Monday, September 08, 2025
 

سندھ پولیس میں اصلاحات

 



سندھ ہائی کورٹ کی ہدایت پر آئی جی سندھ نے گریجویشن پولیس افسران ہی کو ایس ایچ اوز تعینات کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے جس کے تحت پولیس تھانوں کے ایس ایچ اوز کے عہدے پر صرف اچھے رویے اور صاف ریکارڈ رکھنے والے پولیس افسر ہی تعینات کیے جائیں گے۔ آئی جی سندھ پولیس نے جاری احکام پر فوری عمل درآمد کی بھی ہدایت کی ہے اور عدالتی حکم کے مطابق واضح کر دیا ہے کہ کرمنل یا مشکوک ریکارڈ رکھنے والے پولیس افسران اب تھانوں میں ایس ایچ اوز نہیں لگ سکیں گے۔ سندھ ہائی کورٹ کا یہ حکم خصوصی طور پر کراچی پولیس میں اصلاح کے لیے نہایت اہم اور ضروری تھا کیونکہ کراچی پولیس میں ایس ایچ اوز انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور زیادہ تر ایس ایچ اوز سیاسی بنیاد پر تعینات ہیں اور کوئی ایس ایچ او ایسا نہیں ہوگا جو میرٹ اور قابلیت کے باعث اس اہم عہدے پر تعینات کیا گیا ہو اور بغیر رشوت یا سیاسی سفارت کے ایس ایچ او لگا ہو۔ کراچی میں پولیس تھانوں کی خفیہ نیلامی تو بہت پرانی بات ہو چکی اور کراچی کے بعض تھانے اہم اور سونے کی چڑیا یا سونے کا انڈہ دینے والی مرغی شمار ہوتے ہیں۔ کراچی کے تھانوں میں انسپکٹر اور سب انسپکٹر بطور ایس ایچ او تعینات کیے جاتے ہیں اور ان کی تعیناتی میں ان کی تعلیم نہیں بلکہ رشوت یا سیاسی سفارش دیکھی جاتی ہے اور نہ ہی ان کا کرمنل و مشکوک کردار دیکھا جاتا ہے۔ پولیس افسروں کا اچھا رویہ اور صاف ریکارڈ رکھنے والے ایس ایچ او برائے نام ہیں بلکہ اچھی شہرت، صاف ریکارڈ رکھنے والوں کی جگہ بدنام، متکبر، اونچا سیاسی ریکارڈ اور خر دماغ رکھنے والے ہی ایس ایچ او نظر آئیں گے۔ کراچی کے تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کے دفتر عوام کے لیے بند ہی ملتے ہیں اور بند دروازے کے باہر سپاہی تعینات ملے گا خواہ ایس ایچ او کمرے میں موجود ہو نہ ہو، باہر موجود سپاہی تمام لوگوں کو یہی بتائے گا کہ صاحب علاقے کے گشت پر ہیں۔ تھانوں کا نظام ایس ایچ او نہیں بلکہ تھانہ ہیڈ محرر چلاتا ہے۔ ایس ایچ او کے نام سپاہیوں کی خصوصی پارٹیاں ہوتی ہیں جو ایس ایچ او کی پسند اور مرضی کی ہوتی ہیں جب کہ دیگر تقرری یا سادہ لباس میں بھتہ وصولی پر مامور پولیس پارٹیاں ہیڈ محرر کو جواب دہ ہوتی ہیں۔ کراچی میں تھانوں میں ایس ایچ اوز اکثر موجود ہی نہیں ملتے اور نہ ان سے ملنا آسان ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس علاقے میں گشت کا بہترین جواز موجود ہوتا ہے جب کہ ڈی ایس پی حضرات اپنے دفتروں میں موجود ہوتے ہیں اور کبھی کبھی وہ اپنے ماتحت ایس ایچ اوز کے ہمراہ علاقہ گشت میں موجود ہوتے ہیں جب کہ ہر ضلع کے ایس ایس پی یا ایس پی اپنے علاقوں کے دفتروں میں موجود ملتے ہیں اور لوگوں کی ان سے ملاقاتیں بھی ہو جاتی ہیں مگر ایس ایچ او سے ملنا ناممکن ہی ہوتا ہے صرف اپنے جاننے والوں کو وہ بتا دیتے ہیں کہ وہ کب تھانے میں ملاقات کے لیے دستیاب ہوں گے اس لیے تھانے اپنے کاموں سے آنے والوں کا واسطہ ڈیوٹی افسر یا ہیڈ محرر سے پڑتا ہے۔ یہ بات عام ہے کہ اکثر لوگ تھانوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ چوری ڈکیتی یا موبائل چھینے جانے کی صورت میں لوگ تھانے جانے سے گریز ہی کرتے ہیں کہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ تھانے جانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ وہاں انھیں پریشان ہی ہونا پڑے گا۔ کراچی میں موٹرسائیکلوں کی چوری عام ہے یا بائیک چھن جانے کی صورت میں مجبوری میں انھیں تھانے جا کر اطلاع دینا ضروری ہوتا ہے جہاں ان کی ایف آئی آر تو درج نہیں ہوتی صرف درخواست وصول کر لی جاتی ہے جس سے متاثرہ شخص مطمئن ہو جاتا ہے کہ اگر اس کی موٹرسائیکل ڈکیتوں نے کسی واردات میں استعمال کر لی تو اس کا بچاؤ ہو جائے گا ورنہ وہی ملزم گردانا جائے گا۔ کراچی میں تھانوں میں تعینات ایس ایچ او، سب انسپکٹر، اے ایس آئی مقامی تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے اور اگر مقامی اہلکار مل بھی جائیں تو ان کا رویہ غیر مقامیوں سے بھی بدتر اور درشت ہوگا اس لیے لوگ نقصان اٹھا لیتے ہیں، تھانے جانے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق ایک علاقے کی پولیس نے منشیات فروشی میں ملوث باپ اور پولیس اہلکار بیٹے کو گرفتار کیا ہے۔ گرفتار اہلکار 2018 میں بھرتی ہوا تھا جس پر مقدمات درج ہیں اور وہ سنگین مقدمات کے باوجود پولیس میں ملازمت کر رہا تھا اور خود سیکیورٹی ون میں تعینات ہے اور یہ واحد شخص نہیں بلکہ کراچی پولیس میں اعلیٰ افسران بھی ہیں جن پر عدالتوں میں مقدمات بھی چل رہے ہیں اور محفوظ بھی چلے آ رہے ہیں۔ گریجویٹ ایس ایچ اوز کی تعیناتی ایک مثبت قدم تو ہے مگر تھانوں کی اصلاح تب تک ممکن نہیں جب تک پولیس ملازمین کی چھانٹی اور ان کی اصلاح نہ ہو، تاکہ مقدمات میں ملوث ملزمان محکمہ میں رہ کر اپنے محکمے کو بدنام نہ کر سکیں۔ اصلاح کے لیے تھانوں میں SHO دفاتر کو کھلا رکھنا اشد ضروری ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل