی رہتے ہیں جو حقیقت کا روپ نہیں دھارتے۔ متاثرین ابھی پوری طرح پاؤں پر کھڑے نہیں ہو پاتے۔ تنکا تنکا جمع کرکے کر ابھی آشیانہ بھی نہیں بنا پاتے کہ ایک مرتبہ پھر سیلاب کا خطہ سر پر منڈلا رہا ہوتا ہے۔ ہم مسلسل تباہی کا شکار اس لئے ہو رہے ہیں کہ ان آفات سے نہ تو دینی اعتبار سے کوئی سبق حاصل کیا جاتا ہے اور نہ دنیوی اعتبار سے۔ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ بعض پتھر اللہ کے ڈر سے گر جاتے ہیں بعض اللہ کے ڈر کی وجہ سے پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی بہہ نکلتا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ آسمان پر بادل پھٹ رہے ہیں لیکن ہمارے دل ایسے پتھر ہوچکے ہیں کہ اللہ کے ڈر سے جھکتے اور نرم نہیں ہوتے ہیں، حالانکہ پاکستان قدرتی آفات کے حوالے سے ہمارا ملک اکثر مشکلات کا شکار رہتا ہے، خاص طور پر بارشوں، سیلاب اور کلاوڈ برسٹ جیسے واقعات سے۔ ان آفات نے ہمیشہ جانی اور مالی نقصان کیا ہے۔لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ سیلاب ، بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے ہونے والا نقصان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ خاص کر کلاؤڈ برسٹ اپنے ساتھ ہولناک تباہی لے کر آتا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ کا امکان ممکن ہے لیکن کلاؤڈ برسٹ سے تو بچاؤ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بنی اسرائیل کی قوموں پر آسمان سے پتھروں کی بارش نازل ہوتی تھی۔ کلاؤڈ برسٹ بھی ایسے ہی ہے جیسے کسی بستی پر پتھروں کی بارش برسی ہو۔بہت ہی ہولناک اور درد ناک تباہی ہوتی ہے۔پوری بستی مٹ جاتی ہے لوگ طوفانی ریلے میں بہہ جاتے ہیں یا پھر پتھروں کے نیچے زندہ دفن ہوجاتے ہیں۔ کلاوڈ برسٹ ایک ایسی قدرتی آفت ہے جس میں بادل پھٹتے ہیں اور ہزاروں ٹن پانی کسی بستی یا پہاڑ کی چوٹی پر گر پڑتا ہے۔ یہ عموماً پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے جہاں ہوا کے دباؤ میں اچانک تبدیلی کے باعث بادل سے بہت زیادہ پانی زمین پر اترتا ہے، جیسے ایک بریک ہوا ہو۔ یہ عمل شدید تباہی لاتا ہے۔پہاڑ کا دامن پانی سے بھر جاتا ہے جہاں سے وہ پوری قوت اور طاقت کے ساتھ اُترائی کا رخ کرتا ہے۔ اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھروں اور درختوں کو بہاتا چلا جاتا ہے۔جب یہ پانی نیچے پہنچتا ہے تو بے پناہ قوت کے ساتھ آبادی کو روندتا ہوا گذرتا ہے۔ ’’بادلوں کا پھٹنا‘‘ کہلانے والی یہ صورت حال عموماً پہاڑی علاقوں میں شدید گرج چمک کے ساتھ ہوتی ہے، جس سے سیلابی ریلے اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ سائنسی دلیل کے مطابق زمین اور بادلوں کے مابین موجود گرم ہوا کی لہر، بادلوں کو فوری نمی برقرار رکھنے سے روک دیتی ہے۔ جب دباؤ ناکافی ہوتا ہے، تو بادل سے پانی اچانک بڑی مقدار میں گر کر کلاؤڈ برسٹ کا باعث بن جاتا ہے۔ موسمیاتی تغیرات نے اس عمل کی شدت میں اضافہ کردیا ہے، کیونکہ بدلتے موسم اور نمی کی مقدار پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ثابت ہو رہی ہے۔ اس مون سون سیزن میں پاکستان کے مختلف علاقوں چکوال، حیدرآباد، گلگت، اور چلاس جیسے مقامات پر کلاؤڈ برسٹ کے سنگین اثرات سامنے آئے ہیں۔ چکوال میں ایک کلاؤڈ برسٹ کے باعث 423 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، جبکہ حیدرآباد میں تقریباً 70 فیصد گلیاں پانی کی لپیٹ میں آگئیں۔ چلاس میں شاہراہ بابو سر پر سیلابی ریلے نے 19 سیاحوں کی جان لے لی اور کئی گاڑیاں بہہ گئیں۔ خیبرپختونخوا میں ایک اور خوفناک کلاؤڈ برسٹ نے تباہی مچائی۔ بونیر میں ایک گھنٹے میں 150 ملی میٹر سے زائد بارش نے سیلابی اور ناہموار ریلے پیدا کیے، جنہوں نے کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ اب تک کم از کم 320 افراد کی موت واقع ہوچکی ہے، جن میں بونیر میں 207 اور دیگر اضلاع میں مزید افراد شامل ہیں۔ موسمیاتی تجزیہ کار موسمیاتی تبدیلیوں کو بنیادی سبب قرار دیتے ہیں، کیوں کہ گرم ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے، جو ان برساتی ریلوں کو بھاری بنا دیتی ہے۔ ایسے واقعات کی بروقت پیشگوئی تقریباً ناممکن ہے۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ ندی نالوں کے پاس تعمیرات سے گریز، محفوظ راستوں کی بحالی، بہتر ڈرینیج، اور جنگلات کی افزائش جیسے اقدامات سے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ کلاؤڈ برسٹ جیسے واقعات پاکستان کی موسمی حقیقت بنتے جا رہے ہیں، اور ان کی شدت میں اضافے کی وجہ موسمیاتی تبدیلی، گھری ساختی خرابی، اور نا مناسب تعمیرات ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ سے بچاؤ کیلئے کچھ احتیاطی تدابیر ہیں جو ہم اختیار کرسکتے ہیں مثلاََ پہاڑوں اور ایسے علاقے جہاں سیلاب کا خطرہ ہو ان علاقوں میں رہائشی منصوبے بناتے وقت احتیاط کریں۔ بارش کے دوران ندی نالوں اور پانی کے تیز بہاؤ والی جگہوں سے دور رہیں۔ دور دراز علاقوں میں پختہ سڑکیں اور پل تعمیر کریں تاکہ بچاو اور امدادی کارروائیاں آسان ہوں۔ پانی کی نکاسی کے نظام کو بہتر بنائیں تاکہ بارش کا پانی جمع ہو کر سیلاب نہ بنے۔درختوں کی کٹائی روکی جائے اور جنگلات لگائے جائیں تاکہ پانی زمین میں جذب ہو اور بہاو کم ہو۔ ہنگامی طبی سہولیات اور ریسکیو ٹیموں کی دستیابی یقینی بنائیں اور عوام کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل کریں۔ حکومتی ادا رے، موسمیاتی پیش گوئی، اورآگاہی بڑھائیں تاکہ بروقت انتباہ کیا جا سکے۔ یہ حفاظتی اقدامات کلاوڈ برسٹ اور بارش کی تباہ کاریوں کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ سیلاب، بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کی تباہ کاریوں سے بچاو کے لیے صرف جدید تکنیکی اقدامات ہی کافی نہیں بلکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اجتماعی توبہ و استغفار کی جائے ، سود ، فحاشی اور بے حیائی کی روک تھام کی جائے۔ اور اپنی زندگیوں کو احکام الٰہی اور سیرت رسولؐ کے مطابق ڈھالنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ قدرتی آفات کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہمارے گناہ اور برے اعمال بھی ہوتے ہیں۔ اجتماعی توبہ اور استغفار انسانی روح کو صاف کرتی ہے، نفوس کو یکجا کرتی ہے، اور اللہ کی رحمت کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ تاریخی طور پر کئی بار قوموں نے بڑی بڑی آزمائشوں کا سامنا کیا اور اجتماعی توبہ کے ذریعے اللہ کی عنایت حاصل کی۔ پاکستان میں بھی اگر ہم اپنے غلط اعمال پر غور کریں اور دل سے توبہ کریں تو اللہ مصیبتوں کو ٹالنے والا ہے۔ پاکستان میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی سیلاب اور پانی کے بہاو کو روکنے کی قدرتی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ درخت زمین کو مضبوط بناتے ہیں، پانی کو جذب کرتے ہیں، اور مٹی کے بہاو کو روکتے ہیں۔ جب جنگلات ختم ہو جاتے ہیں تو بارش کا پانی سڑکوں اور گھروں کی طرف بڑھتا ہے، جو سیلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے عوام اور حکومت کو مل کر جنگلات کی کٹائی کو روکنا اور نئے درخت لگانے کے پروگراموں کو تیز تر کرنا ہوگا تاکہ زمین اپنی قدرتی حالت میں محفوظ رہے۔ پاکستان میں پانی کے ذخائر بہت محدود ہیں جس کی وجہ سے بارش کا پانی محفوظ نہیں ہو پاتا اور سیلاب کی شکل میں تباہی پھیلاتا ہے۔ بڑے اور جدید ڈیموں کی تعمیر اس پانی کو ذخیرہ کرنے، زراعت کو سہارا دینے، اور بجلی کی پیداوار کے لیے بھی ضروری ہے۔ ایسے منصوبے نہ صرف سیلاب سے بچاو میں مددگار ہوتے ہیں بلکہ ملک کی معاشی ترقی میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ طویل مدتی منصوبہ بندی کرے اور مالی وسائل اس کام کے لیے مختص کرے۔ دیگر حفاظتی اقدامات میں عوامی شعور بیدار کرنا، سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیاں اور ہنگامی رد عمل کے نظام کو مضبوط بنانا بھی بہت اہم ہے۔ مختصر یہ کہ بارش، سیلاب اور کلاوڈ برسٹ کی تباہ کاریوں سے بچاو کے لیے اجتماعی توبہ و استغفار، جنگلات کی افزائش، نئے ڈیموں کی تعمیر ، مضبوط حکومتی اور عوامی کردار کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہم یہ تمام اقدامات یکجا کر لیں تو پاکستان قدرتی آفات سے محفوظ اور خوشحال ملک بن سکتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل